جب ایک اور پاکستانی وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لیا تھا
گہرے دکھ کی کیفیت میں میاں محمد نواز شریف اٹھے اور قریب کھڑے سینیٹر عالم علی لالیکا سے بغل گیر ہو گئے۔ صحافی اظہر سہیل مرحوم نے لکھا ہے کہ اس موقع پر وہ خود پر قابو نہ رکھ سکے اور اُن کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ یہ اس صدمے کا اظہار تھا کہ وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی وہ لاہور میں اجنبی بن چکے تھے۔
یہ واقعہ 27 مئی 1993 کے بعد کا ہے جس سے ٹھیک 40 دن قبل غلام اسحٰق خان نے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ 26 مئی کو سپریم کورٹ نے اسے بحال کیا اور اگلے روز نواز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اپنے خطاب میں کہا کہ ‘پاکستان میں جمہوریت اب خدا کے فضل سے صحیح معنوں میں ریسٹور ہوئی ہے اور غیر جمہوری ہتھ کنڈے کامیاب نہیں ہو سکے۔‘
اسی تقریر میں آگے چل کر انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ‘پہلی بار محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے دن بدلنے والے ہیں۔۔۔۔ اور پاکستان کو اب اس ڈگر(جمہوریت) سے کوئی ہٹا نہیں سکے گا۔‘
عدالت عظمیٰ سے حکومت کی بحالی اور قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد بظاہر یہی دکھائی دیتا تھا کہ اپنے تمام مسائل پر قابو پانے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو ایک نیا حوصلہ اور نئی طاقت ملی ہے اور اب ان کے راستے سے تمام رکاوٹیں ہٹ چکی ہیں یا آنے والے دنوں میں ہٹ جائیں گی۔
لیکن ان ہی دنوں ملک کے ممتاز صحافیوں کے ایک وفد نے صدر غلام اسحٰق خان سے ملاقات کی اور ان سے سوال کیا کہ ‘کیا آنے والے دنوں میں ملک ٹھہراؤ اور استحکام کی کوئی صورت پیدا ہو گی؟’
صدر مملکت نے یہ سوال سنا اور وفد کے رکن مجیب الرحمٰن شامی کو مخاطب کرتے ہوئے علامہ اقبال کا ایک فارسی شعر پڑھا
گماں مبر کہ بپایاں رسید کار مغاں
ہزار بادہ ناخوردہ در رگ تاک است
اگلے دن کے اخبارات میں اس ملاقات کی تفصیلات شہ سرخیوں میں شائع ہوئیں جن میں اس شعر کا ترجمہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس بوڑھے کے باغ میں انگور کی ایسی ہزاروں بیلیں موجود ہیں جن سے شراب کشید ابھی کی ہی نہیں گئی۔
اس دلچسپ شاعرانہ جواب کا پیغام واضح تھا کہ آنے والے دنوں میں بہت سی آزمائشیں وزیر اعظم کی منتظر ہیں۔ یہی مسائل اور آزمائشیں تھیں جن سے پریشان ہو کر وزیر اعظم کو مبینہ طور پر اشک بار کیفیت میں دیکھا گیا۔
وفاقی حکومت کی تحیلیل اور بحالی کے 39 دنوں کے دوران میں پنجاب میں دور رس سیاسی اہمیت رکھنے والے دو واقعات رونما ہو چکے تھے۔ اظہر سہیل کے الفاظ میں یہ واقعات میاں نواز شریف کے گلے میں چھچھوندر بن کر اٹک گئے۔
پہلا واقعہ وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا تھا۔ صوبے میں اطمینان بخش اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ کی حکومت کا خاتمہ کبھی نہ ہو پاتا اگر اسی جماعت کے اندر سے ایک باغی گروپ برآمد نہ ہو پاتا۔
میاں منظور احمد وٹو کی قیادت میں تقریباً ڈیڑھ درجن اراکین صوبائی اسمبلی پر مشتمل اس گروپ کو پیپلز پارٹی کی حمایت فوری طور پر میسر آگئی جس کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد کامیاب اور منظور احمد وٹو وزیر اعلیٰ بن گئے۔
دوسری تبدیلی گورنر کی تبدیلی کی تھی۔ اس سلسلے میں دو روایات ہیں، ایک یہ کہ جیسے ہی وفاقی حکومت کو تحلیل کیا گیا، گورنر پنجاب میاں محمد اظہر از خود مستعفی ہو گئے جب کہ پیپلز پارٹی کے حامی کالم نگار اظہر سہیل کا دعویٰ ہے کہ انھیں رخصت کیا گیا۔
ان کی فراغت کے بعد جہلم کے معروف سیاست دان چوہدری الطاف حسین کو گورنر بنا دیا گیا۔ گورنر چوہدری الطاف نے اپنی مہارت اور سیاسی حربوں سے وزیر اعظم کو کس طرح زچ کیا، یہ داستان طویل ہے، شاید اسی خطرے کو محسوس کرتے ہوئے وزیر اعظم نے پیش بندی کے طور پر منظور احمد وٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کی۔
چوہدری برادران، خاص طور پر چوہدری پرویز الٰہی نے اس سلسلے میں ہوم ورک مکمل کر کے اراکین اسمبلی کو اسلام آباد منتقل کر دیا تاکہ انھیں وفاداریاں تبدیل کرنے سے دور رکھا جا سکے۔ اس دوران وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی تاکہ پنجاب میں تبدیلی لا کر یہاں کا ماحول وفاقی حکومت کے لیے سازگار بنایا جا سکے۔
اس تحریک عدم اعتماد کے بارے میں بھی کئی روایات ہیں۔ وفاقی حکومت کے مخالفین کا دعویٰ ہے تحریک عدم اعتماد کے اسمبلی سیکریٹریٹ پہنچنے سے قبل وزیر اعلیٰ گورنر کو ایڈوائس دے چکے تھے کہ اسمبلی تحلیل کر دی جائے جب کہ مسلم لیگ کا مؤقف اس کے الٹ ہے۔
گورنر پنجاب نے اس تنازعے میں مسلم لیگ کے مؤقف کو مسترد اور مخالفین کے مؤقف کو پزیرائی دیتے ہوئے اسمبلی کی تحلیل کے حکم نامے پر دستخط کر دیے۔ اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا لیکن اس مرحلے پر مسلم لیگ کی مخالف سیاسی قوتوں اور خاص طور پر پیپلز پارٹی نے مقدمے کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کا گھیراؤ کرنا شروع کر دیا، یوں عدالت پر دباؤ کی ایک صورت پیدا ہو گئی۔
اظہر سہیل نے ان حالات کے بارے میں اپنی کتاب ‘ایجنسیوں کی حکومت‘ میں دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں ‘لاہور ہائی کورٹ کے سامنے مال روڈ پر تمام دن لوٹوں کی بارش اور لوٹا برداروں کے جلوس جاری رہتے اور اندر جج حضرات پر عبدالحفیظ پیرازدہ کی یلغار کا سلسلہ جاری رہتا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب سیاسی بےوفائی کے لیے ملک میں پہلی بار لوٹے کی اصطلاح عام ہوئی جس کی گونج ملک سے باہر بھی سنائی دی اور سوال کیا جانے لگا کہ لوٹے کا مطلب کیا ہے۔ سیاست میں لوٹے کی اصطلاح کے مطابق بڑھتے ہوئے سوالات کو دیکھتے ہوئے بی بی سی ٹیلی ویژن پر ایک رپورٹ نشر کی گئی جس میں اس کے نمائندہ اسلام آباد میں لوٹا ہاتھ میں پکڑ کر لوٹے کی ساخت کے بارے میں بتایا کہ اسے ہر کوئی استعمال کر سکتا ہے اور اس وجہ سے سیاسی بے وفائی کا مرتکب ہونے والوں کے لیے یہ اصطلاح رائج ہوئی ہے۔‘
ایک ایسے ماحول میں جس میں ملک کا سیاسی ماحول بھی تناؤ کا شکار تھا اور گھیراؤ جیسے ہتھ کنڈوں کی وجہ سے عدالت کوئی ایسا فیصلہ نہ دے سکی جس کی مدد سے میاں نواز شریف کے لیے پنجاب میں اطمینان کی کوئی صورت پیدا ہوتی۔
وفاقی حکومت پنجاب میں یہ مقدمہ جیت نہ پائی تو وہاں کی حکومت نے وفاقی حکومت اور اس کے ذمہ داروں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ رائے ونڈ میں شریف خاندان کے گھر کی اور لاہور میں چوہدری شجاعت حسین کے گھر ناکہ بندی کر دی گئی۔
یہاں تک کہ ان دونوں رہنماؤں کے ملاقاتیوں کو بھی پریشان کیا جانے لگا۔ اس صورت حال سے پریشان ہو کر نواز شریف اور چوہدری شجاعت حسین اپنے گھروں کی حفاظت کے لیے رینجرز کی مدد حاصل کرنے پر مجبور ہو گئے۔
صدر مملکت اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی سرپرستی میں پنجاب حکومت کے ان اقدامات نے وفاقی حکومت کا رابطہ اس طرح بند کر دیا تو وفاق نے کوشش کی کہ صوبے کا اختیار براہ راست وفاق کے سپرد کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے آئین کی دفعہ 234 اے کے نفاذ کا فیصلہ گیا تاکہ صوبہ پنجاب کا انتظام وفاق سنبھال سکے۔
وفاق نے اس مقصد کے لیے سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کو صوبے کا ایڈ منسٹریٹر بھی مقرر کر دیا، اس کے ساتھ ہی چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کا تبادلہ کر دیا گیا۔
