جب میں لڑکوں کو سکول جاتے دیکھتی ہوں تو دکھ ہوتا ہے
میں ہر روز سکول واپس جانے کی امید کے ساتھ جاگتی ہوں۔ وہ (طالبان) کہتے رہتے ہیں کہ وہ سکول کھولیں گے۔ لیکن اب تقریباً دو سال ہو چکے ہیں۔ مجھے ان پر یقین نہیں ہے۔ اس سے میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔‘
یہ کہنا ہے 17 سالہ حبیبہ کا جو اپنی آنکھیں بھینچتے ہوئے اور اپنے ہونٹ دانتوں تل دباتے ہوئے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
حبیبہ اور ان کی جماعت کی سابقہ ساتھی مہتاب اور تمنا افغانستان کی ان ہزاروں نوجوان لڑکیوں میں سے ہیں جن پر طالبان کی جانب سے سکول جانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
اگرچہ ان کے سکول جانے پر پابندی کو ڈیڑھ برس بیت گیا ہے اور ان کی زندگی رک گئی ہے لیکن ان کا یہ زخم آج بھی زندہ ہے۔
تعلیمی سال کا آغاز
ان لڑکیوں کا کہنا ہے کہ انھیں خدشہ ہے کہ ان کے ساتھ جو طالبان نے کیا ہے اس پر عالمی ردعمل میں کمی آ رہی ہے اور وہ روزانہ اس تکلیف کو برداشت کر رہی ہے۔
تمنا کا کہنا ہے کہ ’میں جب لڑکوں کو سکول جاتے یا وہ جو چاہتے ہیں وہ کرتے دیکھتی ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ مجھے برا لگتا ہے۔ جب میں اپنے بھائی کو سکول جاتے دیکھتی ہوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے۔‘
یہ باتیں کرتے ہوئے ان کی آواز بھری ہوئی تھی اور ان کے آنسو ان کے گالوں سے نیچے بہہ رہے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس سے قبل میرا بھائی کہا کرتا تھا کہ میں تمھارے بغیر سکول نہیں جاؤں گا۔ میں نے اسے گلے لگایا اور کہا کہ تم جاؤ میں جلد ہی تمھارے ساتھ آؤں گی۔‘
’لوگ میرے والدین سے کہتے ہیں آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کے بیٹے ہیں۔ کاش ہمیں بھی یہ حقوق حاصل ہوتے۔‘
لڑکیوں کے سکولوں کے دوبارہ کھولے جانے کی جو بھی امیدیں تھیں وہ طالبان حکومت کی جانب سے خواتین پر عائد بڑھتی ہوئی پابندیوں کی وجہ سے ختم ہو گئی ہیں۔
حبیبہ کا کہنا ہے کہ ’شروع میں کچھ آزادی تھی لیکن پھر رفتہ رفتہ سب کچھ بدل گیا۔‘
لڑکیوں کے سکینڈری سکول جانے پر پابندی سب سے پہلے دسمبر 2021 میں عائد کی گئی تھی جب طالبان نے کہا تھا کہ اگر عورت 72 کلومیٹر سے زیادہ سفر کرے گی تو اسے اپنے کسی مرد رشتہ دار کے ساتھ سفر کرنا ہوں گا۔
مارچ 2022 میں طالبان حکومت نے اعلان کیا تھا کہ لڑکیوں کے سیکنڈری سکول دوبارہ کھولے جائیں گے لیکن اس کے چند گھنٹوں بعد ہی انھیں بند کر دیا گیا تھا۔
لباس سے متعلق حکمنامہ
دو ماہ سے بھی کم عرصے میں طالبان نے ایک فرمان جاری کیا کہ خواتین کو سر سے پاؤں تک ڈھانپنے والا لباس پہننا ہو گا اور چہرے پر نقاب بھی کرنا ہو گا۔
نومبر میں خواتین اور لڑکیوں کو پارکس، جمز اور سوئمنگ پولز میں جانے سے روک دیا گیا تھا۔ اسی طرح یونیورسٹی کی سطح پر بھی خواتین کو اکنامکس، جرنلزم اور انجینیئرنگ جیسے مضامین اختیار کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
اس کے ایک ماہ بعد ہی اس وقت خواتین کی آزادی اور تعلیم کو شدید دھچکہ پہنچا جب یونیورسٹیوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی اور خواتین کو مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظمیوں میں ملازمت کرنے سے روکا گیا۔ خواتین کو صرف صحت کے شعبے میں کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ مہتاب کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ پابندیاں بڑھتی رہیں تو میرے خیال میں یہاں عورت کی زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہمیں اپنے بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ زندگی کا تعلیم کے بنا کوئی مطلب نہیں ہے۔ میرے خیال میں ایسی زندگی سے تو موت بہتر ہے۔‘
مہتاب مئی 2021 میں سید الدشہدا سکول میں ہونے والے بم حملے میں زخمی ہوئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب طالبان امریکی افواج اور سابق افغان حکومت کے خلاف لڑ رہے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے گردن، چہرے اور پاؤں پر زخم آئے تھے۔ وہ زخم بہت تکلیف دہ تھے لیکن میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے پرعزم تھی۔ میں نے اسی زخمی حالت میں اپنے مڈٹرم امتحانات دیے تھے لیکن اس کے کچھ ہی عرصے بعد طالبان اقتدار میں آ گئے اور سب ختم ہو گیا۔‘
’مناسب ماحول‘
طالبان کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے سکول اور یونیورسٹیوں کو ’مناسب ماحول‘ بننے تک عارضی طور پر بند کیا گیا ہے۔
یہ واضح ہے کہ طالبان حکومت میں اس مسئلے پر تقسیم ہے لیکن اب تک وہ لوگ جو لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور انھیں تعلیم کی اجازت دینے کے حق میں ہیں، ان کی کوششیں بے ثمر ثابت ہوئی ہیں۔
اگر دیگر پابندیوں کی بات کی جائے تو طالبان کا کہنا ہے کہ یہ اس لیے عائد کی گئی کیونکہ خواتین حجاب نہیں کرتی تھیں یا اسلامی قوانین پر عمل نہیں کرتی تھیں۔ طالبان کے قوانین کا نفاذ پورے ملک میں یکساں نہیں ہے لیکن اس پابندیوں نے ملک بھر میں خوف اور غیر یقینی کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔
تمنا کا کہنا ہے کہ ’ہم ہمیشہ حجاب پہنتی ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ کیا چاہتے ہیں کسی کو نہیں پتا۔‘
افغانستان میں ہمارے قیام کے دوران طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد میں ہم ایک بھی ایسی خاتون سے نہیں ملے جس نے حجاب نہ پہنا ہو۔
خواتین کی لائبریری
عوامی مقامات میں خواتین کی سکڑتی جگہ کو پر کرنے کے لیے لیلہ باسم نے کابل میں ایک خواتین کی لائبریری کی بنیاد رکھی تھی۔ ہم نے گذشتہ نومبر اس کا دورہ کیا تھا۔
تین کمروں پر مشتمل اس لائبریری میں ہزاروں کتابوں کو سلیقے سے بک شیلفوں میں رکھا گیا تھا۔ یہاں خواتین کتابیں پڑھنے اور کبھی کبھار ایک دوسرے سے ملاقات کے لیے آتی تھیں۔ یہ ان کے لیے گھروں میں بند رہنے سے کچھ وقت کا فرار ہوتا۔
لیکن اب یہ لائبریری بند ہو چکی ہے۔
لیلہٰ باسم نے بتایا کہ ’دو مرتبہ جب طالبان نے اس لائبریری کو بند کیا تو ہم اسے دوبارہ کھولنے کے قابل ہو گئے تھے لیکن پھر دھمکیاں بڑھنے لگی، مجھے فون کالز آنے لگیں کہ تمھاری جرات کیسے ہوئی خواتین کے لیے لائبریری کھولنے کی۔ ایک مرتبہ وہ لائبریری آئے اور خواتین سے کہا کہ انھیں کتابیں پڑھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اس لائبریری کو مزید چلانا بہت خطرناک ہو گیا تھا لہذا مجھے اس بند کرنے کا مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔‘
وہ کہتی ہے کہ طالبان کی پالیسیوں کے خلاف لڑنے کا وہ کوئی اور طریقہ تلاش کریں گی۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’یقینا، میں خوفزدہ ہوں، لیکن لائبریری کا بند ہونا سفر کا اختتام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی طریقے ہیں جن کے ذریعے ہم افغان خواتین کی آواز اٹھا سکتے ہیں۔ یہ مشکل ہے اور اس کے لیے قربانیاں درکار ہوں گی، لیکن ہم نے اسے شروع کر دیا ہے اور اس کے لیے پرعزم ہیں۔‘
وہ خواتین جو اپنے گھر کی واحد کفیل ہے ان کے لیے روزمرہ کی مشکلات اور بھی زیادہ ہیں۔
میرا (فرضی نام) ایک بیوہ ہیں اور عمر کی چالیس کی دہائی میں ہیں۔ وہ لڑکیوں کے سکول میں خاکروب کی ملازمت کر کے دس افراد پر مشتمل اپنے اہلخانہ کا پیٹ پالتی تھی۔ جب سکول بند ہوا تو ان کی نوکری ختم ہو گئی اور ملک میں معاشی بحران کے باعث تب سے انھیں کوئی کام نہیں ملا ہے۔
بھیک مانگنا
وہ اب کابل کی سڑکوں پر بھیک مانگتی ہیں۔
وہ روتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میں زندہ نہیں ہوں، لوگ جانتے ہیں کہ میرے پاس کچھ نہیں اس لیے وہ میری مدد کرتے ہیں۔ عزت کے بنا جینے سے مرنا بہتر ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اگر مجھے کسی دن آلو مل جائیں تو میں انھیں چھیل کر پکاتی ہوں اور اگلے دن میں آلو کے چھلکے پکا کر گھر والوں کو کھلاتی ہوں۔‘
اپنی تمام تر مالی مشکلات کے باوجود میرا کی خواہش ہے کہ ان کی بیٹیاں سکول جائیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر وہ تعلیم حاصل کریں گی تو انھیں ملازمت مل جائے گی، میری ایک بیٹی وکالت جبکہ دوسری ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ میں ان کی تعلیم کے لیے پیسے کا انتظام کروں گی چاہے اس کے لیے مجھے بھیک ہی کیوں نہ مانگنی پڑے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اب ہر گھر میں دکھ اور تکلیف کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔‘