تھیلیسیمیا اب میں بہت مثبت ہوں اور اپنی بیٹی کے لیے جو بھی کرنا پڑے کر گزروں گی
آپ میں سے اکثر لوگوں نے تھیلیسیمیا کا نام تو سنا ہو گا اور بہت سے لوگوں کو یہ علم بھی ضرور ہو گا کہ یہ خون کی ایسی بیماری ہے جس میں مبتلا افراد کو زندہ رہنے کے لیے تقریباً ہر ماہ ہی خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
لیکن اس مرض میں مبتلا فرد اور اس کے ساتھ جڑے رشتے مرض کی تشخیص کے ساتھ پل پل امید و نا امیدی کے درمیان کس طرح جیتے ہیں اس کا اندازہ لگانا ہر ایک کے بس کی بات ہی نہیں۔
توچلیے آپ کو ملواتے ہیں ایک دہلی کے ایک ایسے شادی شدہ جوڑے سے جو نہ صرف خود تھلیسیمیا مائنر ہیں بلکہ اس کے باعث ان کی اولاد میں تھلیسیمیا میجرتشخیص ہوا اوراپنے تھیلیسیمیا سے متاثر ہونے کا علم خود انھیں بیٹی کی بیماری کے بعد ہوا۔
دہلی میں رہنے والی ڈاکٹر رنکی سنگھ فارما سیکٹر میں کام کرتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر دیویندر کے ساتھ ایک خوشگوار زندگی بسر کر رہی تھیں جب ہی ان کے علم میں یہ بات آئی وہ خود اور ان کے شوہر دیویندر دونوں ’تھیلیسیمیا مائنر‘ ہیں اور ان کی بیٹی تھلیسیمیا میجر۔
اس بات نے ان سمیت تمام گھر والوں کو بہت مایوس اور پریشان کر دیا۔
تھیلیسیمیا میجر اس کی بیماری کی شدید قسم ہے اور یہ ان بچوں میں پائی جاتی ہے جو اپنے ماں اور باپ سے یہ جینز حاصل کرتے ہیں۔ خون کے سرخ خلیے یا ہیموگلوبن پیدا کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث ان کی زندگی کے ابتدائی برسوں میں ہی ان میں خون کی شدید کمی ہوجاتی ہے۔
اگر انھیں مسلسل خون اور ادویات اور علاج دستیاب نہ ہو تو ان کی ہڈیاں ساخت تبدیل کرتی ہیں اور زندگی کے ابتدائی دس سالوں میں ہی ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
دیویندر سنگھ کا کہنا ہے ’ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا کہ ہماری بچے میں کوئی کمی ہے، لیکن جب ہم اسے ٹیکہ لگانے گئے تو ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ اس کی تلی بڑھی ہوئی ہے جس کے بعد ڈاکٹر نے ہمیں ٹیسٹ کروانے کا کہا اور پتہ چلا کہ ہماری بڑی بیٹی تھیلیسیمیا میجرہے۔‘
ڈاکٹررنکی سنگھ نے اپنی بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں کبھی محسوس نہیں ہوا کہ ان کی بچی میں خون کی کمی ہے۔ ’میری بیٹی بہت متحرک ہے۔ حالانکہ وہ کبھی کبھی ٹانگوں میں درد کے بارے میں بتاتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ تھک رہی ہے، ورنہ وہ بالکل نارمل ہے اور بلا کی ذہین بھی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں’ اب ہمیں ہر ماہ اس کا ہیموگلوبن چیک کرنا پڑتا ہے اور پھر خون کی منتقلی کرنی پڑتی ہے۔ وہ ہر بار درد سے گزرتی ہے یہ سب بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔‘
رنکی سنگھ نے بتایا کہ جب وہ دوسری بار حاملہ ہوئیں توشروع میں وہ بہت خوفزدہ تھیں، ’مجھے ڈر تھا کہ کہیں دوسرا بچہ تھیلیسیمیا میجر نہ ہو، اس لیے ہمیں تیسرے مہینے ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا گیا، تاہم ہم نے ابھی تک دوسری بیٹی کا ٹیسٹ نہیں کروایا۔‘
ڈاکٹررنکی سنگھ کے خاندان نےاپنی ہمت ، ثابت قدمی اورمثبت سوچ سے اپنی پریشانی اور کرب کو دور کیا۔
اس کی تفصیل ذرا آگے چل کر، پہلے جان لیتے ہیں کہ تھلیسیما دراصل ہے کیا اور اس کی تشخیص کب ممکن ہو پاتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق
- تھیلیسیمیا ایک جینیاتی بیماری ہے اور بچے کی پیدائش کے چھ ماہ بعد ہی اس کا پتہ چل جاتا ہے۔
- متاثرہ بچے کے جسم کی پوری طرح نشوونما نہیں ہو پاتی اور ہڈیوں میں خرابی کے باعث بچہ اپنے ہم عمر بچوں سے پیچھے رہ سکتا ہے۔
- ڈاکٹرز شادی کے وقت خون کا ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ بیماری کا پہلے سے پتہ چل سکے۔
- تھیلیسیمیا میجر کو ہر ماہ خون کی منتقلی سے گزرنا پڑتا ہے۔
- خون کی منتقلی کے علاوہ بون میرو ٹرانسپلانٹ کے ذریعے مستقل علاج کیا جا سکتا ہے۔
’بچے کو اپنے والدین سے تھیلیسیمیا جینز میں ملتا ہے‘
تھیلیسیمیا مایئنر میں ہیموگلوبین جینز حمل کے وقت وراثت میں ملتی ہیں، اس میں ایک جین ماں اور ایک باپ سے ملتی ہے۔ وہ افراد جن کی ایک جین میں تھیلیسیمیا کا نقص پایا جاتا ہے، انھیں تھیلیسیمیا مائینر کہا جاتا ہے۔
تھیلیسیمیا انڈیا کے مطابق ’ہر سال دس ہزار بچے بیٹا تھیلیسیمیا کی بیماری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور انھیں خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹرراہول بھارگوا دہلی کے فورٹس میموریل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ہیماتولوجی اور بون میرو کے شعبہ کے ڈائریکٹر ہیں۔
ڈاکٹرراہول بھارگوا بتاتے ہیں کہ بِیٹا تھیلیسیمیا خون کی کمی کی ایک قسم ہے جس میں خواتین یا مردوں میں ہیموگلوبن کی کمی ہوتی ہے۔
’تھیلیسیمیا کی تین اقسام ہیں جن میں تھل مائنر، تھل انٹرمیڈیا اور تھل میج۔ یہ ایک جینیاتی بیماری ہے یعنی بچے کو اپنے والدین سے تھیلیسیمیا ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر راہول بھارگوا بتاتے ہیں کہ بِیٹا تھیلیسیمیا خون کی کمی کی ایک قسم ہے جس میں خواتین یا مردوں میں ہیموگلوبن کی کمی ہوتی ہے۔
اگرہم خون کی کمی کی بات کریں تو نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق 15 سال سے 49 سال کی عمر کی 57 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ چھ ماہ سے پانچ سال کی عمر تک کے 67 فیصد سے زائد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پانچ سال کے بچوں کا ہیموگلوبن 11 گرام فی ڈیسی لیٹر (gm/dl) سے زیادہ ہونا چاہیے۔
اگر یہ سات (gm/dl) یا اس سے کم ہے تو اسے شدید خون کی کمی سمجھا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پانچ سال کی عمر تک کے بچوں کا ہیموگلوبن 11 گرام فی ڈیسی لیٹر (gm/dl) سے زیادہ ہونا چاہیے۔ اگر یہ سات ڈیسی لیٹر یا اس سے کم ہے تو اسے شدید خون کی کمی سمجھا جاتا ہے۔
تھیلیسیمیا کب اپنی موجودگی کا پتہ دیتا ہے
میکس ہسپتال انڈیا میں پیڈیاٹرکس آنکولوجی اور ہیماٹولوجی کے شعبہ کی انچارج ڈاکٹر پراچی جین کا کہنا ہے کہ ’اگر میاں بیوی دونوں تھیلیسیمیا کے کیرئیر ہیں تو بچوں کے تھیلیسیمیا میجر ہونے کے 25 فیصد امکانات ہیں جبکہ ان کے کیریئر بننے کے 50 فیصد امکانات ہیں جبکہ بچوں کے نارمل ہونے کا امکان 25 فیصد ہے۔‘
ان کے مطابق ’آپ تھیلیسیمیا مائنر سے متاثرہ افراد کو دیکھ کر نہیں پہچان سکتے لیکن تھیلیسیمیا انٹرمیڈیا اور میجر کو دیکھ کر پہچانا جا سکتا ہے‘۔
ڈاکٹر کے مطابق
’اگر کوئی تھیلیسیمیا انٹرمیڈیا ہے تو انھیں بعض اوقات خون کی ضرورت پڑتی ہے لیکن ان کی جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ تاہم تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا افراد کو ایک ماہ یا اس سے کم یعنی مریض کی حالت کے مطابق خون کی منتقلی سے گزرنا پڑتا ہے‘
ڈاکٹر پراچی جین بتاتی ہیں ’عام طور پر جسم میں سرخ خون کے خلیات (آر بی سی) کی زندگی کا دورانیہ 120 دن ہوتا ہے، لیکن اگر مریض تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہو، تو ان میں موجود آر بی سی اس سائیکل کو مکمل نہیں کر پاتے اور اس کی وجہ خون کی بے تحاشہ کمی ہے۔
ڈاکٹر پراچی جین کے مطابق ’ہمارے جسم میں 46 کروموسوم ہیں یعنی 23 جوڑے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس میں دو کروموسوم ہوں گے جب کہ بچے میں کروموسوم والدین سے جاتے ہیں۔‘
اب اگر ان کروموسوم میں جینز نارمل ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، لیکن اگرماں یا باپ کے کروموسوم میں سے کسی ایک میں کوئی مسئلہ ہو تووہ تھیلیسیمیا کے کیریئر بن جائیں گے۔
مریض کی ہڈیوں میں خرابی، جبڑے یا چہرے کی کھوپڑی کی ساخت متاثر ہوتی ہے
ڈاکٹرراہول بھارگوا بتاتے ہیں کہ ہیموگلوبن ہمارے جسم میں آکسیجن کے رابطے کا ذریعہ ہے جب ہیموگلوبن کم ہو جائے تو آکسیجن بھی جسم تک نہیں پہنچ پاتی۔
ایسی حالت میں خون کی کمی سے مریض کی ہڈیوں میں خرابی پیدا ہوتی ہے، جبڑے یا چہرے کی کھوپڑی کی شکل متاثر ہوتی ہے۔
جسم کی مکمل نشوونما نہیں ہوتی اور پسماندگی کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔
اس کے ساتھ جسم کا پیلا ہونا، تھکاوٹ محسوس کرنا، کمزوری محسوس کرنا وغیرہ بھی اس کی علامات ہیں لیکن والدین کے لیے چھوٹے بچوں میں اس کا پتہ لگانا اس وقت تک مشکل ہو جاتا ہے جب تک ٹیسٹ نہیں کرایا جاتا۔
ڈاکٹرز کےمطابق تھیلیسیمیا میجر اس کی بیماری کی شدید قسم ہے اور یہ ان بچوں میں پائی جاتی ہے جو اپنے ماں اور باپ سے یہ جینز حاصل کرتے ہیں۔
خون کے سرخ خلیے یا ہیموگلوبن پیدا کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث ان کی زندگی کے ابتدائی برسوں میں ہی ان میں خون کی شدید کمی ہوجاتی ہے۔
اگر انھیں مسلسل خون اور ادویات اور علاج دستیاب نہ ہو تو ان کی ہڈیاں ساخت تبدیل کرتی ہیں اور زندگی کے ابتدائی دس سالوں میں ہی ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
تاہم ڈاکٹر رنکی سنگھ نے اپنی دوسرے بچے کی پیدائش کے فیصلے کے بعد نہ صرف مطمئین ہیں بلکہ انھوں نے بڑی بیٹی کے لیے بون میرو کا طریقہ علاج کرنے کی ٹھان لی ہے۔
وہ کہتی ہیں،
’ان تمام مشکلات کے بعد میں اب بہت مثبت سوچتی ہوں اوراپنی بیٹی کے لیے جو بھی ضروری ہو گا وہ کرگزوں گی۔‘
ڈاکٹر رنکی کے مطابق ’ہم نے دوسرے بچے کی پیدائش کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ بون میرو کے ذریعے علاج ہو سکے۔ میری دوسری بیٹی اب تک بالکل ٹھیک ہے اور میری بڑی بیٹی صحت مند ہے اور یہی میرا مقصد ہے۔‘