بیز بال بمقابلہ روایتی کرکٹ ایجبسٹن ٹیسٹ

بیز بال بمقابلہ روایتی کرکٹ ایجبسٹن ٹیسٹ

بیز بال بمقابلہ روایتی کرکٹ ایجبسٹن ٹیسٹ میں ہار جو انگلینڈ کے نئے طرزِ کھیل پر ’سوالیہ نشان چھوڑ گئی

ایجبسٹن ٹیسٹ کے پانچویں روز آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان ایک کلاسک مقابلہ دیکھنے کو ملا اور آسٹریلیا نے دو وکٹوں سے فتح حاصل کر کے سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کر لی تھی۔

ٹیسٹ کے پانچویں روز جب کچھ اوورز بعد میچ پر کبھی ایک تو کبھی دوسری ٹیم کی گرفت مضبوط ہو رہی تھی تو پیٹ کمنز اور نیتھن لائن کی نویں وکٹ کی شراکت نے آسٹریلیا کو فتح سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ پانچ روز کی شدید ٹینشن پر مبنی کرکٹ کا بہترین اختتام تھا اور دونوں روایتی حریفوں نے ایشز کی صحیح معنوں میں تشہیر کی اور اس میں موسم نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور صبح کے وقت طویل بارش نے ڈرامہ میں مزید اضافہ کیا۔

تاہم جو بات اس وقت بھی زیرِ بحث ہے وہ یہ کہ کیا انگلینڈ کی جارحانہ حکمتِ عملی جسے عرفِ عام میں بیز بال کا نام دیا جاتا ہے اس شکست کا نتیجہ بنی؟

اس کی ایک وجہ تو سٹوکس کی جانب سے پہلے روز کھیل کے اختتام سے کچھ دیر قبل ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ تھا لیکن دوسری جانب معین علی کو ریٹائرمنٹ سے واپس بلا کر ٹیم میں شامل کرنے پر سوالات اٹھتے رہیں گے۔

پورے میچ میں معین علی دائیں ہاتھ کی انگلی پر کٹ لگا تھا جس کے باعث وہ پورے میچ کے دوران بولنگ کرنے میں مشکلات کا شکار رہے۔

بین سٹوکس نے اپنی پہلی اننگز کی ڈکلیئریشن پر میچ کے بعد بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا خیال تھا کہ وہ ایک ایسا موقع تھا جس دوران میں حملہ کر سکتا تھا۔ میں صرف اس لیے اپنے طرزِ کھیل کو تبدیل نہیں کروں گا کیونکہ یہ ایشز سیریز ہے۔

’کیا پتا ہمیں اضافی 40 رنز مل جاتے یا دو گیندوں پر دو وکٹوں گر جاتیں۔ میں ایسا کپتان نہیں ہوں، جو کیا ہو سکتا ہے اس پر یقین رکھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم میچ کے زیادہ تر دورانیے میں کامیاب کنٹرول میں رہے اور ایک نتیجہ نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ ظاہر ہے ہم بھی یہی چاہتے تھے کہ ہمیں کامیابی ہو۔ ہمیں بہت دکھ ہے لیکن یہی کھیل کی انوکھی بات ہے۔ یہ بہترین ہے اور جذبات کے اتار چڑھاؤ کا اپنا مزا ہے۔‘

سٹوکس کا کہنا تھا کہ ’ہارنا کسی کو بھی پسند نہیں ہوتا، ہم ہمیشہ جیتنا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے ہمیں بہت دکھ ہے کہ ہم ہار گئے۔‘

broad

وکٹ کیپر جونی بیئرسٹو کی جانب سے چھوڑے گئے چار چانسز

انگلینڈ کو اس ٹیسٹ سے قبل گذشتہ 12 ٹیسٹ میچوں کے دوران صرف دو میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان میں سے ایک نیوزی لینڈ کے خلاف صرف ایک رن کی شکست تھی جب انگلینڈ نے ویلنگٹن میں بلیک کیپس کو فالو آن کرنے پر مجبور کیا تھا۔

تاہم اس شکست سے انگلینڈ کو کپتان بین سٹوکس اور کوچ برینڈن مکلم کی سربراہی میں اس نئے طرزِ کھیل کا اب تک کا سب سے بڑا امتحان ثابت ہو گا۔ یہ اس لیے نہیں کہ ان کے جارحانہ انداز آسٹریلوی حکمتِ عملی کے سامنے فیل ہو گیا بلکہ اس لیے کہ وہ جیت کے اتنے قریب تھے اور ان کی اپنی غلطیاں انھیں مہنگی پڑیں۔

ان میں سے فیلڈنگ کے دوران آٹھ چانس چھوڑنا سرفہرست ہے جن میں سے وکٹ کیپر جونی بیئرسٹو کی جانب سے چھوڑے گئے چار چانسز شامل ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم عثمان خواجہ کا دوسری اننگز کے دوران اینڈرسن کی گیند پر وہ کیچ تھا جس کے لیے وہ اپنی جگہ سے ہلے بھی نہیں۔

یہ بات بھی اہم تھی کہ سٹوکس جو اس وقت گھٹنے کی انجری کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور انھوں نے دوسری اننگز کے 70ویں اوور تک بولنگ نہیں کی۔ دوسری جانب جیمز اینڈرسن جو انگلینڈ کے لیے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے کھلاڑی ہیں کو دوسری نئی گیند نہیں دی گئی۔

دونوں ٹیموں کے منفرد طرزِ کھیل کا انوکھا ٹکراؤ

سنہ 2005 کے بعد سے کوئی بھی ٹیم پہلے میچ میں شکست کھانے کے بعد ایشز سیریز جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

انگلینڈ نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ آسٹریلیا کا مقابلہ کر سکتی ہے لیکن انھیں اپنی غلطیوں پر قابو پاتے ہوئے ایک بہترین پرفارمنس دینی ہو گی اگر وہ سنہ 2015 کے بعد پہلی مرتبہ ایشز جیتنا چاہتے ہیں۔

یہ میچ صرف 18 برس قبل اسی گراؤنڈ پر کھیلے گئے کانٹے کے ایشز ٹیسٹ کو خراجِ تحسین پیش کرنے جیسا نہیں تھا بلکہ ایک عرصے میں سب سے زیادہ انتظار کی جانے والی ایشز کا بہترین آغاز بھی تھا۔

زیک کرالی کی جانب سے سیریز کی پہلی گیند کو چوکے کے لیے باؤنڈری تک پہنچانے سے لے کر اس ٹیسٹ میں بہت کچھ تھا۔ انگلینڈ کی جانب سے پہلے ہی روز ڈکلیئریشن کا فیصلہ، چوتھے روز کی پہلی گیند پر روٹ کی جانب سے کمنز کو ریورس ریمپ کرنے کی کوشش اور دونوں ٹیموں کے درمیان طرزِ کھیل کا منفرد انداز۔

تاہم اس سب پر آخری گھنٹے کا ڈرامہ سبقت لے گیا جو ایسے تماشائیوں کے سامنے کھیلا گیا جو صبح کے آغاز کئی گھنٹے جاری رہنے والی بارش کے باوجود وہیں موجود رہے تھے۔

آسٹریلیا کے لیے ان روایتی طرزِ کھیل ان کی معمولی مارجن سے فتح کے بعد اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ان کے فیصلے انگلینڈ کی بیز بال طرز کھیل سے زیادہ بہتر تھے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ کپتان کمنز جنھوں نے پہلے محتاط رہنے کے طرز کھیل کی بنیاد رکھی ہے انھوں نے اس معاملے میں اہم کردار ادا کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *