تولیدی صحت کیا عورتوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ساری عمر قائم رہ سکتی ہے؟
جدید سائنس اور شعبہ طب میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے آج کل خواتین پہلے کے ادوار کے مقابلے میں زیادہ عمر میں بھی بچے پیدا کر پا رہی ہیں، لیکن عمر کے ساتھ ساتھ خواتین کی بچہ پیدا کرنے کی اس صلاحیت کو کس حد تک بڑھایا جا سکتا ہے؟
ڈاگان ویلز برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں تولیدی صحت کے پروفیسر ہیں۔ 35 سال کی عمر کے بعد خواتین کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت میں واقع ہونے والی مسلسل کمی کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ’یہ فطرت کی بڑی ناانصافیوں میں سے ایک ہے۔‘
مردوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت بھی عمر کے ساتھ کم ہوتی ہے، لیکن مردوں کے لیے یہ کمی عورتوں کے مقابلے میں دیر سے شروع ہوتی ہے، اور اس کی رفتار بھی سست ہوتی ہے۔ مردوں میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی 40-45 کی عمر کے قریب شروع ہوتی ہے۔
لیکن خواتین میں یہ کمی اصل میں کب شروع ہوتی ہے؟ اور اس کمی کی وجہ سے بچہ پیدا کرنے کی فطری صلاحیت ختم کب ہوتی ہے؟
ساٹھ کی دہائی سے پہلے امریکہ میں خواتین اوسطاً 21 سال کی عمر میں اپنے پہلے بچے کو جنم دیتی تھیں۔
تاہم سنہ 2017 میں او ای سی ڈی ممالک میں یہ عمر اوسطاً 30 برس تھی۔ اسی سال انگلینڈ اور ویلز میں پیدا ہونے والے بچوں میں سے تقریباً نصف 30 سال کی خواتین کے ہاں پیدا ہوئے، جبکہ جنوبی کوریا میں خواتین اوسطاً 31 سال کی عمر میں اپنے پہلے بچے کو جنم دیتی ہیں۔
لیکن فطری طور پر عمر کے ساتھ ساتھ کم ہونے والی خواتین کی تولیدی صلاحیت کے تناظر میں اس کا کیا مطلب ہے؟
نمبرز کا کھیل
کئی دہائیوں سے سائنسدانوں کا یہ کہنا رہا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ خواتین میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کی کمی کی وجہ بیضہ دانی میں موجود بیضوں میں وقت کے ساتھ پیش آنے والی کمی ہوتی ہے۔ ہر بیضے میں ایک بچہ بننے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
مردوں کے برعکس، جن کے تولیدی اعضا ہر دن کروڑوں کی تعداد میں تازہ سپرم پیدا کرتے ہیں، عورتیں اپنے تمام بیضوں کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ہی نہیں عمر کے ساتھ ساتھ یہ تعداد مسلسل کم ہوتی جاتی ہے: پیدائش کے وقت یہ تعداد 10 لاکھ ہوتی ہے تاہم نو عمری تک پہنچتے پہنچتے تین لاکھ، 37 سال کی عمر تک 25,000 اور 51 سال کی عمر تک یہ تعداد گھٹ کر 1,000 رہ جاتی ہے۔
یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ان سب بیضوں میں سے صرف تین سے چار سو ہی آخر کار بیضہ دانی سے نکل کر باہر آتے ہیں۔۔ عام طور پر ہر ماہ ایک بیضہ خارج ہوتا ہے۔ باقی تمام بیضے قدرتی طور پر ضائع ہو جاتے ہیں اور کبھی بیضہ دانی سے خارج ہی نہیں ہوتے۔ اس کے پیچھے کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔
زیادہ تر لڑکیوں میں نو سے 13 برس کی عمر میں حیض آنا شروع ہو جاتا ہے، لیکن ان کی بیضہ دانیاں اگلے ایک دو سال بعد ہی بیضے خارج کرنا شروع کرتی ہیں۔
یعنی اگر حساب لگایا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ایک عورت کے بیضے، اوسطاً 33 سال میں ختم ہو جائیں گے۔ اور زیادہ تر خواتین میں ایسا ہی ہوتا ہے، یعنی ماہواری کے بند ہونے سے تقریباً آٹھ سال پہلے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت میں واضح کمی واقع ہوتی ہے۔ امریکہ میں خواتین میں ماہواری بند ہونے کی اوسط عمر 51 سال ہے۔
ظاہر ہے کہ ہر عورت کا تجربہ ایک سا نہیں ہوتا، اور مختلف خواتین میں یہ عمل مختلف ہو سکتا ہے، یعنی اس طرح کے تجزیے سے عورتوں کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کا ایک اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔
ایک عورت کے اندر موجود بیضوں (اوویرئین ریزرو) کا بہتر اندازہ ان کے خون میں موجود اینٹی مولیرئین ہارمون (اے ایم ایچ) نامی ایک ہارمون کی مقدار کو ناپ کر لگایا جا سکتا ہے۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ اے ایم ایچ، جو کہ بالغ خواتین کی بیضہ دانیوں میں تیار ہوتا ہے، ایک کچے بیضے کو ایک بالغ بیضہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جو بیضہ دانیاں بہتر کام کر رہی ہوتی ہیں، اور جن میں زیادہ بیضے موجود ہوتے ہیں وہ زیادہ مقدار میں اے ایم ایچ بناتی ہیں۔ خون میں اس ہارمون کی مقدار عورت کی عمر کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔
لونن فلڈ ٹاننبام ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف ماؤنٹ سنائی میں کام کرنے والی ایمبریولوجسٹ اینڈریا جوریسکووا نے کئی برس خواتین میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کی کمی کے پیچھے کارفرما وجوہات پر تحقیق کی ہے۔ ان کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ خواتین کا اوویرئین ریزرو ویسے تو جینیاتی طور پر طے ہوتا ہے لیکن ان کی زندگی کے تجربات جیسے کہ پریشانی، تابکار شعاعیں یا نقصان دہ کیمیائی مادے بھی بیضوں کی تعداد کو متاثر کرتے ہیں۔
معیار کی اہمیت
فیمیل فرٹِلِٹی یا خواتین میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت میں اہم صرف بیضوں کی تعداد ہی نہیں۔ کوالٹی، یا ان بیضوں کا معیار بھی اہم ہے، اور تکنیکی طور پر اس کا اندازہ لگانا تعداد کا اندازہ لگانے سے زیادہ مشکل ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ بیضوں کی تعداد کے علاوہ ہر بیضے میں موجود کروموزومز اور ڈی این اے کا میعار بھی متاثر ہوتا ہے۔
ویلز کہتے ہیں، ’انسانی بیضوں میں کروموزومل ابنارمیلٹی یا نقوص کافی عام ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے بہت زیادہ غیر معمولی سمجھا جانا چاہیے۔ تقریباً تمام خواتین کے بیضوں میں، چاہے وہ کسی بھی عمر کی ہوں کسی نہ کسی حد تک ایسا ہوتا ہے، لیکن عمر کے ساتھ اس میں اضافہ ضرور ہوتا ہے۔‘
بیس سے 30 سال کی عمر تک خواتین کے 25 فیصد بیضوں میں اس طرح کے کروموزومل نقوص ہو سکتے ہیں، تیس سے 35 سال کی عمر آتے آتے یہ شرح بڑھ کر 40 فیصد ہو جاتی ہے اور اس کے بعد یہ بہت ہی تیزی سے بڑھتی ہے۔ پینتیس سال کی عمر کے بعد اس طرح کے بیضوں کی تعداد میں ہر ماہ 0.5 فیصد اضافہ ہوتا ہے، یعنی 40 سال سے زیادہ عمر کی عورت کے تین چوتھائی بیضوں میں کروموزومل نقوص ہوتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہ خواتین بانجھ ہیں، ہاں یہ بات ضرور سچ ہے کہ ان کے زیادہ تر بیضوں سے ایک قابل عمل حمل نہیں ٹھہر سکتا۔
کروموزومز ڈی این اے سے بنے ہوتے ہیں اور ان میں ایک جاندار کو بنانے کے لیے درکار تمام جینیاتی معلومات ہوتی ہیں۔ انسانی بیضے میں 23 کروموزومز ہوتے ہیں، یعنی مستقبل کے بچے کا آدھا جینیاتی کوڈ۔ ایک کامیاب حمل کے لیے ان کا ان 23 کرموزومز سے ملنا ضروری ہے جو باپ کے سپرم میں موجود ہوتے ہیں۔
اگر کسی بیضے میں زیادہ یا کم کروموزومز ہوں تو وہ حمل اکثر ٹھیک سے آگے نہیں بڑھتا۔ کئی دفعہ بچہ پیدا بھی ہو جاتا ہے، تاہم کچھ کروموزومل نقوص کے ساتھ، جیسا کہ ڈاؤنز سِنڈروم میں ہوتا ہے۔
تاہم زیادہ تر کروموزومل نقوص ایک نہایت ہی چھوٹے ایمبریو کے لیے جان لیوا ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں اکثر حمل پانچ سے آٹھ ہفتے کے اندر ہی ضائع ہو جاتا ہے۔
عمر کے ساتھ ساتھ بیضوں میں کروموزومل نقوص کا خطرہ بڑھ جاتا ہے تاہم ایک حالیہ تحقیق کے مطابق بہت کم عمر یعنی 13 سے 21 سال کی عمر کے دوران ۔ بھی یہ شرح کافی زیادہ ہے۔
بیضوں میں موجود مائیٹوکونڈریا میں، جنھیں خلیوں کا پاور سٹیشن بھی کہا جاتا ہے، نقوص بھی عمر کے ساتھ بڑھ جاتے ہیں۔
ویلز کے مطابق شواہد کافی واضح ہیں۔ ’پینتیس سال کی عمر کے بعد فیِمیل فرٹِلِٹی میں آنے والی کمی کافی تیز ہو جاتی ہے، اور زیادہ تر خواتین 45 سال کی عمر تک بانجھ ہو گئی ہوتی ہیں، تب بھی جب ان ماہواری ایک اور دہائی تک جاری رہے۔‘
یہاں یہ واضح کرنا بھی اہم ہے کہ ایسا صرف خواتین کے ساتھ ہی نہیں ہوتا۔ تحقیق کے مطابق مردوں میں سپرم کا میعار بھی 20 سال کی عمر سے ہی کم ہوتا جاتا ہے۔ سپرم موٹلِٹی، یعنی سپرم کی تیرنے کی صلاحیت ہر سال 0.7 فصد کم ہوتی ہے، اور بڑی عمر کے مردوں کے ڈی این اے میں تبدیلیاں بھی دیکھی گئی ہیں۔ بڑی عمر کے مردوں سے ماؤں کے مقابلے میں زیادہ تغیرات بچوں کو منتقل ہوتے ہیں۔
بہترین بیضہ
ویلز کہتے ہیں، ’انسانی بیضہ ایک انتہائی منفرد اور غیر معمولی خلیہ ہے، یہ انسانی جسم میں موجود سب سے بڑا خلیہ ہے، اور اس میں ایک منفرد خصوصیت ہے۔‘ ویلز بیضے کی اس صلاحیت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جس کے تحت یہ اپنی نمو کو آدھے راستے پر روک کر کئی سالوں، یہاں تک کہ دہائیوں تک معطل کر دیتا ہے، جب تک کہ وہ بیضہ دانی سے خارج نہ ہو جائے۔
جوریسکووا کی تحقیق بھی اس معمے کو حل کرنے میں مدد کرتی ہے۔ ان کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی بیضے بیضہ دانی میں کم سے کم نو ماہ تک نمو پانے کے بعد خارج کیے جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’اس بیضے کو نو ماہ تک جس طرح کا ماحول ملتا ہے، خارج کیے جانے والے بیضے کے میعار کا انحصار اس پر ہوتا ہے۔‘ اس دوران پریشانی یا سٹریس، تابکار شعاعوں یا نقصاندہ کیمیائی مواد سے قربت، ان تمام چیزوں کا اثر بیضے پر پڑ سکتا ہے۔
کتنی دلچسپ بات ہے کہ ایک بیضے کو تیار ہونے میں اتنا ہی وقت لگتا ہے جتنا حمل کے پورا ہونے میں، یعنی نو مہینے۔
ویلز کہتے ہیں، ’بیضے کے لیے انتہائی اہم ہے کہ اس کے پاس تمام وسائل ہوں، کیونکہ بیضے اور سپرم کے مل جانے کے بعد پہلے تین دن کے لیے ایمبریو خود کچھ نہیں کر سکتا۔ جینیاتی معلومات سے لے کر پروٹین بنانے کا کام، ہر ایک چیز کے لیے وہ بیضے پر منحصر ہوتا ہے۔‘
ایک عورت کتنے بیضوں کے ساتھ پیدا ہوتی ہے، اس کا تعین تو قدرت ہی کر سکتی ہے، لیکن ویلز اور جوریسکووا دونوں کے خیال میں بیضوں کے معیار کو بہتر بنانے کے راستے ہیں۔
ایک صحت مند طرز زندگی اپنانا، باقاعدگی سے ورزش کرنا، سٹریس یا پریشانی کو کم کرنا، اور ہائیپو تھائیرائیڈزم جیسے طبی مسائل کا علاج کرنا، اس سب سے مدد مل سکتی ہے۔
منزل سے زیادہ اہم سفر
عمر کے ساتھ ساتھ خواتین کو صرف بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے متعلق ہی چیلینجز کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ حمل اور پیدائش کے دوران پیش آنے والے خطرات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق 40 برس سے زیادہ کی خواتین حمل کے دوران صحت کے مسائل جیسے کہ شوگر اور بلڈ پریشر سے دو سے تین گنا زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پیدائش کے دوران آنول نال سے خون بہنے، ان کے بچے کی پیدائش آپریشن کے ذریعے ہونے اور حمل کے آخری مراحل میں بچہ ضائع ہونے کے خطرات دو گنا بڑھ جاتے ہیں۔
یہی نہیں، بلکہ جن خواتین کی پہلی اولاد 40 برس کے بعد پیدا ہوتی ہے، ان بچوں میں بھی مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جیسے کہ پیدائش کے وقت کم وزن، اور پیدائشی نقوص۔ ان میں وقت سے پہلے پیدا ہونے کا خطرہ بھی 50 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
لیکن یہ تصویر کا آدھا ہی رخ ہے۔ اگر مرد بڑی عمر کا ہو، تب بھی ہونے والے بچوں کے لیے صحت کے حوالے سے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ بڑی عمر کے مردوں کی اولاد میں بھی وقت سے پہلے پیدائش، پیدایش کے وقت کم وزن اور مرگی پڑنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
کچھ سائنسدانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ باپ کی عمر 40 سال سے زیادہ ہونے سے بچوں میں آٹزم اور اے ڈی ایچ ڈی جیسی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، تاہم اس بارے میں متضاد شواہد سامنے آئے ہیں۔
کیا خواتین کے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا دورانیے بڑھایا جا سکتا ہے؟
اکثر اوقات جہاں قدرت ناانصافی کرتی ہے، سائنس اسے بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ پچھلے سال ستمبر میں جنوبی انڈیا کی 74 سالہ ایراماٹی مانگماں ماں بننے والی دنیا کی معمر ترین خاتون بن گئیں جب اُنھوں نے اِن وٹرو فرٹیلائزیشن (آئی وی ایف) کے ذریعے حاملہ ہونے کے بعد جڑواں بیٹیوں کو جنم دیا۔ وہ 57 سال سے بانجھ تھیں۔ تین سال قبل شمالی انڈیا کی دلجندر کور نے 72 سال کی عمر میں بیٹے کو جنم دیا۔
پچھلی کچھ دہائیوں میں تولیدی میڈیسن کے شعبے میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے مصنوعی تولیدی طریقوں کی حفاظت، کامیابی، ان تک رسائی اور استعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
برطانیہ میں ہر سال 50 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کے ہاں تقریباً 230 بچے پیدا ہوتے ہیں، اور سنہ 2014 میں امریکہ میں پہلی بار ماں بننے والی خواتین میں سے نو فیصد کی عمر 35 سال سے زیادہ تھی۔
لیکن ان جدید طریقوں کی کامیابی اب بھی کسی حد تک بیضے کی عمر پر منحصر ہوتی ہے۔ بیضے میں موجود ڈی این اے پر وقت کے ساتھ ساتھ اثر پڑتا ہی ہے، اس کے علاوہ ماحولیاتی حالات بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ خواتین کسی نوجوان عورت کی طرف سے عطیہ کیا گیا بیضہ آئی وی ایف کے لیے استعمال کریں۔
آج کل کلینِکس پر خواتین کو ان کے بیضے منجمد کرنے کا آپشن بھی دیا جاتا ہے۔
ویلز کہتے ہیں، ’بڑی عمر کی خواتین کے لیے بچے پیدا کرنے سے متعلق مسائل بچہ دانی کے نہیں، بلکہ بیضے کے ہوتے ہیں۔‘
’پری امپلانٹیشن جینیٹک ٹیسٹنگ‘ جیسی تکنیک کی مدد سے ویلز اور ان کے ساتھی بہترین بیضے کہ نشاندہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جسے پھر آئی وی ایف کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
جہاں ایک طرف سائنس خواتین کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کے دورانیے کو بڑھانے میں کافی پیش رفت کر رہی ہے، وہیں اس عمل کو تاعمر جاری رکھ پانا شاید کبھی ممکن نہ ہو۔
عورتوں کی فرٹِلِٹی یا بچہ پیدا کرنے کی قدرتی صلاحیت میں کمی ناگزیر ہے۔