بنگلہ دیش کے قیام کے 50 برس ریپ کی شکار ’بہادر خواتین‘ کو تسلیم کرنے میں اب تک ہچکچاہٹ کیوں برتی جاتی ہے؟
کیا آپ کو پتا ہے کہ ’بیرنگونا‘ کون ہیں اور بنگالی زبان کے اس لفظ کا مطلب کیا ہے؟ شاید ہی پاکستان میں یا دنیا بھر میں اُردو بولنے والے اس لفظ کے معنی جانتے ہوں۔
’بیرنگونا‘ کا مطلب بہادر خواتین یا جنگی ہیروئنز ہے اور یہ وہ خطاب ہے جو سنہ 1971 کی جنگ کے بعد اُن خواتین کو دیا گیا تھا جنھیں بنگلہ دیشی حکام کے بقول جنگ کے دوران یا بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے ریپ کیا گیا تھا۔ پاکستان سرکاری طور پر ہمیشہ ریپ کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
ان بنگلہ دیشی خواتین کی تعداد کتنی تھی، اس کے متعلق 50 سال گزرنے کے بعد بھی مستند اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ کوئی ان کی تعداد دو لاکھ بتاتا ہے تو کوئی دو ہزار۔
پاکستان میں سرکاری طور پر تو کبھی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا کہ ایسا کوئی گھناؤنا جنگی جرم ہوا بھی تھا لیکن تاریخ دان، دانشور، صحافی، سینیئر سفارتکار اور کچھ ریٹائرڈ فوجی کہہ چکے ہیں کہ جنگ میں دونوں طرف سے ایسا بہت کچھ ہوا تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
ریپ، جنگ کا ایک ہتھیار
میں نے یہی سوال امریکہ کی ٹفٹس یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا اور مسلم دنیا کی تاریخ کی ماہر پروفیسر عائشہ جلال سے کیا کہ کن اعداد و شمار کو درست مانا جائے تو اُن کا جواب تھا ’سوال یہ نہیں ہے کہ کتنی عورتوں کے ساتھ ایسا ہوا۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایک بھی عورت کے ساتھ زیادتی ہونا بہت بُرا ہے۔ میں مانتی ہوں کہ دونوں طرف سے تشدد ہوا لیکن میں یہ بھی کہتی ہوں کہ ہمارا قصور یہ ہے کہ وہ ہمارے اپنے عوام تھے اور ہم نے اپنے عوام کے ساتھ یہ کیا۔ وہ لوگ ہماری فوج کے ساتھ لڑ رہے تھے یہ بھی درست ہے، مگر ہمیں اس پر زیادہ معذرت خواہ ہونا چاہیے کہ وہ ہمارے عوام تھے اور ہم نے ان کے ساتھ ہی جنگ کی۔‘
عائشہ جلال کہتی ہیں کہ یہ بھی سچ ہے کہ وہاں خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی، کئی کا ریپ بھی ہوا، ان کو باقاعدہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
’1971 سے یہ معلوم ہے کہ ایسا ہوا ہے، کتابیں لکھی گئی ہیں، تحقیق ہوئی ہے۔ بہت سے محققین نے لکھا ہے۔۔۔ یاسمین سائکیہ کی کتاب ہی دیکھ لیں۔ ان سب کو فراموش نہیں کیا جا سکتا اور کسی نہ کسی سطح پر اسے فراموش بھی نہیں کیا گیا، ہاں، البتہ پاکستان میں اس کے بارے میں گفتگو کم ہوئی ہے، اور وہ سمجھ میں بھی آتا ہے۔ مگر یہ بات ضرور ہے کہ بات کرنے کی اب تھوڑی بہت کوشش کی جا رہی ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ میں دونوں طرف سے تشدد ہوتا ہے۔‘
بی بی سی بنگلہ سروس کے ایڈیٹر اور سینیئر صحافی صابر مصطفیٰ کی عمر بنگلہ دیش کے قیام کے وقت 13 سال تھی اور وہ بھی لاکھوں کے اس ہجوم میں شامل تھے جو شیخ مجیب کی رہائی کے بعد اُن کے استقبال کے لیے اکٹھا ہوا تھا۔
ان کے ذہن میں اس پُرتشدد تحریک کی بہت سی تصاویر اب تک کنندہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے کہ بہت سی خواتین کو ریپ کیا گیا تھا اور بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق ان کی تعداد تقریباً دو لاکھ تھی، تاہم ان کے مطابق غیر سرکاری طور پر یہ تعداد کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے۔
بنگلہ دیش کے قیام اور تشدد کے نو ماہ پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، بہت تحقیق ہوئی اور ڈھاکہ کے ’لبریشن وار میوزیم‘ میں اس پر بہت مواد بھی موجود ہے۔
اس مواد کے مطابق ’جنگ میں تقریباً 30 لاکھ افراد ہلاک ہوئے، دو لاکھ 78 ہزار خواتین کو ریپ کیا گیا اور ایک کروڑ افراد کو جان بچانے کے لیے انڈیا میں پناہ لینی پڑی۔‘
صحافی اور محقق ماریئن شولٹے نے بھی 1971 کی جنگ اور خواتین کے حوالے سے کافی تحقیق کی ہے۔ بی بی سی نے ان سے انٹرویو کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ کیونکہ وہ بہت عرصے سے بنگلہ دیش سے باہر ہیں اس لیے ان کے چھپے ہوئے کام کو ہی استعمال کر لیا جائے کیونکہ اب بھی وہ وہی کہیں گے جو انھوں نے لکھا تھا۔
تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کی بحالی
ماریئن کا ایک مضمون ’لبریٹنگ دی وومن آف 1971‘ ہے، جس میں وہ ان پروگراموں اور کاوشوں کا ذکر کرتی ہیں جو بنگلہ دیشی حکومت نے ملک کے قیام کے فوراً بعد جنگ سے متاثرہ خواتین کی بحالی اور حریت کے لیے کی تھیں۔
وہ لکھتی ہیں کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمان نے اپنے ملک کے عوام کو کہا تھا کہ وہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہونے والی خواتین کو وہ عزت اور وقار دیں جس کی وہ حقدار ہیں۔
’بدقسمتی سے ان کی التجا پر زیادہ کان نہیں دھرے گئے اور لاتعداد خواتین کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا اور معاشرے نے انھیں نظر انداز کر دیا۔ لیکن پھر بھی خواتین رہنماؤں اور شیخ مجیب کی حکومت نے جنگ سے متاثرہ خواتین کے لیے ایک بے نظیر پروگرام بنایا جس کے ذریعے ہزاروں خواتین کی مدد کی گئی اور خواتین کے کام اور آزادانہ طور پر رہنے کے لیے نئی عوامی جگہوں کی تشکیل دی گئی۔‘
وہ لکھتی ہیں کہ کس طرح چند سرکردہ خواتین رہنماؤں نے ملک کے قیام کے فوراً بعد بہت سی مظلوم خواتین کو، جن کی حالت بہت بری تھی، کیمپوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچایا۔ ان کے مطابق حکومت نے فوراً دو گھر، ایسکاٹن روڈ 20 اور ایسکاٹن 88 اس کام کے لیے مختص کیے کہ ان خواتین کو پناہ دی جائے اور ساتھ ہی ان کے لیے مالی امداد بھی دی گئی۔
بحالی کا یہ آپریشن کئی ماہ جاری رہا۔
ماریئن لکھتی ہیں کہ جب یہ خبر آئی کہ کینٹ کہ علاقے میں کچھ خواتین نے ان پاکستانیوں کے ساتھ ملک چھوڑے کا فیصلہ کر لیا ہے جنھوں نے انھیں زبردستی اپنے پاس رکھا ہوا تھا، تو ڈھاکہ یونیورسٹی میں بنگلہ زبان کی پروفیسر نیلمہ ابراہیم اور پروفیسر نوشابہ شرافی وزارتِ تعلیم کی ایک اہلکار کے ساتھ اس کی تحقیق کرنے گئیں۔
’وہ 50 یا 60 خواتین کو قائل کرنے میں کامیاب ہوئیں، تاہم 30 یا 40 خواتین نے بنگلہ دیش میں اپنی قسمت کا سامنا کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک خاتون نے ابراہیم کو بتایا کہ کسی دور دراز ملک میں ’میں چاہے فاحشہ بن کے رہوں یا سڑکوں پر جھاڑو دوں، لوگ مجھے نہیں پہچانیں گے، میرا شوہر، میرے بچے میرا تمسخر نہیں اڑائیں گے۔‘
محققین کے مطابق بہت سی خواتین نے دوسرے لوگوں کے طعنوں اور شرمندگی سے بچنے کے لیے خودکشیاں کر لیں۔ بہت سی خواتین کی موت صرف اس وجہ سے ہوئی کہ انھوں نے شہروں اور دور دراز علاقوں میں ناتجربہ کار دائیوں سے چھپ کر اسقاطِ حمل کرانے کی کوشش کی۔
محققین کے مطابق کئی ایک بنگلہ دیش، انڈیا، پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کے قحبہ خانوں میں سمگل ہوئیں اور ایک بڑی تعداد نے بچوں کو جنم بھی دیا، جنھیں ’وار چائلڈ‘ کہا جاتا تھا۔
صابر مصطفیٰ کا دعویٰ ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے فوراً بعد اسقاط حمل کے کئی کلینک بنائے گئے اور بہت سی خواتین نے اسقاطِ حمل کرایا بھی لیکن اس کے باوجود ’ریپ کی وجہ سے تقریباً 25 ہزار بچے پیدا ہوئے اور ان میں سے بہت سوں کو غیر ملکیوں نے اپنا لیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’مدر ٹریسا نے ایک کلینک بنایا اور 549 بچوں کو گود لیا اور سبھی کو بیرون ممالک لے جایا گیا۔ سینیٹر جان مکین کی بھی ایک بیٹی تھیں جنھیں انھوں نے 1972 میں بنگلہ دیش سے گود لیا تھا۔‘
صابر کہتے ہیں کہ بی بی سی میں بھی ایک خاتون ہوتی تھیں جو بنگلہ دیشی ’وار چائلڈ‘ تھیں اور ایک برطانوی جوڑے نے انھیں گود لیا تھا۔
بنگلہ دیشی حکام کے مطابق یہ تعداد اتنی زیادہ تھی کہ شیخ مجیب کو کچھ عرصے کے لیے اسقاطِ حمل کا قانون معطل کرنا پڑا۔
ماریئن لکھتی ہیں کہ مجیب حکومت کے خواتین کی بحالی کے بورڈ کی اولین ترجیحات میں سے ایک یہ تھی کہ کس طرح حاملہ خواتین اور ان خواتین کی جنھیں معاشرتی یا جنسی امراض ہیں، مدد کی جائے۔
اسی لیے ملک میں اسقاطِ حمل کی ممانعت والے قانون کو جنوری سے لے کر اکتوبر تک معطل کر دیا گیا۔ بنگلہ دیشی ذرائع کے مطابق انٹرنیشنل پلینڈ پیرنٹ ہڈ فیڈریشن (آئی پی پی ایف) نے بھی اس سلسلے میں کافی مدد کی۔
پروفیسر عائشہ جلال کہتی ہیں کہ ’1971 میں مشرقی پاکستان کی جنگ میں خواتین کا کردار بھی رہا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ جب آزادی مل گئی تو مجیب الرحمٰن نے یہ فیصلہ کیا کہ ان سب کو قومی ہیروئنز بنا دینا چاہیے۔ مگر اس کے باوجود بھی ان کے ساتھ جو تشدد ہوا تھا اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس کو چھپانے کی کوشش کی گئی۔ جو لوگ بنگلہ دیش کے متعلق سوچتے ہیں ان کو تو پتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا اور رہا ہے۔ اور اس وجہ سے جب بنگلہ دیش سے معافی کے متعلق بات ہوتی ہے تو اس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم کا ایک بڑا حصہ ہے۔‘
‘خواتین کے کردار پر بات نہ کریں‘
ماہرِ عمرانیات کہتے ہیں کہ جنس ایک حیاتیاتی خصوصیت ہے جو عورت اور مرد کو مختلف بناتی ہے لیکن جینڈر یا صنف معاشرتی اور ثقافتی تخلیق ہے جو مرد اور عورت کے کردار اور ذمہ داریوں کا تعین کرتی ہے۔ جنگوں میں عورتوں کے کردار پر اتنی بات نہیں کی جاتی اور ایسا زیادہ تر ہوتا رہا ہے۔
عائشہ جلال کہتی ہیں کہ ’یہ بات کہ خواتین کے کردار کو کھل کر تسلیم نہیں کیا گیا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ نو آبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد چاہے وہ سری لنکا میں ہو، ترکی، الجیریا یا خود پاکستان میں، عورتوں کے کردار کو پوری طرح تو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے بنگلہ دیش کوئی عجیب بات نہیں ہے۔‘
اور شاید یہی وجہ تھی کہ بنگلہ دیش نے جنگ کے 44 سال بعد 23 اکتوبر 2015 کو پہلی مرتبہ بیرنگوناز یا بہادر خواتین کو بنگلہ دیش کے قیام کے لیے لڑنے والوں کا درجہ دیا، تاہم اس وقت ان کی تعداد صرف 43 تھی، یعنی اتنی نہیں جتنی بنگلہ دیش ان خواتین کے متعلق کہتا رہا ہے۔
جون 2021 تک جن ریپ ہونے والی خواتین کو ’آزادی کی جنگ کے سپاہیوں‘ کا درجہ ملا ہے ان کی تعداد اب تک 416 تک پہنچی ہے۔
اس پر ایک علیحدہ بحث کی ضرورت ہے کہ 50 سال گزرنے کے بعد بھی کیوں اتنی کم تعداد میں ہی ’بہادر خواتین‘ کی قربانیوں کو تسلیم کیا گیا، لیکن جیسا کہ پہلے عائشہ جلال کہہ چکی ہیں کہ ریپ چاہے ایک خاتون کا ہو یا بہت سوں کا دونوں صورتوں میں یہ ایک گھناؤنا جرم ہے۔
لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس جنگ میں خواتین کے کردار کو صرف ان کے ساتھ ہونے والے ریپ تک ہی محدود رکھا جائے۔ جنگ میں انھوں نے ہر حوالے سے حصہ لیا تھا۔ وہ گوریلا جنگ بھی لڑیں اور جاسوس بھی بنیں، انھوں نے ڈاکٹروں، نرسوں اور تیمارداروں کا بھی کردار ادا کیا اور اپنے قلم سے بھی لڑائی لڑی۔
فرنٹ لائن خواتین
صابر مصطفیٰ کہتے ہیں کہ کچھ خواتین نے فرنٹ لائن سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا تھا لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی۔
’زیادہ تر خواتین نے پسِ پردہ کام کیا تھا، طبی عملے کی شکل میں اور شہروں اور قصبوں میں بہت سی خواتین نے جنگجوؤں کی مدد کر کے حصہ لیا تھا۔ وہ ان کے ہتھیار چھپا دیتی تھیں، اور کبھی کبھار انھیں پناہ اور خوراک بھی دیتی تھیں۔‘
وہ اس میں ایک مثال جہان آرا امام کی دیتے ہیں جن کے بیٹے کو فوج نے پکڑ لیا تھا اور اس کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا۔
جہان آرا کے بیٹے نے کچھ دوسرے نوجوانوں کے ساتھ مل کر انڈیا کے شہر اگرتھلہ میں فوجی آفسر خالد مشرف کے زیرِ سایہ گوریلا ٹریننگ حاصل کی اور واپس آ کر ڈھاکہ میں سبوتاژ کی کارروائیاں کرتا رہا اور وہیں وہ پکڑا گیا۔
’جہان آرا امام اپنے بیٹے کی مدد کرتی تھیں، ان کے گھر گوریلا جنگجوؤں کی میٹنگز ہوتیں، وہ وہاں ان کا اسلحہ چھپاتیں اور اپنی گاڑی میں انھیں مختلف مقامات پر بھی پہنچاتیں۔‘
جہان آرا بعد میں مشہور لکھاری بنیں اور 1971 کے متعلق ان کی ایک ڈائری کو این فرینک کی طرح کی ڈائری کہا جاتا ہے۔
یہ جہاں آرا ہی تھیں جنھوں نے 1980 اور 90 کی دہائی میں مہم چلائی کہ جماعتِ اسلامی کے کارکنان کو جنھوں نے مغربی پاکستان کا ساتھ دیا تھا جنگی جرائم کے حوالے سے پکڑا جائے اور سزا دی جائے۔
صابر کہتے ہیں کہ ’1992 میں جہان آرا امام نے ایک عوامی عدالت بھی لگائی تھی جہاں انھوں نے جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کو جنگی جرائم کی وجہ سے سزائیں سنائیں۔ یہ ایک علامتی عدالت تھی لیکن حکومت کو یہ اقدام پسند نہیں آیا کہ وہ عدالتوں کے ہوتے ہوئے اپنی عدالت لگا رہی ہیں اور اس لیے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بھی چلایا گیا۔‘
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ بنگلہ دیش نے آج تک صرف دو خواتین کو جنگ میں شجاعت اور بہادری پر ملک کے چوتھے سب سے بڑے ایوارڈ ’بیر پروتک‘ سے نوازا ہے۔
ان میں سے ایک تارامون بی بی ہیں جو بہت چھوٹی عمر میں ہی مکتی باہنی کے کیمپ میں باورچی کا کام کرنے لگی تھیں اور بعد وہ ان کی گوریلا کارروائیوں میں حصہ لینے لگیں۔
جب 1973 میں بنگلہ دیش حکومت نے ان کے کردار کو سراہتے ہوئے انھیں ایوارڈ دینے کا اعلان کیا تو وہ کہیں دور اپنے گاؤں جا چکی تھیں۔ انھیں پتہ بھی نہیں تھا کہ انھیں یہ ایوارڈ ملا ہے۔ 1996 میں خالدہ ضیا کی حکومت میں انھیں ڈھونڈ کر ایوارڈ دیا گیا۔
اسی طرح بنگلہ دیش کا یہ چوتھا سب سے بڑا بہادری کا ایوارڈ ستارہ بیگم کو بھی دیا گیا جو ایک ڈاکٹر اور فوجی افسر تھیں۔
صابر کہتے ہیں کہ بہت سی خواتین اس لیے مشہور نہیں ہوئیں کیونکہ ایک تو انھوں نے پسِ پردہ کام کیا اور دوسرا ان کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا اور ان کی اوپر تک رسائی ہی نہیں تھی۔
بنگلہ دیش کی کہانی بھی بیشتر ممالک کی اپنی آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کی کہانی جیسی ہے جس میں ہزاروں لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں۔ اور یہاں بھی دوسرے ممالک کی طرح اب تک خواتین پر کی گئی اذیتوں اور ان کی قربانیوں کے متعلق صرف دبے الفاظ میں ہی بات کی جاتی ہے۔