جب ہندوستان میں لڑکی پیدا ہوتے ہی مار دینے کا رواج تھا
16ویں صدی کے آغاز پر ہندوستان کا دورہ کرنے والے ایک پرتگالی سیاح باربوسا نے لکھا ہے کہ کس طرح ’یہاں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی یا کچھ کو پیٹ ہی میں مار دیا جاتا ہے۔‘
یہ تحریر ہندوستان میں بچیوں کے قتل کا ابتدائی حوالہ ہے۔ تاہم اس میں یہ واضح نہیں تھا کہ آیا ایسا ہندوستان میں ہر جگہ ہوتا تھا یا یہ اس کے بعض علاقوں تک محدود تھا۔
تب ابھی ہندوستان میں مغل حکمرانوں نے قدم نہیں جمائے تھے۔ مغل بادشاہ اکبر کا لگ بھگ پچاس سالہ دور، باربوسا کے دورے کے بہت بعد، 1542 میں شروع ہوا تھا۔
شہنشاہ اکبر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بچیوں کے قتل کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کرتے رہتے تھے اور اس کے مجرموں پر بھاری جرمانہ عائد کرتے تھے۔
نوآبادیاتی دور میں کئی برطانوی حکام اور سکالرز نے ہندوستان میں بچیوں کے قتل کے رواج کو دستاویزی شکل دی۔
مثال کے طور پرسنہ 1789 میں، حیدرآباد کے نظام کے دربار میں برطانوی ریذیڈنٹ، جوناتھن ڈنکن نے ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ کارن والِس کو ایک خط میں بتایا کہ بچیوں کا قتل ’ہندوستان کے کچھ حصوں میں عام ہے۔‘
اسی طرح سنہ 1804 میں، بمبئی پریزیڈنسی میں ایک برطانوی اہلکار کیپٹن الیگزینڈر ریڈ نے کَچھ کے علاقے میں بچیوں کے قتل پر ایک رپورٹ لکھی۔ ریڈ کا اندازہ تھا کہ ’پیدا ہونے والی بچیوں میں سے اگر آدھی نہیں تو کم از کم ایک تہائی کو مار دیا جاتا ہے۔‘
سنہ 1828 میں برطانوی مشنری ولیم کیری نے بنگال میں بچیوں کے قتل پر ایک پمفلٹ میں بتایا کہ یہ عمل بعض ذاتوں اور برادریوں میں ’تقریباً یونیورسل یا عمومی‘ ہے۔
سنہ 1817 سے 1827 تک بمبئی پریزیڈنسی کے گورنر جیمز گرانٹ ڈف نے اپنی کتاب ’مراٹھوں کی تاریخ‘ میں لکھا ہے کہ راجستھان کے راجپوتوں میں بچیوں کا قتل عام ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’راجپوتوں میں بیٹی کی پرورش کو ذلت آمیز سمجھا جاتا ہے۔ بیٹے کی پیدائش کا استقبال خوشی اور بیٹی کی پیدائش کا غم سے کیا جاتا ہے۔ نوزائیدہ بچیوں کا گلا گھونٹنا یا انھیں زندہ دفن کرنا ایک عام رواج ہے۔‘
انیسویں صدی کے وسط میں، برطانوی معالج ڈاکٹر الیگزینڈر ایس مرے نے لکھا کہ ’ نوزائیدہ بچیوں کو مارنا ہندوستان میں ایک بہت پرانا رواج ہے جو ملک کے کچھ حصوں میں خوفناک حد تک جاری ہے۔‘
تاریخِ ہندوستان پر اپنی کتاب میں مؤرخ ایچ ایم ایلیئٹ نے لکھا ہے کہ ’ہندو قانون میں ممنوع ہونے کے باوجود بچیوں کا قتل اعلیٰ ذاتوں میں بہت عام تھا، جو ایک بیٹی کی پیدائش کو بے عزتی اور شرمندگی کا باعث تصور کرتے تھے۔‘
برطانوی نوآبادیاتی حکومت کو ہندوستان میں بچیوں کے قتل سے متعلق بنیادی آگاہی ایسے ہی مشاہدات سے ہوئی۔
تاہم یہ 1871 میں مکمل ہونے والی برطانوی ہندوستان میں پہلی مردم شماری تھی جس کے نتائج نے بچیوں کے قتل کے مسئلہ کی شدت کے بارے میں ٹھوس ثبوت فراہم کیے تھے۔
