جوہری ہتھیار: وہ کانیں جن کی وجہ سے ایٹم بم بنا

جوہری ہتھیار: وہ کانیں جن کی وجہ سے ایٹم بم بنا

جوہری ہتھیار: وہ کانیں جن کی وجہ سے ایٹم بم بنا

جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کی جانب سے گرائے گئے ایٹم بموں کی تیاری میں کانگو کے کردار کو کئی دہائیوں تک صیغہِ راز میں رکھا گیا۔ کانگو کے ایٹمی بموں کی تیاری میں کردار کو آج بھی محسوس کیا جاتا ہے۔

برطانیہ کی انسٹی ٹیوٹ آف کامن ویلتھ سٹڈیز سے وابستہ تاریخ دان سوزن ویلیمز کہتی ہیں کہ ‘ جب بھی میرے ذہن میں لفظ شِنکولوب وے آتا ہے میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ کوئی خوشی والا لفظ نہیں ہے، یہ ایسا لفظ ہے جو میرے لیے بہت زیادہ المناک اور تکلیف دہ ہے۔’

شاید بہت سے لوگوں کے علم میں ہو گا کہ ’شنکولوب وے‘ کیا ہے اور کہاں واقع ہے۔ لیکن عوامی جمہوریہ کانگو کے جنوبی صوبے کاٹنگا میں چھوٹی سی اِس کان کا دنیا کی تاریخ کے بس سے تباہ کن واقعے کے وقوع پذیر ہونے میں اہم کردار تھا۔

اس جگہ سے 7500 میل سے زیادہ فاصلے پر چھ اگست کو ہیروشیما میں 75 برس قبل ایٹم بم گرائے جانے کے المناک واقعے کی یاد میں گھنٹیاں بجائی گئیں۔

شہر کے معززین اور وہ لوگ جو ایٹم بم کے حملے سے بچ جانے میں کامیاب ہوئے تھے انھوں نے شہر میں جمع ہو کر دھماکے سے اور بعد میں پیدا ہونے والی تابکاری اثرات سے مرنے والوں کی یاد میں امن کے پیغامات والے روشن دیے شہر کے دریا موٹیویاسو میں بہائے۔

آج یعنی نو اگست کو اس طرح کی یاد منانے کی تقریبات ایٹمی حملے میں تباہ ہونے والے دوسرے شہر ناگاساکی میں منعقد ہو رہی ہیں۔

شنکولوب وے
شنکولوب وے میں یورینیم کوامریکیوں نے ذخیرہ کیا جن سے انھوں نے ایٹم بم بنائے جو سنہ 1945 میں جاپان کے شہروں ہر گرائے تھے۔

عوامی جمہوریہ کانگو میں اس طرح کی کوئی تقریب نہیں منائی جائے گی۔ لیکن یہ دونوں ممالک ایٹم بم کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بہت ہی پیجیدہ طریقے سے جُڑے ہوئے ہیں، ان بموں کے دھماکوں کے اثرات آج بھی محسوس کیا جا رہے ہیں۔

جنوبی افریقہ کی کانگولیز سول سوسائٹی (سی سی ایس ایس اے) کے سربراہ عیسائیہ مومبیلو کہتی ہیں کہ ’جب ہم ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم پھینکے جانے کی بات کرتے ہیں تو شنکولوب وے کے بارے میں کبھی بات نہیں کرتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کی کہانی کا دوسرا حصہ بھلا دیا گیا اور یہ تاریخ میں گُم ہو گیا ہے۔‘

شنکولوب وے کان، یہ نام ایک قسم کے اُبلے ہوئے سیب پر رکھا گیا تھا جسے اگر نچوڑا جائے تو شاید اس سے جلنے کا نشان باقی رہ جائے، امریکہ کے ایٹم بم بنانے کے منصوبے ‘مین ہیٹن پراجیکٹ’ کے لیے تمام یورینیم یہاں سے حاصل کی گئی تھی۔ بالآخر اس پراجیکٹ سے بننے والے ایٹم بم جاپان پر سنہ 1945 میں گرائے تھے۔

لیکن اس کان کی کہانی ان ایٹم بموں کے ذکر کے ساتھ ختم نہیں ہوجاتی ہے۔ اس کی ‘لِٹل بوائے’ اور ‘فیٹ مین’ جیسے منصوبوں میں شمولیت اور پھر انہی کی وجہ سے آنے والے وقت میں یہاں جاری رہنے والی تباہ کن خانہ جنگی نے اس ملک کو سیاسی طور پر کئی دہائیوں تک غیر مستحکم رکھا۔ یہاں تک کہ ان کانوں کی وجہ سے وہاں رہنے والے لوگوں کی صحت پر اس کے برے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

عیسائیہ ویلیمز جنھوں نے اپنی ایک کتاب ‘سپائیز اِن کانگو’ میں سنکولوب وے کے کردار کا تجزیہ کیا ہے، کہتی ہیں کہ ‘یہاں لوگ مسلسل اس المیے سے گزر رہے ہیں۔’ ان کا کہا ہے کہ اب ضرورت یہ ہے کہ مغربی طاقتوں نے ان کانوں میں ذخائر کو اپنے قابو رکھنے کے لیے ان ملکوں کا جس طرح استحصال کیا اُس کو تسلیم کیا جائے۔

جنوبی افریقہ کی عیسائیہ موبیلو بھی دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں جو کانگو کا کردار تھا اور ساتھ ساتھ اس کردار کی وجہ سے کانگو پر جو مصبتیں نازل ہوئیں، اُس کہ بارے میں ایک آگاہی کی تحریک چلا رہی ہیں۔ سنہ 2016 میں سی سی ایس ایس اے کے ‘مِسنگ لنک’ فورم پر کئی ایک سیاسی اور سماجی کارکنان، تاریخ دان، تـجزیہ کاران، اور ان ایٹم بموں سے متاثر ہونے والے جاپان اور کانگو دونوں ملکوں کے بچوں کو جمع کیا گیا تھا۔ موبیلو کہتی ہیں کہ ‘ہم کوشش کر رہے ہیں کہ شنکولوب وے کی تاریخ کو منظرِ عام پر لائیں تاکہ ہم دنیا کو آگاہ کرسکیں۔’

افریقہ سے باہر

شنکولوب وے کی کہانی سنہ 1915 سے شروع ہوتی ہے جب وہاں یورینیم کے بہترین ذخائر دریافت ہوئے تھے۔ اس وقت کانگو پر بیلجیئم کے نوآبادیاتی نظام کا تسلط تھا۔ اُس وقت یورینیم کی کوئی خاص طلب نہیں تھی، اس کی معدنایاتی شکل ‘پِچ بلینڈے’ کہلاتی تھی جو کہ جرمن زبان کا ایک لفظ تھا جس کے معنی ‘بے کار چٹانیں’ بنتا تھا۔ اصل میں بیلجئیم کی ایک کمپنی ‘یونین مائینیارے’ یہاں ریڈیم کی تلاش کے لیے کان کُنی کر رہی تھی۔ ریڈیم اُس زمانے میں ایک قیمتی کیمیائی عُنصر تھا۔ اسے حال ہی میں میری اینڈ پئیر کیوری نے علحیدہ کیا ہے۔

جب سنہ 1938 میں ‘نیوکلیر فِشن’ کی ٹیکنالوجی دریافت ہوئی تب سے یورینیم کی اہمیت بڑھ گئی۔ اس دریافت کے بارے میں جاننے کے بعد ایلبرٹ آئین سٹائین نے فوراً ہی امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کو خط لکھا جس اس میں یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ یہ کیمیائی عُنصر بے انتہا تونائی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ اس سے ایٹمی بم بھی بنایا جا سکتا ہے۔ سنہ 1942 میں امریکی فوج کے ماہرین نے فیصلہ کیا کہ وہ جتنا بھی خرید سکتے ہیں اتنا یورینیم خرید لیں تاکہ وہ مین ہیٹن پراجیکٹ کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ ایسی کانیں اگرچہ کولاراڈو اور کینیڈا میں موجود تھیں، لیکن جس اعلیٰ کوالٹی کا یورینیم کانگو میں موجود تھا وہ دنیا بھر میں کہیں اور نہیں تھا۔

ٹام زوئلنر جو اپنی کتاب ‘یورینیم – وار، اینرجی، اینڈ راک دیٹ شیپڈ دی ورلڈ’ کے لیے تحقیق کے سلسلے میں شنکولوب وے گئے تھے، کہتے ہیں کہ ‘شنکولوب وے کی زمین کی ساخت بہت ہی منفرد قسم کی ہے۔ اس سے زیادہ خالص قسم کا یورینیم کسی اور کان میں نہیں ملے گا۔ اس جیسا اس سے پہلے کہیں بھی نہیں ملا ہے۔’

امریکہ اور کینیڈا کی کانوں کی خام یورینیم کو مناسب درجہ کا کہا جاتا اگر وہاں 0.03 فیصد یورینیم ہوتی۔ لیکن شنکولوب وے میں خام یورینیم سے 65 فیصد تک یورینیم حاصل کی جاسکتی تھی۔ ایسے پتھر جنھیں بے کار سمجھا جاتا تھا، ان میں بھی 20 فیصد یورینیم موجود ہوتا تھا۔

ہیروشیما
ہر برس ہیروشیما کے شہری اپنے شہر پر ایٹم بم گرائے جانے کے المناک واقعے کی یاد مناتے ہیں۔ اس ایٹم بم سے ایک لاکھ پینتیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

یونین مائنیارے کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد جو کہ برطانیہ نے کرایا تھا جس کے اپنے اس کمپنی میں 30 فیصد حصص تھے، امریکہ نے 1200 ٹن یورینیم خرید کر امریکی جزیرے سٹیٹن آئیلینڈ میں ذخیرہ کرلیا۔ اس کے علاوہ امریکہ نے مزید 3000 ٹن یورینیم کا ذخیرہ شنکولوب وے کی کانوں کا باہر جمع کر لیا تھا۔ لیکن یہ بھی کافی نہیں تھا۔ امریکی فوج کے انجینئیروں کو کانگو بھیجا گیا تاکہ وہ ان کانوں کو پانی سے خالی کرسکیں، جس کی وجہ سے وہ اب قابلِ استعمال نہیں رہیں تھیں، اور انہیں دوبارہ سے قابلِ استعمال بنا سکیں۔

بیلجئیم کے کنٹرول کے زمانے میں کانگو کے مزدوروں سے یورینیم کا کانوں کی کھائی میں کھلے آسمان تلے دن رات مشقت کرائی جاتی تھی اور ہر مہینے سینکڑوں ٹن خام یورینیم امریکہ بھجوائی جاتی تھی۔ مومبیلو کہتی ہیں کہ ‘شنکولوب وے نے یہ فیصلہ کیا کہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک کون ہو گا۔ اس جگہ سے یہ فیصلہ ہوا۔’

یہ سارا کام بہت ہی خفیہ طریقے سے کیا گیا تھا تاکہ روم-برلن-ٹوکیو کو مین ہیٹن پراجیکٹ کا علم نہ ہو جائے۔ شنکولوب وے کو دنیا کے نقشوں سے مٹا دیا گیا تھا اور ایسے جاسوس اس خطے میں جان بوجھ کر بھیجے گئے جو مقامی لوگوں کو وہاں کی کارروائی کے بارے میں غلط معلومات دیتے تھے۔ یورینیم کو قیمتھی پتھر کہا جاتا تھا یا پھر صرف خام مال کہا جاتا تھا۔ لفظ شنکولوب وے کبھی کسی منہ سے ادا نہیں کیا گیا تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بھی کئی برسوں بعد تک خفیہ رکھنے کی اس پالیسی کو جاری رکھا گیا۔ عیسائیہ ویلیمز کہتی ہیں کہ ‘کوشش یہ کی جا رہی تھی کہ ایسا پیغام ملے کہ یورینیم کینیڈا سے حاصل کی جارہی تھی تاکہ کسی کے ذہن میں کانگو کا خیال تک نہ آئے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ کوششیں اتنی کامیاب رہیں کہ آج بھی لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ایٹم بم کینیڈا کی یورینیم سے بنائے گئے تھے۔

تاہم عالمی جانگ کے خاتمے کے بعد شنکولوب وے سرد جنگ میں ‘پراکسی’ جنگ کے میدان کے طور پر ابھرا۔ خام یورینیم سے خالص یورینیم کشید کرنے کی نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے مغربی طاقتوں کا شنکولوب وے کی یورینیم پر انحصار کم ہوتا چلا گیا۔ لیکن مقابلے کی دوسری طاقتوں کو اس یورینیم سے محروم رکھنے کے لیے ان کانوں پر کنٹرول رکھنا ضروری تھا۔ ویلیمز کہتی ہیں کہ ‘اب جبکہ امریکہ کو شنکولوب وے کے یورینیم کی قطعی ضرورت نہیں تھی، وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ سویت یونین کی ان کانوں تک رسائی ہو جائے۔’

جب کانگو نے سنہ 1960 میں بیلجیئم سے آزادی حاصل کی تو اس کان کو بند کردیاگیا تھا اور اس میں داخلے کے تمام راستوں کو مضبوط کنکریٹ سے سربمہر کردیا گیا تھا۔ مغربی طاقتیں اس بات کو یقینی بنانا چاہتی تھیں کہ کانگو میں جس دھڑے کی بھی حکومت آئے وہ شنکولوب وے میں ان کے مفادات کی حفاظت کرے۔

