جمناسٹکس میں جنسی استحصال روکنے کے لیے جرمن خاتون جمناسٹ متحرک
سارہ ووس نے اپنے کھیل کا کوئی قانون نہیں توڑا لیکن اس ہفتے یورپین جمناسٹکس چیمیئن شپ میں ان کے فُل باڈی لباس نے اس کھیل کی روایت کو چیلنج کیا ہے۔
سارہ ووس جرمنی سے تعلق رکھنے والی ایک جمناسٹکس کی کھلاڑی ہیں اور انھوں نے اس ہفتے یورپین جمناسٹک چیمیئن شپ میں جمناسکٹس کے روایتی چھوٹے لباس کے بجائے پورے جسم کو ڈھانپے والے لباس کا انتحاب کیا۔
آج تک جمناسٹکس کے بین الاقوامی مقابلوں میں خواتین اور لڑکیاں اپنی ٹانگوں کو محض مذہبی وجوہات کی بنا پر ہی ڈھانپ لیا کرتی تھیں۔
سارہ ووس کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے فیصلے پر فخر ہے اور انھیں اس فیصلے پر ان کے ملک کی جمناسٹکس فیڈریشن کی حمایت بھی حاصل ہے۔
جرمنی کی دونوں خواتین ساتھی کھلاڑیوں نے جمعے کو جمناسٹکس چیمیئن شپ کے خواتین کے فائنل مقابلوں کے راؤنڈ میں ایسا ہی کیا تھا۔ انھوں نے ٹانگوں کو بھی ڈھانپ رکھا تھا۔
جرمنی کی جمناسٹکس فیڈریشن کا کہنا ہے کہ سوئس شہر بیسل میں ہونے والے جمناسٹک مقابلوں میں خواتین کھلاڑیوں نے پورے جسم کو ڈھانپ کر ‘جمناسٹکس میں لباس کے ذریعے جنسی شہوانیت ابھارنے کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔’ فیڈریشن کا مزید کہنا تھا کہ جنسی استحصال کو روکنے کے لیے یہ معاملہ اور بھی اہم ہو گیا ہے۔
سارہ ووس کا کہنا ہے کہ ’ہمیں امید ہے کہ وہ جمناسٹکس کھلاڑی جنھیں روایتی لباس میں پریشانی ہوتی ہے وہ ہماری مثال پر عمل کرنے میں ہمت محسوس کریں گے۔‘
کم بیو نے ابتدائی طور پر بدھ کو ہونے والے مقابلے میں جمناسٹک کا روایتی لباس پہنا تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ٹیم کے طور پر ایک مثال قائم کرنا چاہتی تھیں۔
الیزبیتھ سیٹز نے پہلے کہا تھا کہ اس بارے میں فکر مند ہونے کی کوئی بات نہیں، کیونکہ غلطی سے بھی اس سے کچھ دِکھنے کا خطرہ نہیں ہے۔
’میں بہت زیادہ بُرا محسوس کرنے لگی تھی‘
سارہ ووس نے ملکی نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کو ایک انٹرویو میں اپنے اس فیصلے کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم تمام خواتین اپنے جسم کے بارے میں اچھا محسوس کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن جمناسٹک کے اس کھیل میں جیسے جیسے آپ بلوغت کی طرف جاتے ہے تو یہ مشکل سے مشکل ہوتا جاتا ہے۔
„ایک چھوٹی بچی کی حیثیت سے مجھے اس چست اور چھوٹے لباس سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن جب میں بالغ ہوئی اور ماہواری شروع ہوئی تو مجھے اس میں بہت زیادہ برا لگنا شروع ہو گیا۔‘
جرمن فیڈریشن کا کہنا ہے کہ جمناسٹکس کے کھیل سمیت دیگر کھیلوں میں خواتین ایتھلیٹس کو ہر وقت اپنے لباس میں آرام اور اچھا محسوس ہونا چاہیے۔
جمعرات کو انسٹاگرام پر اپنے پیغام میں سارہ ووس نے بتایا کہ یہ فیصلہ ‘ان کی ٹیم کے دل کے بہت قریب ہے۔‘
جمناسٹک کے مقابلے میں ان کی کارکردگی اتنی اچھی نہیں رہی جتنا کہ انھیں امید تھی لیکن ان کے فیصلےکو وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’اچھا محسوس کرنا اور خوبصورت دکھنا؟ کیوں نہیں؟‘
انٹرنیشنل جمناسٹک فیڈریشن کے قوانین کے تحت جمناسٹکس کھلاڑیوں کو ٹخنوں تک مکمل جسم ڈھانپنے والا ’ون پیس جمناسٹک سوٹ‘ پہننے کی اجازت ہے، بشرطیہ کے وہ خوبصورت ڈیزائن کا ہو۔
سیٹز کا کہنا ہے کہ سب کھلاڑیوں نے فل باڈی سوٹ میں تربیت اور پریکٹس کی اور پھر ایک موقع پر خود سے پوچھا کہ وہ مقابلوں میں ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔
ڈچ خاتون جمناسٹک کھلاڑیوں نے بھی اس اقدام کو سراہا ہے۔ ایک ترجمان نے نشریاتی ادارے نوس کو بتایا کہ جب کوئی کھلاڑی اپنے مقابلے کے دوران اپنے لباس کو زیادہ آرام دہ بنانے کی کوشش کرتی تو ججز اکثر اس کے پوائنٹس کاٹ لیتے تھے۔
سارہ ووس کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ خود کبھی جنسی استحصال کا شکار نہیں رہی لیکن وہ اور ان کی ساتھی خواتین کھلاڑی نوجوان ایتھلیٹس کے لیے رول ماڈل ہیں اور چاہتی ہیں کہ ہر کوئی اپنے حق کے لیے کھڑا ہو۔
امریکی جمناسٹک کھلاڑی سائمون بائلز جن کا کہنا ہے کہ انھیں جیل میں قید سپورٹس ڈاکٹر لیری نسر نے جنسی استحصال کا نشانہ بنایا تھا۔
انھوں نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ان کا ٹوکیو اولمپکس میں حصہ لینے کا ایک مقصد اس حوالے سے بات کرنا اور جنسی استحصال کا شکار خواتین کی آواز بننا ہے۔