محمد علی سدپارہ اور ساتھیوں کی K-2 پر مہم جوئی لاپتہ کوہ پیماؤں کا تیسرے روز بھی سراغ نہیں مل سکا، ریسکیو آپریشن جاری
دنیا کی دوسری سب سے بلند چوٹی K-2 کو سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہونے والے تین کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے پاکستان آرمی کے دو ہیلی کاپٹروں پر مشتمل ریسکیو آپریشن آج (پیر) بھی جاری ہے۔
پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جوان پابلو موہر جمعے کی شام سے لاپتہ ہیں۔ ان کی تلاش کے لیے کوششیں جاری ہیں جن میں تاحال کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔
کوہ پیمائی کی گائیڈ کمپنی سیون سمٹ ٹریکس کے مینیجر داوا شرپا، جو کے ٹو بیس کیمپ پر موجود ہیں، نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ آرمی کے ہیلی کاپٹروں نے پیر کی صبح تقریباً 7000 میٹر کی بلندی تک پرواز کی تاکہ لاپتہ کوہ پیماؤں کا سراغ لگایا جا سکے۔
ان کے مطابق لکپا ڈینڈی اور انھوں نے ان علاقوں کا چکر لگایا جن کے جغرافیے سے وہ آگاہ ہیں۔ داوا شرپا کے مطابق کے ٹو کی بالائی سطح بادلوں سے مکمل طور پر ڈھکی ہوئی ہے اور چوٹی پر حد نگاہ بہت کم ہے
گذشتہ تین روز سے پاٹلٹس انتہائی غیرمعمولی کام کر رہے ہیں مگر اب تک ہم لاپتا کوہ پیماؤں کا سراغ نہیں لگا پائے ہیں۔ ریسکیو ٹیم موسم کے بہتر ہونے کا انتظار کر رہی ہے تاکہ کھوج کے کام کو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔‘
کوہ پیمائی سے متعلق ایک بلاگ ایوریسٹ ٹوڈے کے مطابق لاپتہ پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ کی کھوج کے لیے اُن کے دو رشتہ داروں امتیار اور اکبر نے رضا کارانہ طور پر کے ٹو کا سفر شروع کر دیا ہے۔ اس اطلاع میں کہا گیا ہے کہ ’دونوں باصلاحیت کوہ پیما ہیں جنھوں نے ماضی میں کے ٹو سر کیا ہوا ہے۔ انھوں نے ساجد سدپارہ (علی کے بیٹے) کی کے ٹو بیس کیمپ واپسی میں مدد فراہم کی تھی۔‘
اس سے قبل اتوار کے روز بھی دو ہیلی کاپٹروں پر مشتمل ریسکیو آپریشن ناکام لوٹا تھا۔
ادھر ان کوہ پیماؤں میں شامل پاکستانی مہم جو محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے کہا ہے کہ ان کے والد اور ساتھی کوہ پیماؤں کو جو بھی حادثہ پیش آیا وہ چوٹی سر کرنے کے بعد ہی ہوا اور یہ کہ ان کی تلاش اور بچاؤ کی مہم کو اب ان کی لاشوں کی تلاش کی مہم کے طور پر جاری رکھنا چاہیے۔
اضح رہے کہ ساجد سدپارہ بھی اپنے والد کے ہمراہ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں شامل تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے کے باعث وہ مہم ادھوری چھوڑ کر واپس آ گئے تھے۔
پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جوان پابلو موہر کا جمعہ کی شام سے بیس کیمپ، اپنی ٹیم اور اہل خانہ سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا اور ان کی تلاش میں پیر کو تیسری مرتبہ ریسکیو مشن کا آغاز کیا گیا، جس کے دوران آرمی ہیلی کاپٹروں نے K-2 پر 7000 میٹر کی بلندی تک پرواز کی تاہم تینوں کوہ پیماؤں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
اتوار کو سکردو پہنچنے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ساجد سدپارہ نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ محمد علی سد پارہ اور ان کی ٹیم نے سردیوں میں K-2 فتح کرنے کا کارنامہ انجام دے دیا تھا اور ان کے ساتھ جو بھی حادثہ ہوا، وہ واپسی کے سفر میں ہوا ہے۔‘
ساجد سدپارہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ’انتہائی سرد موسم کے ساتھ آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر کسی انسان کے اتنے زیادہ وقت تک بچ جانے کے امکانات کم ہی ہیں تاہم لاش کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن جاری رہنا چاہیے۔‘
اتوار کو ہونے والے ریسکیو آپریشن کے مطابق بتاتے ہوئے داوا شرپا نے کہا تھا کہ آرمی کے ہیلی کاپٹروں نے (جس میں وہ خود اور علی سدپارہ کے بیٹے ساجد بھی سوار تھے) اتوار کو تقریباً 7800 میٹر کی بلندی تک پرواز کی تاہم انھیں تینوں کوہ پیماؤں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا۔
داوا شرپا کے مطابق انھوں نے ابروزی اور دوسرے تمام روٹس کا جائزہ لیا، کیمپ فور کے بعد انھیں دیکھنے میں مشکلات آئیں کیونکہ 6400 میٹر پر ہوا کی رفتار 40 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔
یاد رہے اس قبل سنیچر کو آرمی ہیلی کاپٹر نے 7000 میٹر کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے کوہ پیماؤں کا سراغ لگانے کی کوشش کی تھی تاہم خراب موسمی حالات کے باعث ہیلی کاپٹر کو سکردو لوٹنا پڑا تھا۔
الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق آرمی ایوی ایشن کے دو ہیلی کاپٹرز نے ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا تھا اور انھوں نے اس سرچ آپریشن میں محمد علی سدپارہ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے آٹھ کوہ پیما اور نیپال کے دو کوہ پیماؤں کے شریک ہونے کی اطلاع دی تھی۔
سنیچر کو محمد علی سد پارہ کے مینجر راؤ احمد نے صحافی زبیر احمد سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ جمعے سے ان کا تینوں کوہ پیماؤں سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے اور وہ ’ساری صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘
بی بی سی کو محمد علی سدپارہ، ان کے ساتھی کو پیما آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جے پی موہر کے قریبی عزیزوں اور ٹیم نے بتایا کہ تینوں نے جمعے کی شام تک آٹھ ہزار میٹر کا سنگ میل عبور کر لیا تھا جس کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ وہ جلد ہی اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے۔
ٹورسٹ پولیس سکردو کے مطابق ان تینوں کی تلاش کا آپریشن شروع کیا جا چکا ہے اور تمام تر ممکنہ اقدامات کیے جارہے ہیں۔
تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ رابطے کے لیے جان سنوری کے پاس موجود ٹریکر کے علاوہ تینوں کے پاس موجود سیٹلائیٹ فون اور واکی ٹاکی کا استعمال کیا جاتا تھا۔
رابطوں کے لیے جان سنوری اپنے پاس موجود ٹریکر ہر ایک گھنٹے بعد آن کر کے اطلاع فراہم کر دیتے تھے۔ انھوں نے جمعہ کے روز آخری مرتبہ اپنی موجودگی کی اطلاع چار بجے فراہم کی تھی۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ نیپالی مہم جووں کی جانب سے کے ٹو کو سردیوں میں تاریخ میں پہلی مرتبہ فتح کرنے کے بعد محمد علی سد پارہ اور دو ساتھیوں نے اپنی مہم جاری رکھی تھی۔ اس مہم کے دوران جمعہ کے روز موسم بہتر ہونے کی بنا پر تینوں آگے بڑھے تھے۔
تاہم الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق جمعہ کے روز دوپہر کے وقت اچانک کے ٹو پر تیز ہواہیں چلنا شروع ہو گئیں تھیں۔
محمد علی سد پارہ اور ساجد علی پارہ باپ بیٹا ہیں جن کا تعلق گلگت بلتستان میں سکردو کے علاقے سد پارہ سے ہے۔ سد پارہ کا علاقہ مہم جوؤں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔
محمد علی سد پارہ کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جنھوں نے 2016 میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی مرتبہ نانگا پربت کو سر کیا تھا۔
محمد علی سد پارہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے آٹھ ہزار میٹر کی آٹھ چوٹیاں فتح کرنے کے علاوہ ایک سال کے دوران آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں سر کی ہیں۔
ان کے بیٹے ساجد علی سد پارہ کو کے ٹو فتح کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ساجد علی سد پارہ نے کوہ پیمائی کی تربیت اپنے والد ہی سے حاصل کی ہے۔