جنریٹر‘ والے حسن علی واپس آگئے

جنریٹر‘ والے حسن علی واپس آگئے

جنریٹر‘ والے حسن علی واپس آگئے

حسن علی اور پاکستانی کرکٹ شائقین کا تعلق بڑا پیچیدہ سا ہے۔ اس میں کبھی یکسانیت نہیں رہتی۔ کہیں اس میں وفور اور ولولے کا جوش جھلکتا ہے تو کبھی مایوسی اور سرد مہری۔ اور کہیں دونوں ایک دوسرے کو یکسر بھلا بھی بیٹھتے ہیں۔

چیمئپنز ٹرافی 2017 میں پاکستان کی غیر متوقع فتح کے کلیدی کرداروں میں سے نمایاں ترین حسن علی تھے۔ بالکل درست موقع پہ وکٹ لینے کی عادت، پرانی گیند سے ریورس سوئنگ، پھر تیز ترین پچاس ون ڈے وکٹوں کا ریکارڈ، جہاں وہ وقار یونس سے بھی آگے نکل گئے۔ ان کی ‘جنریٹر’ سلیبریشن تو ایک ٹریڈ مارک سی بن گئی۔

جب ورلڈ کپ 2019 آیا تو پاکستانی شائقین کی بہت سی امیدوں کا انبار حسن علی پہ تھا۔ رینکنگ اور زمینی حقائق سے قطع نظر بہت سے لوگ ویسی ہی کسی انہونی کی توقع کر رہے تھے جو دوسال پہلے انہی انگلش وکٹوں پہ ہوئی تھی۔

لیکن اس بیچ حسن علی کے لیے کافی کچھ بدل چکا تھا۔ چیمپئنز ٹرافی والے حسن علی میں جو ولولہ تھا اور اپنی ہستی کے ثبوت کی جو تشنگی تھی، دو سال میں وہ کافی حد تک بجھ چکی تھی۔ کچھ انجریز بھی آڑے آئیں، کچھ آف فیلڈ معاملات بھی دھیان بٹا گئے اور حسن علی وہ نہ رہے جو ایک میچ میں تین چار بار ‘جنریٹر’ چلایا کرتے تھے۔

ورلڈ کپ کے بعد حسن علی منظر سے یوں غائب ہوئے جیسے سکرپٹ رائٹر متنوع کرداروں کے ہجوم میں اچانک انھیں کہیں کھو بیٹھا ہو اور واپس بلانے کی ضرورت خود کہانی نے بھی محسوس نہ کی ہو۔

فاسٹ بولرز کی انجریز بہت حساس ہوتی ہیں۔ مقصد صرف زخم کو مندمل کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان تمام اتھلیٹک صلاحیتوں کو ازسرِنو جگانا بھی ہوتا ہے تا کہ وہ پھر سے اسی تیزی سے بیس بائیس قدم کی اڑان بھر کے ایک سو چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند پھینک سکے۔

کرکٹ

دوسرا پہلو نفسیاتی ہوتا ہے۔ ہر وقت دوڑنے بھاگنے والا جسم جب بار بار کسی تھیراپسٹ کے سامنے سٹریچر پہ پڑا ہوتا ہے تو اتھلیٹ کی ذہنی کشمکش اور گومگو بھی بڑھ جاتی ہے۔ اور پی سی بی کا فاسٹ بولرز کی انجریز کو ہینڈل کرنے میں ریکارڈ تو کبھی بھی خوش کن نہیں رہا۔

لیکن خوبیٔ قسمت سے حسن علی کے معاملے میں یہ سبھی پہلو اپنے اپنے تئیں درست سمت میں بڑھتے گئے اور ایک سال کے عرصے میں حسن علی اپنی اسی سطح پہ واپس آ گئے۔ آتے ساتھ ہی قائد اعظم ٹرافی کے فائنل میں اپنی ناقابلِ شکست اننگز سے ٹورنامنٹ کی تاریخ کا پہلا ‘ٹائی’ بھی تخلیق کر ڈالا۔

لیکن انٹرنیشنل لیول کی کرکٹ میں امتحان اس سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ مختلف صلاحیتوں کے حامل بہترین کھلاڑیوں اور متنوع کنڈیشنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر اس درجے کی مسابقتی کرکٹ میں مقابلے کا اضافی دباؤ بھی جھیلنا پڑتا ہے۔

بعض ناقدین حسن علی کی ڈومیسٹک کارکردگی کے باوجود انٹرنیشنل لیول پہ اس کارکردگی کے پنپنے کے بارے کچھ نہ کچھ خدشات رکھ رہے تھے۔ یہ حسن علی کا دوسرا امتحان تھا۔

جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز میں حسن علی کی واپسی نے اگرچہ کافی سوالوں کے جواب دے چھوڑے تھے مگر یہ بات بھی اپنی جگہ وزن رکھتی ہے کہ راولپنڈی اور کراچی کی کنڈیشنز کافی حد تک ان کے لئے سازگار رہیں۔ حتی کہ جنوبی افریقہ کے دورے پہ بھی انہیں فاسٹ بولنگ کے لئے سازگار وکٹیں ملیں جن سے انہوں نے پورا انصاف بھی کیا۔

ہرارے سپورٹس کلب کی وکٹ بہرطور ان سبھی تجربات سے خاصی مختلف تھی۔ یہاں باؤنس کم تھا، وکٹ کی چال سست تھی اور بولنگ میں اگر کوئی ڈیپارٹمنٹ پرجوش ہو سکتا تھا تو وہ سپن ڈیپارٹمنٹ ہی ہو سکتا تھا۔

وسیم اکرم کچھ عرصہ پہلے ایک نجی ٹی وی کی ڈاکیومینٹری میں مائیکل ہولڈنگ سے گفتگو کر رہے تھے جہاں ہولڈنگ کے سوال کے جواب میں انہوں نے یہ راز بتایا کہ پاکستانی سڈت وکٹوں پہ ایسے باکمال فاسٹ بولرز کیسے تیار ہوتے ہیں۔

کرکٹ

اپنے بارے ان کا کہنا تھا کہ جب وکٹ سے کوئی مدد میسر ںہ ہوتی تو وہ مڈل سٹمپ لائن کو ہدف بنا کر اگلی لینتھ پہ متواتر ڈسپلن سے گیندیں پھینک کر بلے باز کو (across the line) کھیلنے پہ مجبور کیا کرتے تھے۔

کہنے کو یہ بہت سادہ سی بات ہے مگر کڑی دھوپ میں بلے بازی کے لیے سازگار وکٹوں پہ متواتر رنز روک کر ایسے ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔

حسن علی کے دورۂ زمبابوے کو اسی تناظر میں دیکھا جائے تو حریف بلے بازوں کی ناتوانی سے قطع نظر، ان کا ڈسپلن کمال تھا۔ ایسی سست وکٹ جہاں پہ سپنرز کا راج متوقع تھا، وہاں حسن علی کی یہ کاٹ نہ صرف قابلِ ستائش ہے بلکہ اس پہلو سے باعثِ امید بھی ہے کہ جولائی کے دورۂ ویسٹ انڈیز پہ پاکستانی پیس کیمپ کا پلڑا بھاری رہنے کا امکان ہو گا۔

کیونکہ بالآخر ‘جنریٹر’ والے حسن علی واپس آ چکے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *