تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت سنبھالنا

تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت سنبھالنا

تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت سنبھالنا مسلم لیگ ن کے لیے دانشمندانہ فیصلہ ثابت ہوا یا سیاسی غلطی؟

عمران خان کے خلاف اپریل 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کی قیادت میں جنم لینے والی پی ڈی ایم حکومت کا دور ختم ہو گیا ہے لیکن ڈیڑھ سال بعد بھی اکثر افراد یہ سوال کرتے ہیں کہ ن لیگ کا حکومت کی قیادت سنبھالنے کا فیصلہ کیسا تھا؟

پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا تھا جب دنیا بھر میں روس یوکرین جنگ کے باعث عالمی معاشی بحران اپنے عروج پر تھا اور اس کے اثرات پاکستان کی کمزور معیشت پر بھی عیاں تھے۔

ایسے میں عوام نے مہنگائی سے فوری ریلیف کی امید ’تجربہ کار‘ سیاستدانوں پر مبنی حکومت سے لگا لی تھی اور شہباز شریف کے دور کا آغاز اسی چیلنج سے ہوا۔

تاہم ایک طرف جہاں شہباز شریف حکومت اپنی معاشی پالیسیوں کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنی وہیں انھیں روز بروز عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنا پڑا۔

دوسری جانب، پہ در پہ جلسوں اور سوشل میڈیا پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تقریریں کرنے والے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔

اکثر سیاسی مبصرین کی اس وقت یہ رائے تھی کہ مسلم لیگ ن نے وزارت عظمیٰ لے کر ایک بہت سنگین سیاسی غلطی کی کیونکہ ان کی رائے میں شہباز شریف کو بیک وقت بہت سی سیاسی مشکلات کا سامنا تھا۔

ان مشکلات میں شہباز شریف کے خلاف کرپشن کیسز کی لٹکتی تلوار، پیچیدہ سیاسی اتحاد، زبوں حال معیشت، ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی میں ہوشربا اضافہ اور عمران خان کی بڑھتی مقبولیت شامل تھیں۔

تاہم تمام تر مسائل اور عمران خان کی احتجاجی تحریکوں کے باوجود شہباز شریف اپنی مختصر وزارت عظمی کو ڈیڑھ سال تک چلانے میں کامیاب رہے کیونکہ آغاز میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ وہ یہ ڈیڑھ سالہ مدت بھی پوری نہیں کر پائیں گے۔

ہم نے سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والے مبصرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد، کیا مسلم لیگ ن کا اقتدار سنبھالنے اور شہباز شریف کو وزیرِ اعظم کی کرسی پر بٹھانے کا فیصلہ دانشمندانہ تھا یا سیاسی غلطی؟ اور اس سب کے دوران ان کی جماعت نے کیا کھویا، کیا پایا۔

پی ڈی ایم

’اس مرتبہ ن لیگ معاشی میدان میں کوئی رونق نہیں لگا سکی‘

وزیرِاعظم شہباز شریف کے دورِ حکومت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو شروعات کے وہ چھ ماہ جس میں عوام کو ان سے ریلیف کی امید تھی تاہم آئی ایم ایف سے قرض پروگرام بحالی کے لیے انھیں اس وقت کے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ مل کر مشکل معاشی فیصلے کرنے پڑے۔

اس دوران عمران خان کی تحریکِ انصاف ضمنی انتخابات سویپ کرتی دکھائی دی اور بظاہر ان کی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔

دوسرا حصہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے بطور وزیرِ خزانہ عہدہ سنبھالنے کے بعد شروع ہوا جس میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کھٹائی میں پڑتا دکھائی دیا اور نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد بھی عمران خان نے فوج کی سابقہ اور موجودہ قیادت پر تنقید جاری رکھی اور اس دوران دونوں صوبوں میں اسمبلیاں تحلیل کر کے جلد انتخابات کا مطالبہ شروع کر دیا۔

تیسرا حصہ عمران خان کی نو مئی کو گرفتاری اور اس کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد شروع جس میں پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ براہِ راست آمنے سامنے نظر آئے۔ پی ٹی آئی کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا اور اکثر رہنماؤں کی جانب سے پارٹی عہدے اور سیاست چھوڑنے کے حوالے سے پریس کانفرنسز کی گئیں۔

لیکن اس دوران حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی جسے وہ ایک بڑی کامیابی کے طور پر گنواتی ہے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں لوگوں کی یہ رائے درست ہے کہ شہباز شریف یا ان کی جماعت مسلم لیگ ن کو آئندہ انتخابات میں سیاسی نقصان پہنچے گا۔

انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’شہباز شریف کے حکومت سنبھالتے ہی اشیائے خوردو نوش، پیٹرول، بجلی اور گیس جیسی بنیادی ضرورتوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس میں دو دن کا ناغہ بھی نہیں پڑا۔‘

’ان کے دور اقتدار کے دوران مہنگائی کی لہر میں کمی نہیں ہوئی اگرچہ اقتصادی اعتبار سے اس مہنگائی کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ایک عام پاکستانی ہارورڈ سے پڑھ کر نہیں آتا اور محدود آمدنی والے کو اپنے روزمرہ معاملات دیکھنے ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے بارے میں ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ’یہ جب بھی اقتدار میں آتے ہیں تو کسی نہ کسی طریقے سے یہ عام آدمی کو کوئی ریلیف فراہم کر دیتے ہیں تاہم اس مرتبہ یہ معاشی میدان میں کوئی رونق نہیں لگا سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن اور شہباز شریف کو شاید خود بھی اس بات کا ادراک ہے اسی لیے وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہم نے ریاست کے لیے اپنی سیاست کو تباہ کر دیا۔‘

صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران معاشی عدم استحکام، ملک دیوالیہ ہونے کی خبریں اور مہنگائی کو دیکھیں تو ’یہ بالکل نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کوئی اچھا دور تھا۔‘

’لیکن اگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ اس عرصے کے دوران جس طرح سے ریشہ دوانیاں رہیں، سیاسی عدم استحکام رہا اور اس سب میں پی ٹی آئی کی تصادم کی سیاست رہی، یہ سب نہ تھمنے والا معاملہ تھا یہاں تک کہ نو مئی کا واقعہ ہو گیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جس طرح سے معاملات آگے بڑھے اس سے کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت میں حکومت ایک غلط سیاسی فیصلہ تھا اور اسے سیاسی خودکشی بھی کہا جا سکتا ہے۔‘

وزیر اعظم شہباز شریف

’اس دور حکومت کو شہباز کی ناکامی قرار نہیں دے سکتے‘

سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کچھ اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہباز شریف اور مسلم لیگ ن نے بہت مشکل حالات میں اقتدار سنبھالا تھا کیونکہ انھوں نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی مخلوط حکومت کو قائم کیا۔

’مخلوط حکومت کی اپنی ایک طاقت بھی ہوتی ہے اور کمزوری بھی کیونکہ جہاں اسے اکثریتی جماعتوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے وہیں فیصلہ سازی مشکل ہوتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’شہباز شریف کے پاس حکومت سنبھالتے ہی دو راستے تھے کہ انتخابات کی طرف جائیں یا ملکی معیشت کو سنبھالیں۔‘

’انھوں نے مشکل فیصلہ کرتے ہوئے ملکی معیشت سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ اس وقت اگر وہ انتخابات میں جانے کا فیصلہ کرتے ہو انھیں زیادہ سیاسی فائدہ ہوتا کیونکہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت کافی گر چکی تھی۔‘

مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں تاہم ملک کو دیوالیہ سے بچانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں انھیں کچھ سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ’ان کے دور حکومت کو ہم ان کی یا مسلم لیگ ن کی ناکامی قرار نہیں دے سکتے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے اپنے دور حکومت میں دوست ممالک کے ساتھ روابط بحال کیے، فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا۔ زرعی اور معاشی ترقی کے لیے مربوط اقدامات اٹھائے ہیں مثلاً انویسٹمینٹ کونسل کا قیام، معدنیات کے شعبے پر توجہ، نئی ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد، چھوٹے کسانوں کے لیے زرعی پالیساں، اگر اس سب پر عمل کیا تو مستقبل میں معاشی طور پر ایک مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکے گی۔‘

اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات ختم کرنے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط قائم کرنے اور عمران خان کی سیاست کو محدود کرنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ اگرچہ انھوں نے یہ کچھ ذاتی حیثیت کے فوائد حاصل کیے ہیں لیکن سیاسی طور پر یہ زیادہ اہمیت کے حامل نہیں۔

’سیاست دانوں کے خلاف کئی برس تک مقدمات چلتے رہے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا کہنا تھا بے شک انھیں اس ضمن میں کچھ ریلیف ملا لیکن اس کی انھوں نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔‘

عاصمہ شیرازی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ انھوں نے ذاتی طور پر اس کا فائدہ اٹھایا اور اس وقت کو سیاسی طور پر ایک سیاسی جماعت کے صدر کے طور پر استعمال کیا، جو سیاسی طور پر غلط نہیں۔

’اسٹیبلشمنٹ سے کشیدہ تعلقات کو بہتر تعلقات میں بدلنا، دوست ممالک کے ساتھ اپنی سیاسی سرمایہ کاری کو استعمال کرتے ہوئے بحال کرنا۔ اس میں کوئی بری بات نہیں۔‘

تاہم وہ کہتی ہے کہ جہاں تک ان کے خلاف کرپشن کیسز کی بات ہے تو وہ اسے وقت دے کر بہتر طور پر حل کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔

وہ کہتی ہیں کہ اس دوران 13 جماعتوں کی مخلوط حکومت کو ساتھ لے کر چلنا بھی ان کے کریڈٹ پر آ سکتا ہے لیکن اس کا ان کو سیاسی طور پر کتنا فائدہ ہو گا یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

مجیب الرحمان شامی اس بارے میں رائے دیتے ہیں کہ جس طرح سے نیب کے قانون میں ترمیم کی گئی، اس سے نہ صرف مسلم لیگ ن بلکہ اس وقت زیر عتاب پی ٹی آئی کو بھی فائدہ پہنچا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ نیب کے قانون میں تبدیلی ایک قومی ضرورت تھی کیونکہ بیوروکریسی نیب کے خوف سے کام کرنے سے عاری ہو چکی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ دوسری جانب مقدمات ختم ہونے سے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مقدمات سیاسی اور کمزور بنیادوں پر قائم ہوئے تھے اس لیے انھیں اس میں ریلیف یا انصاف ملا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ چند اقدامات سے مسلم لیگ ن کی ساکھ کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن اسی طرح پی ٹی آئی کی تصادم کی پالیسی اپنانے سے اسے بھی نقصان پہنچا ہے۔

کیا پیپلز پارٹی کو فائدہ ہوا؟

کیا اس صورتحال سے پیپلز پارٹی نے فائدہ اٹھایا؟ اس سوال کے جواب میں نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو حقوق انسانی کی علمبردار جماعت سمجھا جاتا تھا لیکن حال ہی میں سیکریٹس ایکٹ سمیت جو دیگر قانون سازی ہوئی ہے اس میں وہ برابر کی شریک رہی ہے۔ ’ان کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے سیاستدانوں کی اجتماعی ساکھ اتنی ہی تباہ ہو چکی ہے جیسے 1950 کی دہائی کے اواخر میں تھی۔‘

نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول پی ایم ایل ن، پی پی پی اور پی ٹی آئی، سب کی اجتماعی ساکھ متاثر ہوئی، جسے بحال کرنے میں ایک نسل درکار ہو گی۔

مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ پپلز پارٹی کا حلقہ انتخاب سندھ ہے جہاں اسے کوئی مشکل کا سامنا نہیں لیکن پنجاب اور کے پی میں وہ کتنا آگے بڑھ سکے گی یہ کہنا مشکل ہے۔

ان کی رائے ہے کہ پنجاب اور کے پی میں اصل سیاسی میدان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان ہی سجے گا اور اس میں پیپلز پارٹی کو کوئی خاص فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔

عاصمہ شیرازی اس سوال پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ موجودہ صورتحال کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ملے گا کیونکہ حکومتی اتحاد میں تمام جماعتیں شامل تھی۔

’تحریک انصاف کے ساتھ لوگ اس لیے تھے کیونکہ وہ روایتی سیاست سے اکتائے ہوئے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں ’پی ٹی آئی سیاسی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جبکہ عوام مایوس نظر آتے ہیں اور عوام کی مایوسی کی وجہ بڑھتی مہنگائی، سیاسی جماعتوں سے اعتماد نہ ملنا اور عدم استحکام ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اس وقت عوام اور سیاسی جماعتوں کے درمیاں خلا ہے۔ ’پی ٹی آئی غائب ہے جبکہ دیگر جماعتیں بھی عوام سے رابطہ کاری نہیں کر پا رہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *