جان واکر لنڈ ’امریکی طالبان‘ کہلائے جانے والا شخص جو نائن الیون سے قبل اسامہ بن لادن سے ملا تھا
یہ تحریر بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر پہلی مرتبہ ستمبر 2021 میں شائع کی گئی تھی، جسے آج قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔
جان واکر لنڈ امریکی ریاست سان فرانسیسکو کے شمال میں مِل ویلی نامی علاقے کے ایک مڈل کلاس کیتھولک خاندان سے تعلق رکھتے تھے تاہم دنیا انھیں ’امریکی طالبان‘ کے نام سے جانتی ہے۔
11 ستمبر 2001 میں نائن الیون حملوں کے بعد صدر جارج بش نے ’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ شروع کی۔ اس کی بنیاد پر جان واکر وہ پہلے امریکی شہری تھے جنھیں دہشتگرد ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
انھیں افغانستان سے گرفتار کیا گیا تھا جہاں وہ طالبان کے ایک غیر ملکیوں کے فوجی یونٹ میں شامل تھے۔ داڑھی والے اس سفید فام شخص کی تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
انھوں نے جولائی 2002 میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’میں اقرارِ جرم کرتا ہوں۔ گذشتہ سال اگست سے دسمبر کے دوران میں نے طالبان میں فوجی کی حیثیت سے کام کیا۔ میں نے یہ اپنی مرضی سے کیا اور مجھے معلوم تھا کہ یہ غیر قانونی ہے۔‘
انھوں نے استغاثہ سے معاہدہ کیا تھا کہ انھیں عمر قید کی جگہ 20 سال قید کی سزا دی جائے گی۔
تو کیلیفورنیا کا یہ نوجوان طالبان میں شامل کیوں ہوا اور اس نے اسامہ بن لادن کے حمایت یافتہ فوجی کیمپوں میں اتنا وقت کیسے گزارا؟
میلکم ایکس سے اسامہ بن لادن تک
کیتھولک گھر میں پرورش کے باوجود جان واکر جوانی سے ہی اسلام کی طرف مائل ہونے لگے تھے۔
ان کے والد فرینک لنڈ کے مطابق 12 سال کی عمر میں جان نے میلکم ایکس کی ایک فلم دیکھی تھی جس میں ایسے مناظر شامل تھے کہ عازمین مکہ پہنچ رہے ہیں۔
مل ولی اسلامک سینٹر کے امام عبداللہ نانا نے 2011 میں بی بی سی کو دیے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’وہ اس وقت مشکل میں تھے۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا دنیا میں کہاں جانا چاہیے۔ انھیں لگا کہ اسلام اور دین کی قربت سے انھیں روحانی سکون ملے گا۔‘
انھوں نے بتایا کہ جان نے ان کے ادارے سے رابطہ کیا تھا اور کچھ عرصے بعد انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ پھر انھوں نے عربی سیکھنے اور قرآن حفظ کرنے کا فیصلہ کیا۔
17 سال کی عمر میں جان کو اپنے والدین سے اجازت مل گئی کہ وہ یمن جا کر عربی سیکھیں۔
پھر وہ کیلیفورنیا واپس آئے اور یہاں کچھ ماہ رہنے کے بعد دوبارہ یمن چلے گئے۔ انھوں نے وہاں اپنے والد سے پوچھا کہ کیا وہ پاکستان جا کر اپنی پڑھائی مکمل کر سکتے ہیں۔
ان کے والد نے جواب میں کہا ’مجھے آپ کے فیصلے پر اعتماد ہے اور امید ہے آپ کا سفر اچھا رہے گا۔‘
پاکستان میں جان نے خود کو اس وقت کے صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کے شہر بنوں میں ایک دینی مدرسے میں داخل کیا جہاں سے وہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہوئے۔
والدین کو بتائے بغیر جون 2001 میں انھوں نے افغانستان جانے کا فیصلہ کیا۔ مسلح گروہ کی مدد سے انھیں الفاروق نامی ایک فوجی ٹریننگ کیمپ میں دو ماہ تربیت دی گئی۔ اس کیمپ کی مالی امداد اسامہ بن لادن نے کی تھی۔
انھی گرمیوں میں انھوں نے دو مرتبہ اسامہ بن لادن سے ملاقات کی تاہم جان کے والد کا کہنا ہے کہ دہشتگردی سے ان کے بیٹے کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
فرینک نے بی بی سی کو 2011 میں اس انٹرویو میں بتایا کہ ’وہ ان ہزاروں نوجوان مسلمانوں میں سے تھے جنھوں نے روسی حمایت یافتہ جنگجوؤں کے خلاف افغانستان جانے کی پیشکش کی تھی۔‘
جان واکر پر چلنے والے مقدمے کے دوران اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ انھیں اس بات پر یقین نہیں کہ یہ نوجوان دہشتگردی سے مکمل طور پر الگ تھا۔
انھوں نے بی بی سی کو 2011 میں بتایا کہ ’وہ اس حکومت کے لیے لڑنے گئے جو امریکہ کی مخالفت کرتی تھی اور جس نے نائن الیون حملوں کی حمایت کی۔ یہ غداری نہیں لیکن میں کہوں گا کہ اس کے بہت قریب ہے۔‘
نائن الیون کے اثرات
ستمبر 2001 کے اوائل میں جان واکر افغان فوج کے اس 75 افراد کے یونٹ میں شامل تھے جو ملک کے شمال مشرقی علاقے تخار میں موجود تھا۔
پھر سب کچھ بدل گیا۔ نائن الیون حملوں کے بعد امریکی فوج نے افغانستان میں مداخلت کی اور طالبان کی حکومت کا تخت الٹ دیا۔
کچھ ہی ہفتوں میں ملک میں فضائی بمباری شروع ہو گئی اور جان کا یونٹ واپس لوٹنے لگا۔ انھوں نے کندز کے صحرا میں پیدل سفر کیا اور پھر شمالی اتحاد کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
انھیں مزار شریف کے قریب قلعہ جنگی منتقل کیا گیا جو افغان جنگجو جنرل عبدالرشید دوستم کے زیر انتظام تھا۔
یہاں افغانستان کی وہ جنگ ہوئی جس کی لڑائی میں شاید سب سے زیادہ خونریزی ہوئی۔ طالبان قیدیوں نے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی مگر اس کا انجام سینکڑوں افراد کی ہلاکت میں ہوا۔ سی آئی اے کے بعض ایجنٹ بھی اس لڑائی میں مارے گئے جو طالبان حکومت کے خلاف شمالی اتحاد کا ساتھ دے رہے تھے۔
جان واکر کو ٹانگ پر گولی لگی مگر انھوں نے بچنے والے کئی افراد کے ساتھ تہہ خانے میں پناہ حاصل کر لی۔
عینی شاہدین کے مطابق دوستم کے فوجیوں نے ہوا کی نالیوں کے ذریعے گرنیڈ کے حملے کیے اور اپنے دشمنوں پر برف جیسا ٹھنڈا پانی برسایا تاکہ انھیں اس میں ڈبو سکیں۔ کئی قیدی اس دوران ہلاک ہوگئے۔
جان کے جسم پر کئی زخم تھے اور وہ ہائپوتھرمیا سے متاثر ہو رہے تھے۔ دسمبر 2001 میں وہ وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اور انھیں امریکی فوجیوں نے حراست میں لے لیا۔
’امریکی طالبان‘
کچھ ہی دیر بعد ان کی گرفتاری کی خبریں دنیا بھر میں پھیل گئیں اور وہ ’امریکی طالبان‘ کے نام سے پہچانے جانے لگے۔
قریب سات ماہ تک جان کے والدین کو ان کی کوئی خبر نہیں ملی تھی۔ پھر اچانک انھوں نے جان کو ٹی وی پر دیکھ کر پہچان لیا۔
جان کو قندھار کے جنوب مغرب میں قریب 190 کلو میٹر دور واقعہ امریکی اڈے کیمپ رائنو لے جایا گیا۔ ان کے والد کے مطابق انھوں نے جان کو ’دو راتوں کے دوران صحرا میں بغیر کپڑوں کے ایک دھاپ کے کنٹینر میں رکھا‘ اور اس کچھ دن تک انھیں طبی امداد بھی نہ دی گئی۔
دریں اثنا امریکہ میں ان کی والدہ مارلن واکر نے میڈیا میں منفی کوریج کے ’نہ رکنے والے طوفان‘ کی شکایت کی۔
اٹارنی جنرل نے جان کو ایک دہشتگرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی تربیت القاعدہ نے کی جنھوں نے ’طالبان کے ساتھ مل کر اپنے ساتھی شہریوں کے قتل کی سازش کی۔‘
ان کے والد فرینک نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’یہ تصویر لوگوں کے ذہنوں میں چھپ چکی تھی جب نائن الیون کے بعد ان کے دل ٹوٹ چکے تھے اور وہ سوگ منا رہے تھے۔‘
اس صورتحال میں جان کو عمر قید نہ ملنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ استغاثہ نے ابتدائی طور پر ان کے لیے عمر قید کی ہی کوشش کی تھی۔
لیکن بظاہر ان کی مدد ان تصاویر نے کی جو ان کی گرفتاری کے بعد کھینچی گئی تھیں۔ ان میں دکھایا گیا کہ امریکی فوجیوں نے گرفتاری کے بعد ان سے کیسا سلوک کیا۔
یہ تصاویر ٹوبی ہارنڈن کی کتاب ’فرسٹ کیژیولٹی: دی انٹولڈ سٹوری آف دی سی آئی اے مشن ٹو ایونج نائن الیون‘ میں شائع کی گئی ہیں۔ اس میں افغانستان میں نائن الیون کے بعد سی آئی اے کے پہلے مشن کا بتایا گیا ہے جس میں جان کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
قید سے رہائی تک
اس کتاب کے مطابق ابتدائی طور پر امریکی ایجنٹ، جان کو ’آئرش‘ سمجھتے رہے کیونکہ جان نے ان سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک دوسرے قیدی نے ان فوجیوں کو بتایا کہ جان آئر لینڈ سے آئے ہیں۔
قلعہ جنگی سے قیدیوں کے بھاگنے کے بعد ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ جان امریکی شہری ہیں۔
امریکی ایجنٹس نے جان کے ساتھ ایک گروپ فوٹو کھینچی۔
ان کے بارے میں ’امریکی طالبان‘ کی اصطلاح عام ہونے کے بعد امریکی ایجنٹس کے لیے جان ایک انعامی ٹرافی بن چکے تھے۔
جب جان کو مزار شریف سے کیمپ رائنو لے جایا جا رہا تھا تو امریکی ایجنٹس نے ان کی آنکھوں پر پٹی بابندھنے کا فیصلہ کیا مگر پھر انھوں نے اس پٹی پر ایک گالی بھی لکھ دی۔
اس تصویر پر تبصرے کرتے ہوئے بہت سے لوگوں نے کہا کہ جان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ اس تصویر کو جان کے وکلا نے بھی استعمال کیا اور اب اسے اس کتاب میں شائع کیا گیا ہے۔
کیمپ رہائنو میں بنائی گئی دیگر تصاویر میں جان کو سٹریچر پر برہنہ، ہتھکڑی لگے ہوئے اور آنکھوں پر پٹی بندھے دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کے وکلا نے ان تصاویر کے ذریعے یہ الزام عائد کیا کہ جان کے ساتھ برا سلوک کیا گیا اور یہ درخواست کی گئی کہ کیمپ رہائنو میں انھوں نے جو بیانات ریکارڈ کروائے انھیں برطرف کیا جائے کیوںکہ وہ دباؤ میں لیے گیے تھے۔
ہارنڈن کی کتاب کے مطابق ان بیانات میں جان نے مبینہ طور پر ایف بی آئی کے سامنے یہ اعتراف کیا تھا کہ موسمِ سرما کے دوران انھوں نے القاعدہ سے تربیت لی تھی جنھیں امریکہ بھیجا جانا تھا۔
تاہم ان بیانات کو اس وقت کوئی اہمیت نہ رہی جب انھوں نے سرکاری وکیل کے دفتر سے معاہدہ کر لیا جس کے باعث انھیں صرف دو الزامات کی بنیاد پر ہی جرم کا اعتراف کرنا تھا۔ اس کے نتیجے میں انھیں 20 سال کی قید کا سامنا کرنا پڑا۔
سنہ 2002 میں جب انھیں سزا سنائی گئی تو انھوں نے کہا کہ وہ ’دہشت گردی کی ہر سطح پر‘ مذمت کرتے ہیں اور انھوں نے طالبان کا ساتھ دے کر غلطی کی تاہم بعد میں سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق انھوں نے بظاہر بعد میں بھی شدت پسند رویہ اپنائے رکھا۔
اس وجہ سے سنہ 2019 میں تنازع کھڑا ہوا جب 17 برس جیل میں رہنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ انھیں پیرول کا فائدہ حاصل ہو گا۔
مئی 2019 کے وسط میں جان کو جیل سے رہا کر دیا گیا تھا تاہم اس کے ساتھ ان پر کچھ پابندیاں بھی لگائی گئی تھیں جن میں انٹرنیٹ کا استعمال اور سفر کرنے پر پابندی شامل ہے۔
یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ اس وقت کہاں مقیم ہیں۔