بلوچستان سینیٹر عثمان کاکڑ کی تدفین، سیاسی رہنماؤں کا اصرار کہ موت طبعی نہیں تھی
عملی سیاست میں قدم رکھنے کے بعد ہر آمریت کے خلاف ہمیشہ پیش پیش رہنے والے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر محمد عثمان کاکڑ کی تدفین کر دی گئی۔ وہ 60 برس کی عمر میں پیر کے روز کراچی میں وفات پا گئے تھے۔
عثمان کاکڑ کے قریبی رشتہ داروں کا الزام ہے کہ ان کی موت طبعی نہیں اور انھوں نے موت کی وجوہات کے بارے تحقیقات کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر محمد عثمان کاکڑ کی نماز جنازہ اور تدفین میں لوگوں نے جس بڑے پیمانے پر شرکت کی وہ بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقوں میں اب تک کا سب بڑا اجتماع تھا۔
بڑی تعداد میں سیاسی رہنماﺅں اور سیاسی کارکنوں کی شرکت کے باعث یہ ایک سیاسی اجتماع بھی بن گیا۔
اس بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران عثمان کاکڑ کے صاحبزادے خوشحال خان کاکڑ اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے عثمان کاکڑ کی موت کو ’باقاعدہ قتل‘ قرار دیا اور ان کے قتل کی ذمہ داری ملک کے دو خفیہ اداروں پر عائد کی۔
دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو نے تحقیقات کے حوالے سے پشتونخوا میپ اور عثمان کاکڑ کے خاندان کو پیشکش کی ہے۔
عثمان کاکڑ کے نام سے منسوب قبرستان میں تدفین
عثمان کاکڑ کی تدفین کا وقت پانچ بجے تھا لیکن ان کی تدفین کی تقریب میں سیاسی رہنماﺅں کی بڑی تعداد میں شرکت اور خطاب کے باعث تدفین میں دو گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔
عثمان کاکڑ کی نماز جنازہ جمیعت العلماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے چھوٹے بھائی مولانا عطاالرحمان نے پڑھائی۔
نمازجنازہ میں تاحد نگاہ لوگ ہی لوگ نظر آرہے تھے۔ نمازجنازہ کے بعد عثمان کاکڑ کی تدفین ان کے نام سے منسوب قبرستان میں کی گئی۔
اس قبرستان کے لیے زمین عثمان کاکڑ نے دی تھی جس کے باعث اس قبرستان کو ان کے نام سے ہی منسوب کردیا گیا۔
پی ٹی ایم رہنماؤں سمیت سیاسی رہنماﺅں کی شرکت
جس طرح کوئٹہ سے کراچی تک عثمان کاکڑ کی میت کا فقید المثال استقبال کیا گیا اسی طرح کوئٹہ سے عثمان کاکڑ کے آبائی علاقے مسلم باغ تک بھی ان کی میت کا بڑے پیمانے پر استقبال کیا گیا۔
اگرچہ بلوچستان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماﺅں کے داخلے پر پابندی ہے لیکن عثمان کاکڑ کے نماز جنازہ میں موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو شرکت کی اجازت دی گئی تھی جس کے باعث وہ بھی اس میں شریک ہوئے۔
سیاسی رہنماﺅں نے عثمان کاکڑ کی سیاسی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنی 60سالہ زندگی کا 40سال سیاسی جدوجہد میں گزاری۔
اس موقع پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ کے علاوہ پارٹی کے دیگر رہنماﺅں نے کہا کہ ’عثمان کاکڑ کی موت طبعی نہیں ہے بلکہ انہیں قتل کردیا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ قتل کے ذمہ دار ملک کے وہ دوخفیہ ادارے ہیں جن کا نام عثمان کاکڑ نے اپنی زندگی میں لیا تھا۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ’اگر کوئی انصاف کرسکتا ہے تو ہم ان کو بتاسکتے ہیں کہ عثمان خان کاکڑ کو کس طرح دھمکیاں ملیں اور کس طرح لوگ ان کے گھر میں داخل ہوئے اوران پر حملہ کیا۔‘
عثمان کاکڑ کے صاحبزادے خوشحال خان کاکڑ نے کہا کہ انہیں ڈاکٹروں نے بتایا کہ عثمان کے سرپربہت بڑی چوٹ لگی تھی اور وہ گرنے کی وجہ سے نہیں ہوسکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ عثمان کاکڑ نے اپنی زندگی میں یہ کہا تھا کہ اگر انہیں یا ان کے خاندان کے کسی فرد کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری دو خفیہ اداروں پر عائد ہوگی۔
خوشحال خان نے کہا کہ ان کے والد ہمیشہ یہ بات کرتے تھے کہ اب ان کے واردات کا طریقہ بدل گیا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور پشتون اولسی جرگی کے سربراہ نواب ایازخان جوگیزئی نے عثمان کاکڑ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم حکمرانوں کو کہنا چاہتے ہیں کہ اب بہت ہوگیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پشتونوں کو ایسے قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے پھر آپ کو پچھتانا پڑے۔‘
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما رضامحمد رضا نے مطالبہ کیا کہ عثمان کاکڑکے قاتلوں کو سزا دی جائے اور تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی وہ قتل کے خلاف آواز بلند کریں۔
