تحریک لبیک لانگ مارچ حکومتی وفد کو مطالبات پیش

تحریک لبیک لانگ مارچ حکومتی وفد کو مطالبات پیش

تحریک لبیک لانگ مارچ حکومتی وفد کو مطالبات پیش کر دیے ہیں، جواب کا انتظار ہے، تنظیم کا اعلان

کلعدم تحریکِ لبیک پاکستان نے ایک پریس ریلیز میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کی قیادت کے راولپنڈی میں حکومتی وفد سے مذاکرات ہوئے ہیں جس میں انھوں نے اپنے مطالبات حکومت کو پیش کر دیے ہیں۔

تاہم حکومت کی جانب سے تاحال ان مذاکرات کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

پریس ریلیز کے مطابق تحریکِ لبیک کے مطابق اُن کے قائدین نے جماعت کے سربراہ سعد رضوی کی قیادت میں یہ ملاقات کی جبکہ حکومتی وفد میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیرِ مملکت برائے پارلیمانی اُمور علی محمد خان شامل تھے۔

تنظیم نے کہا ہے کہ حکومتی وفد مطالبات لے کر وزیرِ اعظم کے پاس گیا ہے جہاں سے منظوری کے بعد سنیچر کی شام ’حتمی مذاکرات‘ متوقع ہیں۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے تحریکِ لبیک کی مرکزی شوریٰ کے رکن سرور سیفی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ تحریک لبیک کی اعلیٰ قیادت تین دن سے اسلام آباد میں موجود ہے لیکن کسی حکومتی ذمہ دار نے اب تک کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ اس سے پہلے جمعرات کو وزیر داخلہ شیخ رشید نے جماعت کے سربراہ سعد رضوی سے مذاکرات کی تصدیق کی تھے اور کہا تھا کہ وہ ’جمعے اور سنیچر کو دوبارہ ملاقات کریں گے‘۔

مارچ کی تازہ ترین صورتحال

اس سے پہلے یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ وزیر آباد میں کالعدم جماعت تحریک لبیک کے قافلے نے راستے میں موجود رکاوٹوں کے باعث اسلام آباد جانے کے لیے متبادل راستہ اپنانے کی کوشش کی ہے جس کے بعد رینجرز نے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ جمعے سے شروع ہونے والے اس لانگ مارچ کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان پرتشدد جھڑپوں میں پانچ پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق وزیرآباد میں موجود تحریک لبیک کے کارکنان کی تعداد کئی ہزار ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ سنیچر کی صبح نو بجے تحریک لبیک کے کارکنان نے شہر کے اندرونی راستوں سے آگے بڑھنا شروع کیا۔ اطلاعات ہیں کہ انھیں شہر کے مختلف مقامات پر رینجرز کی جانب سے شیلنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے بعد لانگ مارچ کے شرکا تھوڑا سا پیچھے گئے ہیں تاہم اس وقت وہ شہر کے اندر ہی موجود ہیں۔

اس وقت لانگ مارچ کے شرکا کی پیش قدمی روکنے کے لیے رینجرز آگے ہیں اور ان کے پیچھے پولیس کی نفری موجود ہے۔

علاقے سے موصول ہونے والی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹی ایل پی کی قیادت وزیرآباد کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے اپنا خطاب جاری رکھے ہوئے ہے۔

جہلم پل

وزیر آباد سے اسلام آباد جانے کے لیے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ بائی پاس کے ذریعے ہے جو شہر سے باہر سے ہوتا ہوا جی روڈ کے ذریعے دریائے چناپ کے پل پر آ ملتا ہے۔ دریائے چناپ کے پل سے پہلے مختلف مقامات پر سڑکوں کو توڑ کر خندقیں کھودی گئی ہیں جن میں پانی چھوڑ دیا گیا ہے۔

اسلام آباد کی جانب آنے والا دوسرا راستہ وزیرآباد شہر کے اندر سے گزرتا ہے اور پھر دریائے چناپ کے اسی پل سے آ کر ملتا ہے لیکن اس جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خندقیں نہیں کھودی گئیں۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ لانگ مارچ کے شرکا کے پاس کرین کے علاوہ اس بار لکڑی بڑے بڑے پھٹے بھی ہیں جو عموماً کسی بھی گڑھے یا کھدے ہوئے مقام کو عبور کرنے کے لیے بھی استعمال میں آتے ہیں۔

گذشتہ روز پاکستان کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے معاہدے پر عملدرآمد سمیت متعدد مطالبات کی تکمیل کے لیے اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے والی کالعدم مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان سے آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مذاکرات کیے جائیں گے اور قانون کی عملداری میں خلل ڈالنے والوں کو مزید کوئی رعایت نہیں ملے گی۔

تین دن سے منتظر ہیں کسی نے رابطہ نہیں کیا‘

ادھر تحریکِ لبیک کی مرکزی شوریٰ کے رکن سرور سیفی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تحریک لبیک کی اعلیٰ قیادت تین دن سے اسلام آباد میں موجود ہے لیکن کسی حکومتی ذمہ دار نے اب تک کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔

مرکزی شوریٰ کی جانب سے سنیچر کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ حکومت حالات خراب کرنا چاہتی ہے اور اگر گولی چلی تو حالات کی ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔

تحریک لبیک کا قافلہ: لاہور سے وزیر آباد تک

کالعدم جماعت تحریک لبیک کے کارکنوں کا لانگ مارچ جمعے کی شام وزیر آباد کی حدود میں پہنچا تھا اور اس کے شرکا وزیرآباد بائی پاس پر رات گزاری تھی۔

جمعے کی شام وزیرآباد بائی پاس پر پہنچنے کے بعد جب کچھ کارکنوں نے آگے گجرات کی جانب جانے کی کوشش کی تو ظفر علی خان چوک میں مظاہرین پر پولیس نے شیلنگ کی۔

پولیس کے مطابق لانگ مارچ کے شرکا مولانا ظفر علی خان بائی پاس سے گجرات کی طرف بڑھ رہے تھے جنھیں روکنے کے لیے شیل فائر کیے گئے جس کے بعد وہ بائی پاس پر واپس چلے گئے۔

تحصیل وزیرآباد میں پنجاب رینجرز کی جانب سے مظاہرین کے لیے تنبیہی بینرز بھی لگائے گئے ہیں جن پر تحریر ہے کہ اس علاقے میں امن و امان کی ذمہ داری انھیں سونپی گئی ہے اور انھیں شرپسندوں پر گولی چلانے کا اختیار بھی دیا گیا ہے لہٰذا مظاہرین واپس چلے جائیں۔

پنجاب کی صوبائی حکومت کی درخواست پر رینجرز کو دو ماہ کے لیے صوبے میں تعینات کیا گیا ہے اور انھیں انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ پانچ کے تحت پولیسنگ کے اختیارات بھی دیے گئے ہیں۔

اس قانون کے تحت مسلح افواج یا نیم عسکری ادارے (رینجرز، فرنٹیئر کور) کو پولیس کے اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں جنھیں استعمال کرتے ہوئے پولیس، فوجی یا نیم عسکری اہلکار ‘دہشتگردانہ اقدامات’ یا انسدادِ دہشتگردی ایکٹ میں موجود جرائم کو روکنے کے لیے فائرنگ کر سکتے ہیں، بغیر وارنٹ گرفتاری کر سکتے ہیں اور تلاشی، کسی کی گرفتاری یا اسلحے وغیرہ کی ضبطگی کے لیے بغیر وارنٹ کسی جگہ پر داخل ہو سکتے ہیں۔

کالعدم تنظیم کا یہ مارچ سنیچر کو ضلع گجرات میں چناب ٹول پلازہ تک پہنچ سکتا ہے جہاں انھیں آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

صحافی احتشام شامی کے مطابق چناب ٹول پلازہ پر رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے اور رینجرز کی بکتر بند گاڑیاں بھی چناب ٹول پلازہ پر پہنچ گئی ہیں۔

چناب ٹول پلازہ پر ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے جبکہ گجرات شہر سے وزیرآباد کی جانب عوام کی پیدل آمدورفت بھی روک دی گئی ہے جبکہ گجرات میں جی ٹی روڈ کے اطراف موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔

اس سے قبل گکھڑ منڈی میں لانگ مارچ کے شرکا کی جانب سے توڑ پھوڑ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں اور تحریکِ لبیک کے کارکنوں نے بلدیہ کی سکر مشین کے شیشے اور بلدیہ گکھڑ منڈی کا بیرونی دروازہ بھی توڑ دیا۔

مارچ میں شریک افراد بلدیہ آفس سے ایک ہیوی ٹریکٹر اور باکٹ بھی چھین کر لے گئے۔

تنبیہی بینر
وزیرآباد میں رینجرز کی جانب سے مظاہرین کو متنبہ کرنے کے لیے بینرر بھی لگائے گئے ہیں

ٹی ایل پی سے مذاکرات

وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں جمعے کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس کے بعد وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی گروپ یا عناصر کو امنِ عامہ کی صورتحال بگاڑنے اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

بیان کے مطابق کمیٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ریاست پرامن احتجاج کے حق کو تسلیم کرتی ہے لیکن تحریکِ لبیک کے کارکنوں نے دانستہ طور پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا اور اہلکاروں پر تشدد کیا اور یہ رویہ قابل قبول نہیں اور ریاست کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی۔۔

ٹی ایل پی سے مذاکرات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’ریاست آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہ کر مذاکرات کرے گی اور کسی قسم کے غیرآئینی اور بلاجواز مطالبات تسلیم نہیں کرے گی۔‘’

قومی سلامتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کا منفی تاثر گیا ہے۔

بیان کے مطابق کمیٹی نے ٹی ایل پی کی طرف سے ناموس رسالت کے غلط اور گمراہ کن استعمال کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اس کی وجہ سے فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے اور ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھاتے ہیں۔

