جام کمال کا استعفیٰ بلوچستان میں وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار قدوس بزنجو سپیکر کے عہدے سے مستعفی
وزیر اعلیٰ جام کمال خان کے استعفیٰ کے بعد صوبائی اسمبلی کے سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی جانب سے بلوچستان کے وزارت اعلیٰ کے نئے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
میر عبدالقدوس بزنجو نے سپیکر بلوچستان اسمبلی کے عہدے سے اپنا استعفیٰ دے دیا ہے اور اب وہ صوبے میں حکمراں جماعت کی جانب سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہوں گے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبدالرحمان کھیتران نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ نئے وزیراعلیٰ کے امیدوار کے لیے قدوس بزنجو کے نام پر اتفاق ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قدوس بزنجو سپیکرکے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائیں گے۔
یاد رہے کہ جام کمال کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کی گئی تھی جس پر پیر کو رائے شماری ہونا تھی۔ تاہم جام کمال کی جانب سے استعفی جمع کروائے جانے کے بعد بلوچستان اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کی کارروائی نمٹا دی ہے۔
گذشتہ کافی عرصے سے اپوزیشن سمیت بی اے پی کے ناراض اراکین کی جانب سے مسلسل وزیراعلیٰ جام کمال سے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
اتوار کی شام ٹوئٹر پر اپنے پیغام جام کمال نے لکھا تھا ’بہت سی سوچی سمجھی سیاسی رکاوٹوں کے باوجود میں نے بلوچستان میں مجموعی اندازِ حکمرانی اور ترقی کے لیے اپنا وقت اور توانائی کو ایک سمت رکھا۔‘ انھوں نے مزید لکھا: ’انشااللہ احترام کے ساتھ چھوڑنا چاہوں گا اور خراب حکمرانی کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ان کے مالیاتی ایجنڈے کا حصہ نہیں بننا چاہوں گا۔‘
جام کمال کن شرائط پر مستعفی ہوئے؟
اتوار کے روز جام کمال کے استعفے سے قبل گورنر ہاﺅس کوئٹہ میں حکومتی اتحاد میں شامل جام کمال کے حامی اور مخالف اراکین کے درمیان ایک اہم اجلاس ہوا تھا۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جام کمال نے استعفیٰ دینے کے لیے بعض شرائط پیش کی تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ جو اراکین ان کے ساتھ تھے ان کو آئندہ کی حکومت میں بھی شامل کیا جائے۔
تاہم ان شرائط کی تصدیق سے متعلق جام کمال سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔
جام مخالف اراکین کی عارضی قیام گاہ پر جشن کاسماں
بلوچستان اسمبلی کی تین خواتین سمیت چار اراکین اسمبلی کو مبینہ طور پر لاپتہ کرنے کے بعد قدوس بزنجو سمیت حکمران اتحاد میں وزیر اعلیٰ جام کمال سے ناراض اراکین کے علاوہ حزب اختلاف کے لگ بھگ 34 اراکین اپنے گھر جانے کے بجائے کوئٹہ کے نواحی علاقے کلی الماس میں ایک گھر پر مقیم رہے۔
جب اتوار کی شب وزیر اعلیٰ جام کمال کے استعفیٰ کی خبر ان تک پہنچی تو ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ انھوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کی جبکہ بعض سجدہ شکر بجا لائے۔
انھوں نے ایک دوسرے گلے لگا لیا اور مبارکباد پیش کی جبکہ بعض اراکین سجدہ ریز بھی ہوئے۔
سجدہ شکر بجا لانے والوں میں اکبر آسکانی بھی شامل تھے، جنھیں جام کمال مخالف اراکین کے مطابق لاپتہ کیا گیا تھا۔ جام کمال مخالف اراکین نے ہاتھ سے وکٹری کا نشان بنانے کے ساتھ قدوس بزنجو کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔
اس موقع پربعض اراکین اسمبلی اوران کے حامیوں نے ڈھول کی تھاپ پر رقص بھی کیا۔
‘ایسی حکومت بنائیں گے جس کی گردن میں سریا نہ ہو’
خوشی کے اظہار کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبدالرحمان کھیتران نے جام مخالف اراکین کی آئندہ کی لائحہ عمل کے بارے میں میڈیا سے بات کی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پیر کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہونی تھی لیکن ہم جام کمال کے شکرگزار ہیں کہ انھوں نے استعفیٰ دے کر بلوچستان عوامی پارٹی کو ٹوٹنے سے بچا لیا۔
انھوں نے کہا کہ پیر کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو نمٹایا جائے گا اور اس کے بعد میر عبدالقدوس بزنجو اپنے عہدے سے مستعفی ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ دو تین روز میں نئی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ بھی مکمل ہو جائے گا۔ ان کے مطابق ’بلوچستان کی آئندہ حکومت کی خوبصورتی یہ ہو گی کہ اس کی گردن میں سریا نہیں ہو گا۔‘
اگرچہ تاحال جام کمال کے حامی اراکین کی جانب سے وزارت اعلیٰ کے لیے کسی امیدوار کا نام سامنے نہیں آیا تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بڑی تعداد میں اراکین کی حمایت کے باعث قدوس بزنجو کے کامیابی امکانات زیادہ ہیں۔
ان کے مطابق قدوس بزنجو کے سپیکر کے عہدے سے استعفیٰ کے بعد سابق وزیر اعلیٰ میر جان محمد جمالی بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے بلوچستان اسمبلی کے سپیکر کے عہدے کے لیے مضبوط امیدوار ہوں گے۔
مبینہ طور پر لاپتہ کیے جانے والے رکن کی میڈیا سے بات چیت سے گریز
20 اکتوبر کو جب جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو جام کمال سے ناراض بلوچستان عوامی پارٹی کے چار اراکین اجلاس میں نہیں آئے، جن میں میں جبین شیران، بشریٰ رند، لیلیٰ ترین اور اکبر آسکانی شامل تھے۔
جام کمال کے مخالف اراکین نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان اراکین کو لاپتہ کیا گیا ہے تاہم جام کمال نے ان اراکین کو لاپتہ کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا یہ لوگ اپنی مرضی سے اجلاس میں نہیں آئے۔
تاہم یہ چاروں اراکین 22 اکتوبر کی شب اسلام آباد سے منظر عام پر آئے اور ان میں سے تین نے کہا تھا کہ وہ ذاتی کام سے اسلام آباد آئے تھے جبکہ ایک خاتون رکن نے بتایا تھا کہ وہ علاج کی غرض سے اسلام آباد میں تھیں۔
اسلام آباد سے واپسی پر خواتین اراکین اپنے گھروں کو گئی تھیں تاہم اکبر آسکانی نے کلی الماس میں اس گھر میں رہائش اختیار کی جہاں سپیکر قدوس بزنجو اور دیگر جام کمال مخالف اراکین قیام پزیر تھے۔
جام کمال کے استعفے سے قبل میڈیا کے نمائندوں نے اکبر آسکانی سے یہ پوچھا کہ انھیں کون یہاں سے اٹھا کر اسلام آباد لے گیا تھا تو انھوں نے بات کرنے گریز کرتے ہوئے بتایا کہ اس بات کو چھوڑ دیں۔
تاہم جام کمال کے مخالف ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کو زورآور لوگ اٹھا کر لے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ چار اراکین کو لے جانے کے بعد زورآور لوگوں کا خیال تھا کہ باقی لوگ خوفزدہ ہوکر جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت ترک کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے دیکھا کہ ان چار اراکین کو مبینہ طور پر لاپتہ کرنے کے بعد بھی تحریک عدم اعتماد کے حامی اراکین خوفزدہ نہیں ہوئے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے مطلوبہ اراکین کی تعداد میں کمی نہیں آئی تو انھوں نے ان چار اراکین کو بھی چھوڑ دیا۔