صدر غلام اسحٰق خان نے اس فیصلے کی تائید سے انکار کر دیا، اس طرح مسائل پیدا کرنے والے صوبے پر کنٹرول کی دوسری کوشش بھی ناکام ہو گئی۔ اس کوشش کی ناکامی میں صدر مملکت کی حمایت سے گورنر کے اقدامات کے علاوہ فوج کا کردار بھی غیر معمولی ہے۔
آئین کی دفعہ 234 اے کے نفاذ کی اطلاع ملتے ہی گورنر چوہدری الطاف حسین نے کور کمانڈر لاہور سے رابطہ کر کے انھیں آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت ایک ایسا اقدام کرنے جا رہی ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اس صورت حال میں فوج کے سربراہ جنرل عبد الوحید کاکڑ نے رینجرز سمیت تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت کر دی کہ وہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت یا وزارت دفاع کے ان تمام احکامات کو ماننے سے انکار کردیں جن کی آئینی حیثیت مشکوک ہو۔
دوسری طرف طاقت ور حلقوں کی طرف سے میاں نواز شریف کو بھی خبردار کر دیا گیا کہ وہ اس قسم کے کسی بھی اقدام سے گریز کریں۔
وفاقی حکومت کو زچ کرنے کے لیے یہ حالات کافی تھے لیکن اس کے باوجود دیگر صوبوں سے دباؤ ڈالنے کا انتظام کر دیا گیا۔ سندھ نے پنجاب سے آنے والی ٹریفک روکنے کا عندیہ دیا جب کہ سرحد (خیبرپختونخوا) نے وفاقی دارالحکومت کی بجلی اور بلوچستان نے گیس بند کر دینے جیسی باتیں کہنی شروع کر دیں۔
اسی ماحول میں پاکستان پیپلز پارٹی اور حزب اختلاف کی آل پارٹیز کانفرنس نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔
صحافی اظہر سہیل کے مطابق اس لانگ مارچ کو یقینی بنانے کے لیے پنجاب حکومت کی مالی اور انتظامی حمایت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ حالات کچھ ایسی شکل اختیار کر گئے کہ ملک میں مارشل لا کی باتیں ہونے لگیں۔ ان افواہوں کو تقویت کور کمانڈرز کانفرنس کے اس غیر معمولی اجلاس سے ملی جو محرم کی دو چھٹیوں یعنی نو اور دس محرم کے موقع پر منعقد کیا گیا۔
پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والی کور کمنڈرز کانفرنس میں ملک کے حالات پر تفصیل سے غور کیا گیا اور اس میں کئی امکانات پر غور کیا گیا تاہم حتمی فیصلہ فوج کے سربراہ جنرل عبد الوحید کاکڑ کی رائے کے مطابق ہوا کہ بحران کا حل دستور کے اندر ہی سے نکالا جانا چاہیے۔
کور کمانڈرز کانفرنس کے فوراً بعد رات گیارہ بجے فوج کے سربراہ نے صدر اور وزیر اعظم سے ملاقاتیں کیں اور تجویز پیش کی کہ مسئلے کے حل کے لیے نئے عام انتخابات کرائے جائیں۔ جنرل کاکڑ کی طرف سے آنے والی اس تجویز سے پہلے ملنے والی ان اطلاعات کی تصدیق ہوئی جو امریکہ میں پاکستان کی سفیر سیدہ عابدہ حسین کے کان میں پڑیں تھیں۔
سپریم کورٹ سے حکومت کی بحالی کے بعد عابدہ حسین کا امریکہ جانا ہوا اور انھوں نے کہیں یہ کہہ دیا کہ اب پاکستان میں سیاسی استحکام کا راستہ ہموار ہو چکا ہے جس پر ایک ذمہ دار امریکی نے کہا کہ نہیں آپ لوگ ایک مڈ ٹرم انتخاب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عابدہ حسین کے مطابق اس وقت ایسی بات کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
لانگ مارچ کا وقت قریب آیا تو آرمی چیف نے طیارہ بھیج کر پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی مدعو کر کے ان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر دونوں کے درمیان دلچسپ بات چیت ہوئی:
جنرل کاکڑ: ‘محترمہ! آپ یہ بتائیے کہ آپ لوگ لانگ مارچ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟‘
بے نظیر بھٹو: ‘تاکہ ملک میں نئے انتخابات کے لیے دباؤ بڑھایا جاسکے۔‘
جنرل کاکڑ: ‘آپ لانگ مارچ ختم کر دیں، از سر نو انتخابات کا انعقاد ہماری ذمہ داری ہے اور میں آپ کو اس کی گارنٹی کرتا ہوں۔‘
اس موقع پر جنرل کاکڑ نے بے نظیر بھٹو سے کہا کہ آپ لانگ مارچ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہہ سکتی ہیں کہ یہ کام فوج کے کہنے یا اس کی مداخلت پر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس ملاقات کا انتظام کیا گیا جس میں وزیر اعظم اور صدر ممکت دونوں مستعفی ہونے پر آمادہ ہو گئے۔
قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد عمومی طور پر توقع کی جا رہی تھی کہ حالات پر سکون ہو جائیں گے لیکن حکومت کے خاتمے سے نواز شریف کی طاقت کو جو صدمہ پہنچا تھا، اس میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا اور حکومت کو اعتماد دینے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور بالآخر معاملات حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئے۔
’نواز شریف اور عمران خان کے اعتماد کے ووٹ لینے کے حالات میں کوئی مماثلت نہیں‘
سابق چیئر مین سینیٹ اور اس بحران میں غلام اسحٰق خان کے مستعفی ہو جانے کے بعد قائم مقام کی حیثیت سے ریاست کے صدر کی ذمہ داریاں سنھبالنے والے وسیم سجاد میاں نواز شریف کے ووٹ آف کانفیڈنس اور موجودہ دور میں عمران خان کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کی کوشش کے درمیان کوئی مماثلت نہیں دیکھتے۔
وہ بتاتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کا قدم ایک سیاسی پیش قدمی تھی جس کے ذریعے ایوان میں ایک قرار داد پیش کر کے اعتماد کا ووٹ لے لیا گیا جو سیاسی طاقت کے مظاہرے کی ایک صورت تھی۔ اس کے مقابلے میں عمران خان کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کا قدم ایک آئینی اقدام ہے جس کے نتائج سیاسی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہی چیز ان دونوں واقعات کے درمیان فرق پیدا کرتی ہے۔
وسیم سجاد کے مطابق موجودہ کوشش کی بنیاد آئین کی دفعہ 91/7 کے تحت یہ تصور ہے کہ صدر مملکت یہ محسوس کرتے ہیں کہ وزیر اعظم کو اب ایوان کا اعتماد حاصل نہیں رہا۔
وسیم سجاد کہتے ہیں کہ اعتماد کا ووٹ لینے کی صورت میں وزیر اعظم اس صورت حال کا سامنا کامیابی سے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دوسری صورت میں صدر انھیں وزات عظمیٰ کے منصب سے ہٹا دیں گے یا وہ از خود بھی مستعفی ہو سکتے ہیں جب کہ 1993 میں اعتماد کا جو ووٹ لیا گیا، وہ آئینی طور پر ایسے نتائج نہیں رکھتا تھا۔
کسی وزیر اعظم کی طرف سے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی تاریخ کیا ہے؟
قومی اسمبلی کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری طاہر حنفی کا کہنا تھا کہ یہ کام پہلی مرتبہ 27 مئی 1993 کو اس وقت ہوا جب نواز شریف نے اپنی حکومت کی بحالی کے بعد ایوان سے رجوع کیا اور دو سو کے ایوان سے انھیں ایک سو 23 ووٹ ملے۔ یہ کارروائی قومی اسمبلی کے ضابطہ 285 کے تحت ہوئی تھی جس میں ہاتھ کھڑے کر کے اعتماد کا ووٹ دیا گیا۔
1993 اور 2021 میں ممکنہ طور پر ہونے والے اعتماد کے ووٹ میں کیا فرق ہے؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی آئین کی دفعہ 91 شق 7 کے تحت ہو رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صدر مملکت کو اب یہ اعتماد نہیں رہا کہ وزیر اعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ واقعہ پہلی بار ہو رہا ہے اور وہ بھی ایسی کیفیت میں کہ جب ملک کے صدر اور وزیر اعظم دونوں کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہے۔
سیاسی نظام میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں بحران تھم جائے اور حکومت اعتماد کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکے۔ ماضی میں ایک ہی بار ایسا ہوا لیکن نتیجہ مختلف نکلا۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے، اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہی ہو سکے گا۔