تحقیقات کے لیے حکومتی پیشکش؟
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عثمان کاکڑ نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کے عظیم رہنما تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ان کے پاس عثمان کاکڑ کے قتل کے ثبوت ہیں اور اسی طرح ان کے بیٹے نے بھی یہی کہا ہے کہ ان کو قتل کیا گیا ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم پشتونخوا میپ اور عثمان کاکڑ کے خاندان کو یہ پیش کش کرتے ہیں کہ وہ یہ ثبوت ہمارے ساتھ شیئر کریں حکومت ان کے ساتھ تحقیقات میں ہرقسم کی تعاون کے لیے تیار ہے۔
اس سے قبل ایک اور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کی موت پر نہ صرف بلوچستان بلکہ پورا ملک سوگوار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف ہم ایک عظیم رہنما سے محروم ہوگئے لیکن دوسری جانب اس موقع پر ملک دشمن چاہتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان فوج کا شکریہ اداکرتے ہیں کہ وہ ہر قسم کی علاج معالجے کے لیے ان کے خاندان کے ساتھ رابطے میں تھی۔
عثمان کاکڑ کون تھے؟
عثمان کاکڑ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے مسلم باغ میں سنہ 1961 پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق پشتونوں کے معروف اور بڑے قبیلے کاکڑ سے تھا۔
میٹرک کوئٹہ میں اسلامیہ اسکول سے کرنے کے بعد انہوں نے بھاولپور سے انجنیئرنگ میں ڈپلوما حاصل کیا۔ سائنس کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے ایم اے اکنامکس کی ڈگری حاصل کی۔
انھوں لا کالج کوئٹہ سے ایل ایل بی بھی کیا۔ زمانہ طالعلمی سے ہی وہ پشتون قوم پرست طالب علم تنظیم پشتونخوا ملی اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن سے وابستہ ہوئے۔ وہ تنظیم کے مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ سنہ 1987 میں پشاور میں ایک بڑی کانفرنس میں تنظیم کے سیکریٹری اول یعنی سربراہ منتخب ہوئے۔
عثمان کاکڑ سابق آمر ضیاءالحق کے دور میں پابندیوں کے باعث ترقی پسند طلبا کی ملک گیر الائنس پاکستان پروگریسو الائنس کے پلیٹ فارم سے بھی متحرک رہے۔
سنہ 1986 میں طلبا سیاست سے فراغت کے بعد انھوں نے باقاعدہ طور پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
پارٹی میں فعال کردار کی وجہ سے محمد عثمان کاکڑ کو پارٹی کا صوبائی صدر منتخب کیا گیا اور گذشتہ طویل عرصے سے پارٹی کے صوبائی صدر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
پارٹی کا صوبائی صدر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پارٹی کے مرکزی سیکریٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ عثمان کاکڑ سنہ 2015 میں پشتونخوا میپ کے ٹکٹ پر بلوچستان سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔
عثمان کاکڑ نہ صرف اپنی پارٹی کی سطح پر بلکہ محکوم اقوام کی تحریک (پونم) اور ایم آرڈی سمیت دیگر تحریکوں میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ایک بیان کے مطابق ان کی میت منگل کو کراچی سے کوئٹہ منتقل کی جائے گی اور 23 جون کو ان کی تدفین ان کے آبائی علاقے مسلم باغ میں کی جائے گی۔
زیرک سیاستدان اور امن کے خواہاں
افغانستان کے صدارتی محل سے جاری اعلامیہ کے مطابق صدر اشرف غنی نے عثمان کاکڑ کی موت پر دکھ کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ‘عثمان خان کاکڑ افغان سرزمین کے زیرک سیاست دان اور امن کے خواہاں تھے۔ وہ افغان امن عمل کے حمایتی اور افغانستان میں بیرونی مداخلت کے سخت مخالف تھے۔
’عثمان خان کاکڑ ہر قسم کے تشدد، ظلم اور جبر کے خلاف اپنے مظلوم اور محکوم عوام کی آواز تھے اور ان کی موت افغان سرزمین اور عوام کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔ افغان حکومت اور عوام کی جانب سے ہم پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور ان کے خاندان کے غم میں شریک ہیں۔‘
عثمان کاکڑ کو 17 جون کو شہباز ٹاﺅن میں واقع ان کے گھر سے بے ہوشی کی حالت میں ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ اس وقت محمود خان اچکزئی نے بی بی سی کےخدائے نور ناصر کو بتایا تھا کہ انھیں گھر پر اچانک دورہ پڑا ہے جس کے باعث وہ گرے اور ان کے سر پر چوٹ آئی۔ تب سے لے کر آج تک اس حوالے سے پارٹی کا مؤقف بھی یہی رہا ہے۔
سینیٹر عثمان کاکڑ کے رشتہ داروں کا کیا کہنا ہے؟
تاہم ان کے قریبی رشتہ دار اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی ڈپٹی سیکریٹری محمد یوسف خان کاکڑ نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ گھر میں بے ہوش ہونے سے پہلے عثمان کاکڑ صحت مند تھے۔
انھوں نے کہا کہ عثمان کاکڑ 17 جون کی سہ پہر تین بجے جناح روڈ پر واقع پشتونخوامیپ پارٹی کے دفتر سے گھر گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ جو ذاتی محافظ تھا وہ عثمان کاکڑ کے گھر پہنچنے کے بعد واپس پارٹی کے دفتر آیا تھا۔
خیال رہے کہ عثمان کاکڑ کو بے ہوشی کی حالت میں کوئٹہ کے ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے ان کے دماغ کا آپریشن کیا تھا لیکن وہ ہوش میں نہیں آئے تھے۔ انھیں بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر سندھ حکومت نے علاج کے لیے کراچی منتقل کیا تھا۔
عثمان کاکڑ ایک عوامی سیاسی رہنما تھے یہی وجہ ہے کہ نہ صرف کوئٹہ میں ہسپتال کے باہر لوگوں کی بڑی تعداد موجود رہی بلکہ کراچی کے جس نجی ہسپتال میں وہ زیر علاج تھے اس ہسپتال کے باہر بھی پشتونخوامیپ کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔
جب ان کے رشتہ دار یوسف خان کاکڑ نے کراچی میں ان کے موت کا اعلان کیا تو ہسپتال کے باہر کارکن زار و قطار رونے لگے۔ اسی طرح کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں بھی ان کی موت کی خبر سن کر لوگ رنجیدہ ہوئے۔
موت کی وجوہات کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ
پشتونخوا میپ کے رہنما یوسف خان کاکڑ نے کہا کہ عثمان کاکڑ ایک بہادر سیاسی کارکن اور رہنما تھے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ جس چیز کو غلط سمجھتے تھے ببانگ دہل اس کو غلط کہتے تھے اور جو لوگ اس غلط کام کے پیچھے تھے وہ ان کا نام بھی لیتے تھے جن میں خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے نام بھی ہوتے تھے۔
انھوں نے ان کی بے ہوشی کے بعد سینیٹ میں ان کے خطاب کے حوالے سے وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے یہ واضح طور پر کہا تھا کہ انھیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔
خیال رہے کہ اس ویڈیو میں عثمان کاکڑ نے چیئرمین سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘میں ایک ذاتی بات کرنا چاہتا ہوں جو میں نے چھ سال میں نہیں کی۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم پر دباﺅ ڈالا جا رہا ہے کہ ہم جمہوریت اور اپنے نظریات سے دستبردار ہو جائیں، قوموں کی بات کرنا چھوڑ دیں، پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرنا چھوڑ دیں اور جو غیر جمہوری قوتیں ہیں ان پر تنقید کرنا بند کر دیں۔’
عثمان کاکڑ نے کہا تھا ‘مجھے یہ اشارے اور پیغامات مل رہے ہیں لیکن میں یہ نہیں کر سکتا ہوں۔ مجھے کچھ ہوا، میرے بچوں کو کچھ ہوا اور میرے خاندان کو کچھ ہوا تو کوئی پرواہ نہیں کیونکہ مجھے میرے نظریات، جمہوریت، میری قوم اور پارلیمنٹ کی بالادستی زیادہ عزیز۔ لیکن میں یہ ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ مجھے یا میرے خاندان کو اگر کچھ ہوا تو اس کے ذمہ داری دو انٹیلجینس ادارے ہوں گے، میں یہ اس لیے ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں تاکہ یہ گم کھاتے میں نہ جائے۔’
یوسف خان کاکڑ کا کہنا تھا کہ جس وقت عثمان کاکڑ گھر میں تھے تو ان کے گھر میں ان کی ایک 11 سالہ بچی اور ایک خاتون کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔
انھوں نے بتایا کہ عثمان کاکڑ گھر کے نچلے حصے میں تھے اور بچی بھی اس حصے میں تھی جبکہ خاتون اوپر والی منزل پر تھی۔ یوسف خان کاکڑ نے بتایا کہ عثمان کاکڑ اپنے گھر کے ایک کمرے میں آرام کرنے گئے تو ان کی بچی ان کے پاس موجود نہیں تھی۔
انھوں نے دعوی کیا کہ اس دوران باہر سے گھر کے اندر داخل ہونے والے لوگوں نے ان پر حملہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عثمان کاکڑ کی موت طبعی نہیں ہے بلکہ عثمان کاکڑ نے سینیٹ میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اگر انھیں جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار انٹیلیجینس کے دو ادارے ہوں گے۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ عثمان کاکڑ کی موت کی وجوہات کے بارے میں تحقیقات کی جائیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے جاری اعلامیے میں ان کے لیے ‘شہید’ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