تقسیم کی شکار سیاست پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ ’ایک حقیقت‘ ہے تو سیاستدان اس معاملے پر ایک پیج پر کیوں نہیں آتے؟
پاکستانی سیاست اور سیاستدان ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں۔ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن مشکلات کا شکار نظر آ رہی تھی تو اب 2024 کے الیکشن میں تحریک انصاف بظاہر ویسی ہی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔ اور اپنی اپنی مشکل کے وقت میں ان دونوں ہی جماعتوں نے اس مشکل کا الزام ’اسٹیبلشمنٹ‘ کے سر ڈالا ہے۔
جبکہ ملک کی تیسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ’اسٹیبلشمنٹ‘ سے گلے شکوے تو پرانی بات ہے۔
اس صورتحال میں عام صارفین کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب کل اور آج مسئلے کی جڑ، سیاسی جماعتوں کے مطابق‘ ایک ہی ہے تو یہ جماعتیں اس معاملے پر ایک پیج پر کیوں نہیں آتیں؟
گذشتہ سال نو مئی کو عسکری تنصیبات کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کو خیرباد کہنے والے سابق وفاقی وزیر اسد عمر کی رائے میں ’پاکستان میں پاور، ریئل پاور اسٹیبلشمنٹ ہے۔ تو سیاستدانوں کو ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ اور اگر اسٹیبلشمنٹ سے بھی بات ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔‘
بی بی سی نے اسد عمر سے پوچھا تھا کہ ملک کے سیاستدانوں کو ایک ساتھ مل کر بیٹھنے میں آخر مسئلہ کیا ہے۔
کسی بھی ملک کی پارلیمان میں سیاستدان عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کا آپس میں بات کرنا اہم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن گذشتہ چند برسوں میں سیاستدانوں کے درمیان ایک واضح تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے بات کرنے کو بھی ترجیح نہیں دیتے۔
پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتیں آخر ایک ساتھ کیوں نہیں بیٹھنا چاہتیں؟ کیا اس کی بڑی وجہ ان کے مختلف مفادات ہیں؟ اور کیا سیاسی جماعتوں کو خود کو ’ریلیونٹ‘ رکھنے اور ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کندھے کی ضرورت پڑتی ہے؟
ہم نے یہ سوال پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے سامنے رکھا تاکہ یہ پتا لگ سکے کہ انھیں ایک دوسرے سے بات کرنے سے کیا چیز روکے ہوئے ہے۔
اگر سب سے پہلے پاکستان تحریکِ انصاف کی بات کی جائے تو سابق وزیر اعظم عمران خان ماضی میں متعدد مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے بات نہیں کریں گے، کیونکہ وہ کسی کو بھی ’این آر او‘ (مبینہ کرپشن کیسز میں ریلیف) نہیں دینا چاہتے۔
پھر انھوں نے خود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کو ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی اور کہا کہ ’جب سب کچھ طے ہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو کرنا ہے تو میں سیاستدانوں سے کیوں بات کروں؟‘
اسد عمر سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’سیاست اس قدر منقسم ہو چکی ہے کہ اس وقت سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے سے بات کرنے کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر سیاستدانوں کی آپس میں بات چیت بند ہے تو پھر دوسرا راستہ اختیار کیا جاتا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں اکثر و بیشتر یہ راستہ اسٹیبلشمنٹ کا راستہ ہوتا ہے۔‘
واضح رہے کہ اس انٹرویو کے وقت اسد عمر پی ٹی آئی کے رکن تھے۔ انٹرویو دینے کے کچھ عرصے بعد وہ پارٹی میں اپنے عہدے اور سیاست سے مستعفی ہوگئے تھے۔
مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ ’ہم نے کئی بار پی ٹی آئی کو ساتھ بیٹھنے کی پیشکش کی۔ جب ہم لوگ اپوزیشن میں تھے تب شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں پی ٹی آئی کو ساتھ مل کر چارٹر آف اکانومی بنانے کی دعوت دی تھی۔‘
’لیکن اس کا جواب یہ ملتا تھا کہ اپوزیشن این آر او مانگ رہی ہے اور نہیں چاہتی کہ ان کی کرپشن کی تحقیقات کی جائیں۔ تو ہم نے انھیں کہا کہ آپ اپنا این آر او اپنے پاس رکھیں۔‘
جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی شازیہ مّری کہتی ہیں کہ ’سیاست میں تقسیم کا بیچ تو ایک وقت سے بو دیا گیا تھا۔ (فوجی آمر) جنرل ضیا کے دور کی ایک سیاہ تاریخ ہے۔ لیکن اس تقسیم نے جس طرح سے جڑیں مضبوط کی ہیں، وہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’ہم نے دیکھا کہ پچھلی حکومت (تحریک انصاف) کے لیڈر تقسیم اور انتشار کو فروغ دیتے رہے۔ نفرت کی بات کرتے رہے، جس سے اس تقسیم کو مزید تقویت ملی ہے۔‘
تو کیا سیاسی جماعتوں کے نزدیک ایسی صورتحال میں خود کو متعلقہ رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ضروری ہو جاتی ہے؟
احسن اقبال دعویٰ کرتے ہیں کہ ’ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے بھی ہائبرڈ نظام چلایا۔ انھوں نے باضابطہ طور پر کوشش کی کہ وہ عمران خان کے ساتھ مل کر ملک کو ایک خاص ڈگر پر چلائیں۔ اور عمران خان نے ان کی آشیرباد گود سے تمام مخالفین کو جیلوں میں ڈالا۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ ’مخصوص تجربہ بُرح طرح ناکام ہوا۔ تو جیسے سیاستدان اپنے تجربے سے سیکھتے ہیں ویسے ہی اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے تجربے سے سیکھتی ہے۔ اسی لیے انھوں نے عمران خان کے سر پر سے اپنا ہاتھ ہٹانے کا فیصلہ کیا۔‘
پھر کیا یہ ہاتھ بعدازاں پی ڈی ایم کے سر پر رکھا گیا؟
احسن اقبال نے سر نفی میں ہلاتے ہوا کہا ’بالکل نہیں۔ پی ڈی ایم ایک سیاسی حقیقت ہے۔ یہ جماعتیں عوام میں جڑیں رکھتی ہیں۔‘
پیپلز پارٹی کی شازیہ مری کہتی ہیں کہ ’ہم بالکل بھی خوش نہیں تھے جب پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی بات ہوئی۔ حقیقت آج بھی یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کو جہاں جہاں اپنا کردار ادا کرنا پڑا، اس بات کی تصدیق کرنے میں کہ کوئی ایسی مداخلت سیاسی سسٹم میں نہ ہو جس سے جمہوریت کو خطرہ ہو، تو انھوں نے اپنی سیاسی ساکھ کو خطرے میں ڈالتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ ’پیپلز پارٹی کو نہ تو ریلیف کے نام پر ’انصاف‘ ملا نہ یہ لاڈلی جماعت ہے۔ ’یہ تاثر تو غلط ہوا نا؟ ہمیں اس سے کیا فائدہ ہوا؟ ہمیں تو کچھ نہیں ملا۔‘
اس سوال پر کہ کیا سیاسی انتقام ساتھ بیٹھنے میں رکاوٹ بن رہا ہے، اسد عمر نے کہا کہ ’مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے پرانے تمام بیانات اور حالیہ دنوں کے طرزِ عمل دیکھ لیں۔ ان کو ایک موقع نظر آیا کہ اچھا ہمارا جو سب سے بڑا حریف ہے، عمران خان، اس کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب ہو رہے ہیں تو یہ بہترین موقع ہے۔‘
تاہم شازیہ مرّی کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی عمران خان کی گرفتاری پر ناخوش تھی۔ ’ہم کسی بھی سیاسی مخالف کی گرفتاری پر خوش نہیں۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں ایسا ماحول ہو جہاں سیاسی شکار نہ بنائے جائیں، جہاں انصاف کے مختلف تقاضے نہ ہوں۔ جو سزا میرے لیے ہے، وہ سزا دوسرے کے لیے بھی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ مجھے ساری سزا ملتی رہے اور دوسرا انھی الزامات میں بری ہوتا رہے۔ مطلب سب کو ایک جیسا سلوک ملے۔ قانون سب کے لیے ایک ہو۔‘
احسن اقبال کی رائے میں ’9 مئی کے بعد عمران خان صاحب کو یقیناً اس غیر آئینی، غیر جمہوری طرزِ عمل کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔ کیا جمہوری مفاہمت کی آڑ میں اب عمران خان این آر او تو نہیں لینا چاہ رہے تاکہ انھیں 9 مئی کے مواخذے سے بچایا جا سکے؟ میرے خیال سے امریکہ نے معافی نہیں دی ان لوگوں کو جنھوں نے کیپیٹل ہِل پر حملہ کیا تھا۔‘
اس تمام تر پسِ منظر کو دیکھتے ہوئے ضرورت پڑنے پر کیا سیاستدان مخالف جماعت سے مذاکرات کرنا چاہیں گے؟
شازیہ مری کی رائے ہے کہ ’ہم نے اس بارے میں سوچا ہے کہ اگر کوئی جماعت ہم سے نظریاتی طور پر الگ ہے تو ہم پھر بھی پاکستان کے مجموعی فائدہ کو دیکھتے ہوئے ان جماعتوں کے ساتھ بیٹھیں گے۔ اور آگے کا معاشی، سیاسی لائحہ عمل بنا سکتے ہیں۔‘
اسد عمر کہتے ہیں کہ سنہ 2023 میں سپریم کورٹ کے کہنے پر اس ضمن میں ایک کوشش ہوئی جو ناکام ثابت ہوئی۔
احسن اقبال نے تھوڑا مختلف مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی حریف یہ سمجھے کہ اس نے آپس میں تنازع کی سیاست پر بات کرنی ہے اور صرف انتشار پھیلانا ہے تو اس سے بات کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ سارے لوگ جو جموری طرزِ عمل پر یقین رکھتے ہیں ہم ان سے بات کریں گے۔‘
تاہم ماہرین کے مطابق اس وقت ملک کی 64 فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ آنے والے عام انتخاباتمیں بھی یہ چیز ابھر کر سامنے آئے گی۔
سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ ’آپ کے سیاستدان اگر آپ کی نمائندگی نہیں کریں گے اور آپس میں جھگڑتے رہیں گے تو نوجوان معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ گذشتہ چند برسوں میں پاکستان میں کئی سماجی تحریکوں نے جنم لیا ہے جیسا کہ پشتون تحفظ موومنٹ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی وغیرہ۔ ’اس وقت فضا بھی سماجی تحریکوں کی ہے۔ یہ تحریکیں ان سیاستدانوں کو پیچھے چھوڑ دیں گی۔ اور اگلی سیاست انھیں لوگوں کی ہو گی جو ستائے ہوئے عوام ہیں۔‘
افراسیاب خٹک نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا کلچر زیادہ تر سرداری اور قبائلی طرز کا رہا ہے جس کی ابتدا مسلم لیگ سے ہوئی تھی۔ ’ہمارے یہاں ایک خاندانی سیاست کا بھی نظام رہا ہے۔ لیکن اب وہ نظام لوگ نہیں قبول کر رہے۔ ان جماعتوں کا اپنا نظام سیاسی نہیں ہے جس کے نتیجے میں کسی باہر والے کے اپنی جگہ بنانا یا پھر انھیں جماعتوں میں ابھر کے سامنے آنا ممکن نہیں ہے۔ ان جماعتوں کو اپنا بنیادی نظام ٹھیک کرنا پڑے گا تاکہ سب کی شمولیت ہو۔‘
جب ان سے پوچھا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ ایسی جماعتوں کو سامنے آنے دے گی جو سماجی تحریکوں کے نتیجے میں بنی ہیں، تو ان کا جواب تھا کہ ’مشکل تو بہت ہو گی لیکن اب کوئی چارہ نہیں ہے۔ تاریخ نے ایسے تمام لوگوں کو بے معنی کر دیا ہے جو عوامی تحریکوں کے خلاف رہے ہیں۔‘