’خواہش ہے معاملات افہام و تفہیم سے حل ہو جائیں‘

اس سے قبل اجلاس کے بعد اسلام آباد میں ایک پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ معاملات ابھی تک حل نہیں ہوئے اور خواہش ہے کہ وہ افہام و تفہیم سے حل ہو جائیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر وہ وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کے ہمراہ جمعے کی شام تحریک لبیک سے مذاکرات کریں گے لیکن اگر تحریکِ لبیک کی قیادت سے مذاکرات ہوتے ہیں اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو عوام کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ رکھا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں وزیر اعظم عمران خان ایک دو دن میں قوم سے خطاب بھی کریں گے اور تمام حالات عوام کے سامنے رکھیں گے۔

سڑکوں پر رکاوٹیں اور راستے بند

بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق کالعدم جماعت تحریک لبیک پاکستان کے لانگ مارچ کو اسلام آباد کی طرف آنے سے روکنے کے لیے جتنے حفاظتی اقدامات پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے کیے گئے ہیں اتنے اس جماعت کے ماضی میں کیے گئے دھرنوں کے دوران نظر نہیں آئے۔

کارکنوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے دریائے جہلم کے پل پر ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے پل کی اطراف لگی ہوئی دیواروں کو متعدد جگہوں سے توڑ کر وہاں کنٹینرز کھڑے کیے ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق جو کنٹینرز خالی تھے ان میں نہ صرف مٹی بھری گئی بلکہ ان کے اردگرد لوہے کے سریے لگا کر انھیں پل کے سریوں کے ساتھ ویلڈ کیا گیا تاکہ انھیں اپنی جگہ سے آسانی سے ہٹایا نہ جا سکے۔

خندقیں

اسلام آباد اور لاہور کے درمیان جی ٹی روڈ پر سب سے بڑا پل دریائے جہلم کا ہی پل ہے جس کے دونوں اطراف یہی عمل دہرایا گیا۔ اس کے علاوہ پل کے اوپر ہر 20 فٹ کے فاصلے پر بلاک رکھ کر ان کنٹینرز کو اس میں فکس کر کے اس پر پلستر بھی کیا جا رہا ہے۔

مندرہ سے جہلم تک متعدد پلوں کی دیواروں کو توڑ کر وہاں پر کنٹینرز لگائے جا رہے ہیں۔

بعض مقامات پر لانگ مارچ کے شرکا کو روکنے کے لیے نہ صرف سڑکوں کو توڑ کر وہاں 15 سے 20 فٹ تک گہری خندقیں کھودی گئی ہیں۔ یہ خندقیں لاہور سے اسلام آباد کی طرف آتے ہوئے دریائے چناب کے پل سے پہلے وزیرآباد بائی پاس کے قریب کھودی گئی ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق گجرات شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر بھی سکیورٹی سخت ہے اور لاہور سے آنے والے تمام راستے بند کر کے دریائے چناب کے پل پر کنٹینر لگا دیے گئے ہیں۔

وفاقی انتظامیہ کے مطابق اسلام آباد و راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد چوک کو چاروں جانب کنٹینرز لگا پر مکمل طور پر بند کر دیا گیا جبکہ راولپنڈی کی اہم شاہراہ مری روڈ پر بھی کنٹینرز لگا دیے گئے ہیں۔

کنٹینرز

دونوں شہروں میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ پولیس حکام کے مطابق اسلام آباد میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔

پاکستان ریلوے کی انتظامیہ نے حالات کے پیش نظر سنیچر کو بھی لاہور اور راولپنڈی کے درمیان چلنے والی تین ٹرینیں معطل کی ہیں۔

اس کے علاوہ پشاور سے کوئٹہ جانے والی جعفر ایکسپریس، پشاور سے کراچی جانے والی خیبر میل، اسلام آباد سے کراچی جانے والی گرین لائن اور راولپنڈی سے کراچی جانے والی تیز گام اور پاکستان ایکسپریس کی سروس بھی جزوی طور پر معطل ہے۔

کوریج پر پابندی اور گرفتاریاں

جمعرات کو پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے پیمرا نے تمام میڈیا اداروں کو پابند کر دیا ہے کہ تحریکِ لبیک پاکستان کالعدم جماعت ہے جو ‘دہشتگردانہ کارروائیوں’ میں ملوث ہے اور ملکی سلامتی اور امن کے خلاف کام کر رہی ہے، اس لیے تمام ٹی وی چینلز، ایف ایم ریڈیو سٹیشنز اور کیبل ٹی وی یا آئی پی ٹی وی آپریٹرز اس تنظیم کی کوریج روک دیں۔

اس سلسلے میں پیمرا نے پاکستان کے نجی ٹی وی چینل بول ٹی وی کی نشریات بھی معطل کر دی ہیں۔

ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر بھی تحریک لیبک کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی کی ہے اور اس جماعت کے سوشل میڈیا ونگ کے افراد کے خلاف کارروائیاں عمل میں آئی ہیں۔

جمعرات کو ہی پنجاب میں تحریکِ لبیک کے کارکنوں کے خلاف پولیس پر تشدد اور لوٹ مار کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔

یہ مقدمہ ضلع گوجرانوالہ میں ایس ایچ او صدر کامونکی فرحت نواز کی مدعیت میں انسداد دہشتگردی ایکٹ، ڈکیتی،اغوا، اقدام قتل، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سمیت 16 دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *