تحریک طالبان پاکستان کی مذاکراتی کمیٹیوں میں براہ راست بات چیت اور قیدیوں کی رہائی کی تردید
پاکستان حکومت اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان فائر بندی کو پندرہ روز گزر گئے ہیں لیکن طالبان کے ترجمان کے مطابق اب تک مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان اب تک باقاعدہ بات چیت شروع نہیں ہوئی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی نے ایک سوال کے جواب میں بی بی سی کو بتایا ہے کہ اب تک مذاکراتی کمیٹیاں بات چیت کے لیے باقاعدہ طور پر آمنے سامنے نہیں بیٹھی ہیں۔ انھوں نے اس خبر کی بھی تردید کی کہ حکومت پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان سے منسلک ایک سو طالبان قیدیوں کو رہا کیا ہے۔
تاہم اس بارے میں وزیرستان سے ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں جانب سے رابطے ہوئے ہیں اور امن معاہدے کی تکمیل کے لیے کوششیں جاری ہیں، جس میں کچھ مقامی قبائلی رہنما بھی حصہ لے رہے ہیں۔
اس سے قبل ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان خیر سگالی کے جذبے کے تحت حراستی مراکز سے لگ بھگ ایک سو طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔
خبر میں سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ رہائی کا یہ عمل طالبان کی جانب سے کسی مطالبے کے تحت نہیں کیا گیا بلکہ بات چیت کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔
سینیئر صحافی جمشید باغوان نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کی معلومات کے مطابق ان قیدیوں کو حراستی مراکز سے رہا کیا گیا ہے، جن کی باضابطہ رہائی میں چند ماہ ہی باقی تھے اور ان میں بیشتر تو اپنے گھروں کو بھی پہنچ چکے ہیں۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کے ذرائع کے مطابق قیدیوں کی یہ رہائی طالبان کے مطالبات یا ان کی شرائط کے تحت نہیں کی گئی بلکہ یہ رہائی خیر سگالی کے اقدام کے طور پر کی گئی ہے۔
دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ دونوں جانب سے مذاکراتی کمیٹیاں اب تک آمنے سامنے میز پر بیٹھی ہی نہیں تو پھر ایسے میں شرائط اور مطالبات کی بات قبل از وقت ہو گی۔ انھوں نے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اب تک کسی قسم کی شرائط پیش نہیں کی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ چند روز قبل تحریک طالبان کے طاقتور کمانڈر عبدالولی مہمند عرف عمر خالد خراسانی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کے مطالبات ماننے کی صورت ہی میں ان مذاکرات میں پیش رفت ہو سکتی ہے، جس میں اب بھی سرفہرست مطالبہ تحریک طالبان پاکستان کے قید ساتھیوں کی رہائی ہے۔
جمشید باغوان نے بتایا کہ ان کی اطلاع بھی یہی ہے کہ اب تک باضابطہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے اور نہ ہی اب تک طالبان کی جانب سے کسی قسم کی کوئی شرائط یا مطالبات سامنے آئے ہیں۔
وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں جانب سے مذاکرات کے لیے رابطے ضرور ہوئے ہیں اور بعض رابطے براہ راست ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان رابطوں میں کبھی کمیٹیاں شامل رہی ہیں اور کبھی انفرادی طور پر پیغامات کا سلسلہ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تک رابطے اچھے ماحول میں ہو رہے ہیں اور امن معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان ایک ماہ کے لیے فائر بندی کا اعلان آٹھ نومبر کو ہوا تھا۔ ان مذاکرات کے لیے ثالثی کا کردار افغان حکومت کے اہم طالبان رہنما ادا کر رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے اس فائر بندی سے متعلق باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا تھا۔
اعلامیے میں کیا کہا گیا تھا؟
اس اعلامیے میں کہا گیا کہ ’تحریک طالبان پاکستان چونکہ پاکستانی قوم سے ہی بنی ایک اسلامی جہادی تحریک ہے، اس لیے وہ ہمیشہ دیگر اہم مسائل کے ساتھ ساتھ قومی مفاد کو بھی مدنظر رکھتی ہےـ یہ حقیقت ہے کہ مذاکرات جنگ کا حصہ ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا انکار نہیں کر سکتی، لہٰذا تحریک طالبان پاکستان ایسے مذاکرات کے لیے تیار ہے، جس سے ملک بھر میں دیرپا امن قائم ہو سکے اور ہمارے پاکستانیوں کو ایک طرف امن کی بہاریں میسر ہوں اور دوسری طرف پاکستان کے حصول کا مقصد بھی حاصل ہو سکے۔‘
اس اعلامیے میں کہا گیا کہ فریقین نے مذاکراتی کمیٹیوں کے قیام پر اتفاق کیا ہےـ یہ کمیٹیاں آئندہ لائحہ عمل اور فریقین کے مطالبات پر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ فریقین کی طرف سے ایک ماہ یعنی نو نومبر سے نو دسمبر تک فائر بندی ہو گی, جس میں فریقین کی رضامندی سے مزید توسیع بھی کی جائے گی۔
فریقین پر فائربندی کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ـ امارت اسلامیہ افغانستان موجودہ مذاکراتی عمل میں تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے مابین ثالث کا کردار ادا کر رہی ہے۔