مثال کے طور پر پنجاب میں مردم شماری سے پتا چلا کہ کچھ علاقوں میں ہر1000 لڑکوں کے مقابلے میں چھ سال سے کم عمر کی صرف 690 لڑکیاں تھیں۔ جب کہ عام تناسب 950 لڑکیاں فی 1000 لڑکوں کا تھا۔ اسی طرح شمال مغربی صوبوں اور اودھ کے کچھ حصوں میں جنس کا تناسب 1000 لڑکوں کے مقابلے میں 618 لڑکیوں کا تھا۔
ایک برطانوی نوآبادیاتی منتظم ہنری کاٹن نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ مردم شماری کے عملے کے ایک رکن کا سامنا شمال مغربی صوبوں کے ایک گاؤں میں ایک شخص سے ہوا جو دو بچیوں کے ساتھ تھا۔
جب گنتی کرنے والے نے اس کی بیٹیوں کے بارے میں پوچھا تو اس شخص نے جواب دیا: ’لڑکیاں ٹھیک ہیں۔ ہم نے انھیں ابھی نہیں مارا، یہ ابھی بہت چھوٹی ہیں۔‘
مردم شماری کا میمورنڈم، جو مردم شماری کا ایک تعارف ہے ہنری واٹر فیلڈ نے لکھا تھا۔
ان کے مطابق معلومات کو مختلف اوقات میں اکٹھا کیا گیا، اکثر مختلف طریقے استعمال کرتے ہوئے صوبوں سے کچھ رپورٹس سنہ 1871 سے چھ سال پہلے جمع کی گئیں۔
’قصبوں میں مردم شماری میونسپل حکام کے ذریعے کی گئی لیکن دیگر علاقوں میں تنخواہ دار شمار کنندگان، سردار یا عام لوگ شامل تھے۔ تاہم، بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ حکومت اس مشق سے فائدہ اٹھائے گی اور خدشہ ہے کہ ان پر کسی طرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔‘
مردم شماری کے مطابق برطانوی ہندوستان میں آبادی کی اوسط131 افراد فی مربع کلومیٹر تھی۔ کل 493,444 گاؤں اور قصبے تھے۔
ان میں سے 480,437 گاؤں کی آبادی 5,000 سے کم تھی۔ 1,070 قصبوں میں 5,000 سے 10,000 کے درمیان لوگ تھے، اور صرف 46 میں 50,000 سے زیادہ لوگ تھے۔
55 لاکھ سے زیادہ لوگ یا کل آبادی کا تین فیصد سے کم شہروں میں رہتے تھے۔
تقریباً 140 ملین ہندو (اور سکھ) آبادی کا 73.7 فیصد تھے، 40 ملین مسلمان کل کا تقریباً 21.5 فیصد تھے اور نو ملین ’دیگر‘ یا بمشکل پانچ فیصد تھے۔ ’دیگر‘ میں بدھ، جین، عیسائی، یہودی، پارسی، برہمو، پہاڑی لوگ اور دوسرے شامل تھے جن کا مذہب معلوم نہیں تھا۔
لاہور میں ہونے والی مردم شماری کی رپورٹ کے مصنف کے الفاظ میں ’ایک کے بعد دوسری بیٹی پیدا ہونے کے بعد باپ بھاری بوجھ کو برداشت کرنے سے مایوس ہے اور اسے امید ہے کہ بچیاں مر سکتی ہیں۔‘
بیماری میں علاج نہ کروانا اس کی ’خواہش‘ کے پورا ہونے کے لیے کافی ہے۔ آبادی کے ناپسندیدہ حصے کو کم کرنے کا یہ رواج نسلوں سے کم و بیش پرتشدد طریقوں سے چل رہا ہے، اور اس کے اثرات اب خواتین اور لڑکیوں کی کم تعداد میں واضح طور پر محسوس ہو رہے ہیں۔‘
میمورنڈم میں لکھا ہے کہ اس وحشیانہ عمل کو روکنے کی کوششیں گذشتہ 70 سالوں سے مختلف طریقوں سے برطانوی افسروں نے کی ہیں، جن میں سے ایک شادی کے اخراجات کو کم کرنا ہے۔
’اگرچہ یہ کوششیں کافی حد تک کامیاب رہی ہیں لیکن یہ عمل اب بھی عام ہے۔ مثال کے طور پر میرٹھ کے ایک گاؤں کے ایک قبیلے میں 80 لڑکوں کے مقابلے میں 12 سال سے کم عمر کی صرف آٹھ لڑکیاں پائی گئیں۔‘
مردم شماری میں ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں میں بھی بچیوں کے قتل کا رواج پایا گیا۔ مثال کے طور پر یہ رواج ہندوستان کے بعض علاقوں میں کچھ مسلم کمیونٹیز میں بھی رائج تھا۔ سنہ 1871 کی مردم شماری میں شمال مغربی صوبوں میں مسلمانوں میں نمایاں صنفی عدم توازن ریکارڈ کیا گیا۔
سکھوں، جین اور بدھ مت کے ماننے والوں میں بھی بچیوں کے قتل کی رپورٹیں ملیں۔ تاہم یہ عمل بعض ہندو برادریوں میں سب سے زیادہ عام تھا، خاص طور پر وہ جو ذات پات کے سخت قوانین پرعمل پیرا تھے اور جو مرد اولاد کو ترجیح دیتے تھے۔
برطانوی مؤرخ اور نوآبادیاتی منتظم جیمز کیئرڈ نے لکھا کہ مردم شماری نے ہندوستان کے بعض حصوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد میں ایک ’حیران کن‘ عدم توازن کا انکشاف کیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’خواتین کی نسل کشی بڑے پیمانے پر کی جاتی تھی۔‘
ہندوستان اور برطانیہ دونوں میں اس پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ ہندوستان میں مردم شماری کے نتائج کو پریس میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا اور بچیوں کے قتل کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ برطانیہ میں مردم شماری کے نتائج پر پارلیمنٹ اور میڈیا میں بحث ہوئی اور شیر خوار بچیوں کے قتل کے رواج پر عوامی غم و غصہ پایا گیا۔
مردم شماری کے نتائج کے خلاف کچھ مظاہرے اور ردعمل بھی سامنے آئے۔
برطانوی نوآبادیاتی منتظم جیمز ڈی کننگھم اپنی یادداشتوں میں بیان کرتے ہیں کہ کس طرح پنجاب میں کچھ ہندو اور سکھ رہنماؤں نے جنس کے تناسب سے متعلق مردم شماری کے اعداد و شمار پر اعتراض کیا اور یہ دلیل دی کہ یہ ہندوستانی ثقافت اور مذہب کو بدنام کرنے کی انگریزوں کی سازش ہے۔
تاہم کننگھم نے نوٹ کیا کہ یہ مظاہرے بڑی حد تک ناکام رہے اور بعد میں ہونے والی مردم شماریوں میں جنسی تناسب کے اعداد و شمار جمع کیے جاتے رہے۔
مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر نوآبادیاتی حکومت نے بچیوں کے قتل کے عمل کو روکنے کے لیے فوری اقدام کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا۔ اس کی وجہ سے 1870 میں ’فیمیل انفینٹیسائیڈ پریوینشن ایکٹ‘ کا قانون منظور ہوا جس کے تحت بچیوں کو قتل کرنا جرم قرارپایا۔
قانون یہ بھی تقاضا کرتا تھا کہ دائیاں اورپیدائش میں شریک دیگر افراد بچی کی پیدائش کی اطلاع دیں، اور ایسا کرنے میں ناکامی قانون کے مطابق قابل سزا تھی۔ یہ ایکٹ بچیوں کے قتل کے مسئلے کو حل کرنے کی طرف ایک اہم قدم تھا، لیکن اس کا نفاذ محدود تھا۔
میمورنڈم کے مطابق ’اس قانون کوان علاقوں میں نافذ کیا جا رہا ہے جہاں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کی کل تعداد سے 35 فیصد کم ہے، یا دوسرے لفظوں میں، جہاں ہر 100 لڑکوں کے مقابلے میں 54 لڑکیاں ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنسوں کی فطری مساوات کا بہت قریب تر اندازہ لگایا جائے گا۔‘
اس قانون کی بھی مخالفت کی گئی۔
ہندوستانی سماجی مصلح پنڈت آرمابائی کی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ مہاراشٹر میں کچھ ہندو پجاریوں نے اس قانون کی مخالفت کی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یہ ہندو روایت کے خلاف ہے اور یہ ہندوستانی معاشرے کو کنٹرول کرنے کے لیے انگریزوں کی ایک چال ہے۔
تاہم رمابائی نے نوٹ کیا کہ بہت سے ہندوستانی سماجی اصلاح کاروں نے قانون کی حمایت کی اور لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت اور ہندوستانی معاشرے میں خواتین کی قدر کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کام کیا۔
قانون کے نفاذ کے بعد پانچ سے دس سال کے عرصے کے دوران، جس میں 1883 کا فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ بھی بنایا گیا، ہندوستان میں بچیوں کے قتل کے تقریباً 333 مقدمات چلائے گئے اور 16 افراد کو موت، 133 کو عمر قید اور دیگر کو مختلف مدتوں کی سخت قید کی سزا سنائی گئی۔
بھیرو نامی ایک شخص پر شمال مغربی صوبوں کے گاؤں رام نگر میں اپنی نوزائیدہ بیٹی کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ سماعت کے دوران بھیرو نے دلیل دی کہ بیٹی کی موت قدرتی وجوہات سے ہوئی۔ تاہم استغاثہ نے ثبوت پیش کیے کہ بھیرو نے اپنی بیٹی کی پیدائش کو خفیہ رکھنے کے لیے ایک دایہ کو رشوت دینے کی کوشش کی تھی اور اس کے بعد اس کی لاش کو قریبی کنویں میں پھینک دیا تھا۔
جج جسٹس جان ایج نے بھیرو کواپنی بیٹی کے قتل کا مجرم قرار د یتے ہوئے موت کی سزا سنائی۔ جج نے لکھا کہ فیمیل انفینٹیسائیڈ پریوینشن ایکٹ ’معصوم شیر خوار بچوں کی زندگیاں بچانے‘ کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔
سنہ 1870 کے قانون کے باوجود بچیوں کے قتل کا جرم نہیں رکا۔ ایک اخبار نے لکھا کہ ’پہلے لڑکیوں کو ان کی پیدائش کے وقت ہی قتل کر دیا جاتا تھا لیکن اب جب سے ایکٹ نافذ ہوا ہے انھیں ایک یا دو سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی بیماری سے مرنے دیا جاتا ہے۔
’اس طرح یہ سمجھا جائے گا کہ پرانا رواج موجودہ سے کم مکروہ تھا۔‘
سنہ 1885 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں ہندوستانی سماجی مصلح سوامی وویکانند نے لکھا کہ ’ملک کے کچھ حصوں میں بچیوں کے قتل کو تشویشناک حد تک رواج دیا جاتا ہے۔‘
اپنے ایک مضمون میں ایل ایس وشواناتھ لکھتے ہیں کہ ’انگریز اس عمل کو ہندوستانی معاشرے کی پس ماندگی اور بربریت کے مظہر کے طور پر دیکھتے تھے اور اس کے نتیجے میں انھوں نے اسے ختم کرنے کے لیے اکثر پدرانہ اور آمرانہ انداز اپنایا۔‘
’بچیوں کے قتل کا عمل اکثر وسیع تر سماجی اور اقتصادی عوامل سے منسلک ہوتا تھا، جیسے جہیز کا نظام اور مرد وارثوں کی ترجیح، جسے برطانوی مؤثر طریقے سے حل کرنے میں ناکام رہے۔‘
تاہم پہلی مردم شماری میں بچیوں کے قتل کی باقاعدہ نشاندہی اور اس کے خلاف قانون نقطہ آغاز ضرور ثابت ہوئے۔
بعد میں ہر دس سال بعد ہونے والی مردم شماریوں میں اس مسئلے کو اجاگر کیا جاتا رہا اور بیداری پیدا کرنے اور تعلیمی اور سماجی اصلاحات کو فروغ دینے کے لیے کئی مہمات بھی چلتی رہیں۔
روایتی ثقافتی اور مذہبی عقائد کی مزاحمت کے باوجود عوامی آگاہی میں اضافہ ہوتا رہا اور قانون بھی سخت سے سخت ہوتا گیا۔ یوں یہ رواج ختم تو نہ ہو سکا مگر اس میں خاصی کمی ضرور آئی۔