مومبیلو کہتے ہیں کہ ‘کیونکہ یورینیم کی طلب برقرار ہے اس لیے امریکہ اور اس کے طاقتور حلیف ممالک نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی بھی کانگو میں مداخلت نے کرسکے۔ جو بھی کانگو میں حکومت بنانا چاہتا اُس کے لیے اُسے ان کا تابع ہونا ضروری تھا۔’

جمی کارٹر
سرد جنگ کے دوران امریکہ نے جنرل موبوتو کے فوجی انقلاب کی حمایت کی کیونکہ وہ شنکولوب وے کی کانوں کو سویت یونین کے ہتھے نہ چڑھنے دیں گے۔

زوئلنر کہتے ہیں کہ اس لیے اُس وقت اہم بات تھی کہ کمیونسٹ خطرے کو روکا جا سکے، اور اس کے لیے مغربی طاقتوں نے سنہ 1965 میں پیٹرِس لُمبابا کی جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کا تختہ الٹانے کے لیے جنرل موبوتو کی آمریت کی حمایت کی جس نے اگلے دس برس تک ایک تباہ کُن دھن راج نافذ کیا۔

کانگو میں اپنے حالاتِ کار کو بہتر کرنے اور اپنی زندگیوں کو بہت بنانے کی کوششوں کو کمیونسٹ خطرے کا الزام لگا کر سختی سے کچلا گیا۔ ویلیمز کہتی ہیں کہ ‘آئیڈیلزم، امید اور کانگو کے شہریوں کے بہتر مستقبل کا خیال جو کسی بیرونی طاقت کے غلام نہ ہوں، ان سب کو فوجی آمریت نے مغربی طاقتوں کے سیاسی اور فوجی مفادات کی خاطر برباد کر کے رکھ دیا۔’

زخم جو آج بھی ہرا ہے

موبوتو کی حکومت کا خاتمہ بالآخر سنہ 1997 میں ہوا لیکن شنکولوبووے کے آسیب کا اثر کانگو پر بعد میں بھی برقرار رہا۔ تانبے اور کوبالٹ دھات کے بہترین ذخائر ہونے کی وجہ سے کانگو کے کان کنوں نے اُسی مقام پر غیر قانونی طور پر کھدائی کا کام پھر سے شروع کردیا جہاں کنکریٹ سے سربمہر کیے گئے یورینیم کا ذخائر بند تھے۔ گزشتہ صدی کے آخر میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پندرہ ہزار کان کن اور ان کے اہل خانہ اس شنکولوب وے کے مقام پر آباد تھے جہاں وہ تابکاری شعاؤں سے تحفظ کے انتظام کے بغیر خفیہ طور پر کھدائی جاری رکھے ہوئے تھے۔

اس وجہ سے حادثات کا ہونا ایک معمول تھا، سنہ 2004 میں آٹھ کان کن ہلاک ہوئے تھے جبکہ ایک درجن سے زیادہ زخمی ہوئے تھے جب ایک کان کا رستہ ڈھہ گیا تھا۔ مغربی طاقتیں اس خدشے کی وجہ سے غضبناک ہوئیں کہ کہیں ان کانوں سے بقیہ یورینیم چرا کر دہشت گردوں کو فروخت نہ کیا جا رہا ہو۔ اس کے نتیجے میں اُسی برس کانگو کی فوج نے اس مقام سے دیہاتیوں کے مکانات کو مکمل طور پر مسمار کردیا۔

اس خطے میں ایسی کئی کہانیاں مشہور ہیں کہ یہاں بچے جسمانی معذوریوں کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں، لیکن بہت ہی کم کے بارے میں میڈیکل رپورٹ رکھی گئی ہیں (شولڈر)

شنکولوب وے میں معدنیات کی دولت ہونے کے باوجود سنہ ساٹھ سےجب سے یونین مائنیارے یہاں سے روانہ ہوئی ہے، یہاں پر ایک بھی صنعتی سطح کی کان کنی نہیں ہوئی ہے جو محفوظ طریقے سے یہاں سے معدنیات کی کھدائی کرسکے اور پھر اس سے حاصل ہونے والی دولت کانگو کے عوام کو دے سکے۔

سنہ 2011 میں فیکوشیما نیوکلیر پاور پلانٹ کے حادثے کے بعد غیر فوجی مقاصد کے لیے یورینیم کی کان کنی کی امیدیں ختم ہو گئیں۔ زوئلنر کہتے ہیں کہ ‘یہاں تک کہ خام حالت میں بھی یورینیم پر کنٹرول مشکل ہو گیا ہے۔ اس وقت شنکولوب وے ایک بے یقینی کا شکار ہے، یہ اب یورینیم کی موروثی سیاسی-جغرافیائی عدم استحکام کی علامت بن گیا ہے۔’

شنکولوب وے کے بارے میں جاری پُر اسراریت (کئی ایک امریکی، برطانوی اور بیلجیئن اہلکاروں کے ریکارڈز اب تک ‘کلاسیفائیڈ سیکریٹ’ ہیں) کانگو کی دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادی طاقتوں کی فتح میں اہم کردار کو تسلیم کروائے جانے کی کوششوں میں رکاوٹ ہے۔ اور یہ پُر اسراریت اس کان کے ماحولیاتی اور صحت عامہ پر مرتب ہونے والے برے اثرات کے بارے میں بھی تحقیقات کی راہ میں حائل ہے۔

عیسائیہ ویلیمز کہتی ہیں کہ ان تمام واقعات کو کانگو کے استحصال کی طویل تاریخ کے حصے کے طور پر دیکھے جانے کی ضرورت ہے، جس میں پہلے نوآبادیاتی تسلط تھا اور اب جدید نوآبادیاتی نظام ہے۔ ‘کانگو کو نہ صرف دوسری عالمی جنگ کے دوران سنگین قسم کا نقصان اٹھانا پڑا — جبری مشقت کے ذریعے یورینیم کی کھدائی کی جاتی تھی — بلکہ یورینیم کی کھدائی سے ہونے والی آمدن یونین مائنیارے کے مالکان کو ملی، نہ کہ کانگو کے عوام کو۔’

ہینفورڈ
فیٹ مین ایٹم بم کے لیے جسے ناگاسکی پر گرایا گیا تھا، اس کے لیے یورینیم کی اسلحہ بنانے کی حد والے پلوٹونیم کی افزودگی ہینفورڈ کے ری ایکٹر بی میں کی گئی تھی۔

مومبیلو کہتے ہیں کہ ’اس کے اثرات میڈیکل، سیاسی اور اقتصادی اور کئی اور نوعیتوں کے ہیں۔ ہم پُراسراریت کی وجہ سے تابکاری کے منفی اثرات کے بارے میں کچھ بھی جاننے کے قابل نہیں ہیں۔‘

اس خطے میں ایسی کئی کہانیاں مشہور ہیں کہ یہاں بچے جسمانی معذوریوں کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں، لیکن بہت ہی کم کے بارے میں میڈیکل رپورٹ رکھی گئی ہیں۔

موبیلو کہتے ہیں کہ ’میں نے ایک شخص کو خود دیکھا ہے جس کا دماغ اس کے سر سے باہر نکل آنے کو وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی تھی، اور یہ تابکاری اثرات کا نتیجہ تھا۔ اس تمام عرصے میں اس خطے میں ایک بھی خصوصی ہسپتال تعمیر نہیں کیا گیا، (لوگوں کے) علاج کے لیے ایک بھی سائنسی ریسرچ نہیں کی گئی۔‘

شنکولوب وے کے کئی ایک متاثرین اب اپنے حقوق کو تسلیم کرائے جانے اور نقصان کے معاوضے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ لیکن یہ جاننا کہ کس کو یہ معاوضہ ملنا چاہئیے اور کسے یہ معاوضہ ادا کرنا چاہئیے، کان اور وہاں کیا ہوا کی معلومات کی کمی کی وجہ سے یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔

مومبیلو کہتے ہیں کہ ’شنکولوب وے کانگو پر ایک عذاب ہے‘

لیکن وہ مزید کہتے ہیں کہ ایک صدی کے بعد، اس ملک کی معدنی دولت کی وجہ سے عالمی سطح پر ایک کے بعد دوسرا انقلاب بپا ہو: ٹائروں کے لیے ربڑ کی وجہ سے کاروں کی صنعت میں انقلاب آیا، یورینیم سے چلنے والے ری ایکٹر بنے، کمپویٹر کولٹن دھات سے تیار کیے گئے، اور کوبالٹ سے موبائل فونز اور الیکٹرک کاروں کی بیٹریوں کی طاقت بنتی ہے۔

مومبیلو کہتے ہیں کہ ‘آج کی ہماری دنیا کانگو کی معدنیات کی وجہ سے ترقی کر رہی ہے۔ جو میں مثبت بات کرتا ہوں وہ یہ کہ جتنی بھی جدید ٹیکنالوجی کے میدانوں کی بات کی جاتی ہے اُن سب میں کانگو کا نام آتا ہے۔’

‘دنیا بھر میں کانگو کے فوائد بے شمار ہیں۔ شنکولوب وے کے نام کو ہیروشیما اور ناگاسکی کے ساتھ تسلیم کیا جانا اس قرض کی واپسی کی جانب پہلا قدم ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *