تحریک انصاف کے رہنما، میجر (ر) خرم روکھڑی سے اظہار لاتعلقی کیوں کر رہے ہیں؟
تحریک انصاف اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان جاری کشیدگی میں سابق وزیر اعظم عمران خان پر وزیر آباد میں ہونے والے حملے کے بعد ایک نیا موڑ آیا جب پارٹی چیئرمین نے وزیر اعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ سمیت پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے افسر میجر جنرل فیصل نصیر کو بھی اس حملے کا مورد الزام ٹھہرایا۔
عمران خان کی جانب سے میجر جنرل فیصل نصیر کا نام متعدد مرتبہ لیا جا چکا ہے تاہم گذشتہ رات پاکستان کے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز پر میزبان حامد میر سے بات کرتے ہوئے ریٹائرڈ میجر خرم حمید روکھڑی نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر میجر جنرل فیصل نصیر سے عمران خان کے کہنے پر پہلے خود اور بعد میں گلوکار سلمان احمد کے ہمراہ ملاقات کی تھی۔
ان کے مطابق پہلی ملاقات اگست کے آخر میں انفرادی حیثیت میں ہوئی جس میں میجر جنرل فیصل نصیر نے کہا کہ ’عمران خان پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے لیڈر ہیں، اگر کوئی ان کو (یعنی عمران خان) کو ایسی کوئی بات بتا رہا ہے تو ان کو بتائیں کہ ایسا نہیں ہے۔‘
واضح رہے کہ میجر جنرل فیصل نصیر سے جڑے تنازعات کا معاملہ ان کی بطور ڈی جی سی آئی ایس آئی تعیناتی کے بعد شروع ہوا جب پہلے عمران خان نے ’ڈرٹی ہیری‘ کے نام سے اور پھر کھلے عام ان کو شہباز گل پر مبینہ تشدد، اعظم سواتی کی گرفتاری اور مبینہ تشدد کے بعد مبینہ ویڈیو کے لیک ہونے اور پھر اپنے اوپر حملہ کرانے کی سازش کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
ڈی جی سی کا عہدہ آئی ایس آئی میں اہم عہدہ تصور کیا جاتا ہے جس پر سابق آئی ایس آئی سربراہ اور موجودہ کور کمانڈر بہاولپور لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید بھی تعینات رہ چکے ہیں۔
میجر ریٹائرڈ خرم حمید روکھڑی، جو میانوالی سے تعلق رکھنے والے سابق فوجی افسر ہیں، نے پروگرام میں دعویٰ کیا کہ وہ فیصل نصیر کو ’اپنی ملازمت کے وقت سے جانتے ہیں‘ اور ان کے مطابق یہ ایک اصول پسند افسر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شہباز گل پر تشدد کے الزامات پر میں نے پارٹی کو بتایا کہ میجر جنرل فیصل نصیر ایسے بندے نہیں ہیں اور اس کے بعد مجھے خود ان سے مل کر بات کرنے کو کہا گیا۔‘
میجر خرم نے کہا کہ ’پہلی ملاقات میں میجر جنرل فیصل سے میں نے کہا کہ میں چاہوں گا کہ آپ خود ملیں جس پر انھوں نے رضامندی کا اظہار کیا۔ میں نے پارٹی سے کہا کہ انھوں نے یہ کام نہیں کیا، وہ آپ کے خلاف نہیں ہیں۔‘
ان کے مطابق کچھ دن بعد ایک اور ملاقات ہوئی جس میں میجر جنرل فیصل نصیر نے کہا کہ ’آپ (تحریک انصاف) صرف فوج کو سٹیج پر گالیاں دینا چھوڑ دیں۔‘
میجر خرم نے کہا کہ تیسری ملاقات کے لیے میں نے سلمان احمد کو ساتھ چلنے کو کہا جنھوں نے ’پہلے عمران خان سے ملاقات کے لیے اجازت لی۔‘
میجر خرم کے مطابق اس ملاقات کا مقصد فوج اور تحریک انصاف میں دوری کو کم کرنا اور الیکشن کی راہ ہموار کرنا تھا۔
ان کا سب سے اہم دعویٰ یہ تھا کہ عمران خان پر حملے کے بعد ان سے ایک بار پھر میجر جنرل فیصل نصیر سے ملاقات کروانے کے لیے کہا گیا جس پر انھوں نے انکار کر دیا۔ واضح رہے کہ عمران خان اس حملے میں میجر جنرل فیصل نصیر کو ایف آئی آر میں نامزد کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکے تھے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کر چکے تھے۔
ان کے دعوؤں پر پاکستان فوج کی جانب سے اب تک کوئی بیان تو جاری نہیں کیا گیا تاہم تحریک انصاف کی جانب سے جوابی دعوؤں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس نے متعدد سوالات اور سوشل میڈیا پر بحث کو جنم دیا ہے۔
عمران خان کے قریبی ساتھی اور گلوکار سلمان احمد نے ٹویٹر پر جاری ویڈیو بیان میں تسلیم کیا کہ ستمبر کے مہینے میں ان کی میجر جنرل فیصل نصیر کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں میجر خرم نے کردار ادا کیا۔
تاہم سلمان احمد کا کہنا تھا ’یہ میٹنگ میرے یا عمران خان کے کہنے پر نہیں ہوئی۔ عمران خان اور میجر خرم کی ایک سال ہوا ملاقات بھی نہیں ہوئی۔‘
’میجر خرم نے خود کہا کہ میں بات کروانا چاہتا ہوں کیوں کہ میں بہتری کی طرف لے جا سکتا ہوں۔‘
’میں نے اس وجہ سے ان کے ساتھ جانے کی حامی بھری کہ اگر اس ملاقات سے خلیج کم ہو سکتی ہے اور زخم بھر سکتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ اس ویڈیو سے چند دن قبل سلمان احمد نے ایک ویڈیو میں میجر جنرل فیصل نصیر سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’جنرل صاحب، میری اور آپ کی جو میٹنگ ہوئی تھی اس میں ہم نے یہ بات کی تھی کہ ہم نے زخم بھرنے ہیں، سول ملٹری خلیج کم کرنی ہے۔‘
یہ ویڈیو تین نومبر کو عمران خان کے اوپر وزیر آباد میں ہونے والے حملے کے بعد جاری کی گئی تھی جس میں اس حملے سمیت اعظم سواتی کی مبینہ ویڈیو کا بھی حوالہ دیا گیا۔
اس ویڈیو میں سلمان احمد نے کہا کہ ’آپ اندرونی اور بیرونی سکیورٹی کو جانتے ہیں، آپ کو پتہ ہے کہ یہ پلان کس نے کیا؟ بجائے خاموش رہنے کے آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ سامنے آئیں اور بتائیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘
سلمان احمد نے اس ویڈیو میں کہا کہ ’دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد آپ میجر جنرل فیصل نصیر نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا میں پوری کوشش کروں گا کہ ایک ون، ون صورتحال بنے۔‘
ادھر تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں، بشمول فواد چوہدری، نے سوشل میڈیا پر میجر خرم حمید روکھڑی سے اظہار لاتعلقی کیا ہے۔
ان دعووں پر صحافی حامد میر نے ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’کچھ مہربان پوچھ رہے ہیں یہ میجر خرم حمید کون ہے؟ کوئی کہہ رہا ہے کہ عمران خان تو پچھلے ایک سال سے اس آدمی کو ملے ہی نہیں ، گستاخی معاف! صرف چند ہفتے پہلے خان صاحب جلسے سے خطاب کے لیے مظفر آباد پہنچے تو وہاں ان کا استقبال کرنے والوں میں وزیراعظم آزاد کشمیر کے ساتھ خرم بھی موجود تھے۔‘
اس پر فواد چوہدری نے لکھا کہ ’آپ کے پروگرام میں تحریک انصاف کے لوگ نہیں جاتے کیونکہ جیو کا بائیکاٹ ہے۔ لیکن آپ ویسے فون کر کے پوزیشن پوچھ لیا کریں۔ مناسب نہیں کہ آپ اپنے ناظرین کو غلط مؤقف دیں۔ جس کا پارٹی سے تعلق نہ ہو، واضح کر چکے ہیں عارف علوی صاحب کے علاوہ کسی کے پاس بات چیت کا مینڈیٹ نہیں ہے۔‘
فواد چوہدری کے بعد شہباز گل نے بھی ایسے ہی دعوے کیے تو میجر خرم حمید روکھڑی کے نام سے ایک ٹویٹر اکاوئنٹ کے ذریعے ایسی متعدد تصاویر شیئر کی گئیں جن میں ان کو اہم تحریک انصاف رہنماؤں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک تصویر میں ان کو عمران خان کے ہمراہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ان میں سے ایک تصویر کے ساتھ انھوں نے لکھا کہ ’شہباز گل اور فواد چوہدری اپنے ان ساتھیوں سے پوچھ لیں کہ میں کون ہوں۔‘
یہ معاملہ ایک عام صارف کے ذہن میں بھی کئی سوال چھوڑ گیا۔
عمر خٹک نامی صارف نے لکھا کہ ’فواد چوہدری صاحب نے ٹویٹر پر سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ یعنی وہ انھیں نہیں جانتے لیکن میجر صاحب کا تحریک انصاف کی سینیئر قیادت، چیئرمن عمران خان، اسد عمر، شبلی فراز، فواد چوہدری اور دیگر قائدین کے ساتھ اتنی تصویریں کیسے؟‘