تحریک لبیک پاکستان کو ’قومی مفاد‘ کے نام پر رعایت کیا حکومتی اقدامات نے ملک میں بزور بازو مطالبات منوانے کی روش کا راستہ ہموار کیا؟
حکومت پاکستان اور مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے درمیان طے پانے والا معاہدہ خفیہ رکھا گیا لیکن گذشتہ چند دنوں کے اندر اس جماعت کو ملنے والے سرکاری ریلیف نے جہاں اس معاہدے کے نکات سے پردہ اٹھانا شروع کیا وہیں اس سارے عمل میں حکومتی عجلت پر سوالات اور ملک کے سیاسی اور سماجی مستقبل پر ممکنہ دور رس نتائج پر بحث کو جنم دیا ہے۔
اتوار کو وفاقی حکومت کی جانب سے تحریک لبیک کا نام کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکالے جانے کے بعد حکومت نے تحریک لبیک کو رعایت دینے کی جو وجوہات گنوائیں ان میں قومی مفاد سر فہرست تھا لیکن کیا حکومتی اقدامات نے ملک میں پر تشدد واقعات اور بزور بازو مطالبات منوانے کی روش کا راستہ روکا یا مزید ہموار کیا، یہ اب تک غیر واضح ہے۔
مذہبی جماعت کو رعایت پہلی مرتبہ نہیں دی گئی
کالعدم جماعتوں کے امور پر گہری نطر رکھنے والے تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ ریاست نے پہلی مرتبہ کسی پرتشدد جتھے کے سامنے ’قومی مفاد‘ کی آڑ میں سرنڈر کیا ہو بلکہ ماضی بھی اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں پر مختلف تنظیموں کے ساتھ معاہدے کیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ اسی قسم کی رعایت کسی وقت میں جماعت اسلامی کے ساتھ بھی کی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ایک افغان تنظیم نے اسلام آباد پر قبضہ کرنے کی دھمکی دی تھی اور اس کے ساتھ بھی اس وقت کی حکومت اور ریاست نے مذاکرات کیے تھے۔
عامر رانا کا کہنا تھا کہ اس بارے میں جتنی رعایت مذہبی جماعتوں کو دی گئی ہے اس طرح کی رعایت دوسری جماعتوں کو نہیں دی گئی کیونکہ ان مذہبی جماعتوں کو ان کے بقول ’نظریہ پاکستان کا محافظ‘ سمجھا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ تحریک لبیک پہلے سے ہی الیکشن کمیشن میں بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہے اس لیے یہ جماعت پہلے سے ہی قومی دھارے میں ہے۔
عامر رانا کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ہونے والے عام انتخابات میں تحریک لبیک کا کسی بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد بنوا دیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان میں بہت سی جماعتیں اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر کے اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن ان کے ساتھ اس طرح مزاکرات نہیں کیے جاتے جس طرح مذہبی جماعتوں کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔
تجزیہ نگار افتخار احمد کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے جب تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تو قوم کو بتایا گیا کہ یہ معاہدہ ’قومی مفاد‘ میں کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی تک وہ قومی مفاد کی تعریف سمجھنے سے قاصر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ماضی میں جب سپریم کورٹ کی طرف سے فوجی مارشل لاز کو جائز قرار دیا گیا تو اس وقت بھی قومی مفاد میں نظریہ ضرورت اتحاد ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی نظر میں قومی مفاد کی تعریف الگ ہے اور قوج کی نظر میں قومی مفاد کی کوئی اور تعریف ہے۔
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ آرمی پبلک سکول کے واقعہ کے بعد کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے خلاف سکیورٹی فورسز برسرپیکار رہی ہیں اور اب اس جماعت کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں جس نقطے پر فوری اور کم طاقت صرف کر کے عمل درآمد ہو سکتا ہے وہ لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی تھی لیکن اس پر بھی آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ کرنا اور پھر اس معاہدے کی روشنی میں اس کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنا ہی تھا تو حکومت کو یہ کام اسی وقت ہی کرنا چاہیے تھا جب شاہدرہ کے قریب تحریک لبیک کے کارکنوں نے ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کر دیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ اگر ایسا ہو جاتا، تو ہو سکتا ہے کہ سادھوکی کے قریب نہ پولیس اہلکاروں کی جانیں جاتیں اور نہ ہی پولیس اہلکار وہاں سے بھاگ نکلتے جو کہ ادارے کی بدنامی کا باعث بنا۔
تحریک لبیک کا مؤقف
تحریک لبیک پاکستان کی مجلس شوری کے رکن پیر عنایت الحق شاہ کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے حکومت سے جو معاہدے کیے تھے وہ پورے کر دیے ہیں اور اب یہ حکومت پر ہے کہ وہ تحریک لبیک کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو پورا کرے۔
پیر عنایت الحق شاہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ حکومت نے ان کی جماعت کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکال دیا ہے لیکن ابھی تک ان کی جماعت کے آٹھ سو کے قریب کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول میں موجود ہیں اور پولیس اہلکار ان کارکنوں کو تھانوں میں بلوا کر حاضری لگوا رہے ہیں۔
حکومت کی طرف سے تحریک لبیک کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کے بارے میں جو نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے اس کی کاپی گورنر سٹیٹ بینک کو بھی بھیجی گئی ہے تاہم پیر عنایت الحق شاہ کا کہنا ہے کہ ان سمیت جتنے بھی کارکن فورتھ شیڈول میں ہیں ان کے بینک اکاؤنٹس ابھی تک بحال نہیں کیے گئے۔
’مذہبی جماعتوں کے بارے میں اپنی پالیسیوں کو از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت‘
تجزیہ نگار افتخار احمد کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک لبیک کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کے بعد دوسری جماعتوں کی طرف سے انھیں کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کا مطالبہ ایک فطری عمل ہے۔
واضح رہے کہ تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کے حکومتی فیصلے کے بعد کالعدم سپاہ صحابہ اور دیگر چند تنظیموں نے بھی اپنا نام اس فہرست سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
افتخار احمد نے کہا کہ جہاں ریاست اپنی عملداری پر سمجھوتہ کرے تو وہاں پر ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ دنیا پاکستان کے حالات کو دیکھ رہی ہے اور وہ حکومت وقت سے ضرور سوال کرے گی کہ کچھ عرصہ پہلے جن شدت پسند جماعتوں کو کالعدم قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی اب کن وجوہات پر ان کو اس فہرست سے نکالا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی طرف سے بھی مطالبہ سامنے آیا ہے کہ کراچی میں ان کے دفاتر کو بھی دوبارہ کھولا جائے۔
عامر رانا کا کہنا ہے کہ تحریک اہلسنت والجماعت کی طرف سے ان کو اس فہرست سے نکالنے کا مطالبہ کوئی انھونی بات نہیں بلکہ اس طرح کا مطالبہ دیگر تنظیموں کی طرف سے بھی آ سکتا ہے جنھیں کالعدم جماعت قرار دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مذہبی جماعتوں کے بارے میں بطور ریاست پاکستان کا رویہ دوسری جماعتوں سے ہٹ کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کو اس بارے میں اپنی پالیسیوں کو از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اگر کسی جماعت کو کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا جائے تو اس کو اس فہرست میں شامل کرنے کے لیے ٹھوس شواہد موجود ہوں اور محض ذاتی عناد کی بنیاد پر کسی جماعت کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل نہ کیا جائے۔