بشریٰ بی بی کی مبینہ آڈیو تحریک انصاف نے ’غداری کا ٹرینڈ‘ چلانے سے متعلق آڈیو کو جعلی قرار دے دیا
پاکستانی سوشل میڈیا اور مقامی ذرائع ابلاغ پر گذشتہ رات سے ایک آڈیو ریکارڈنگ گردش کر رہی ہے جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے اس میں مبینہ طور پر ایک آواز سابق خاتون اول اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے جعلی قرار دی گئی اس آڈیو ٹیپ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس میں مبینہ طور پر بشریٰ بی بی سابق وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ارسلان خالد کو یہ ہدایت دے رہی ہیں کہ مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا پر غداری کے ہیش ٹیگ اور ٹرینڈ چلائے جائیں۔
اگرچہ ڈاکٹر ارسلان نے بی بی سی کی طرف سے رابطہ کیے جانے پر کوئی جواب نہیں دیا تاہم عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل نے اس آڈیو ٹیپ کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایسی جھوٹی آڈیو بہت پہلے سے بے نقاب ہو چکی‘ ہیں۔
ٹوئٹر پر پیغام میں وہ کہتے ہیں کہ ’جھوٹی آڈیو وڈیو پروڈکشن نے آج ایک اور جھوٹی خبر بنائی۔ آج پھر سابق خاتون اوّل کی جعلی آڈیو ٹیپ چلا کر خبر بنانے کی کوشش کی۔‘
ادھر مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے صوبائی وزیر ملک احمد خان نے اتوار کو اپنی پریس کانفرنس کے دوران بشریٰ بی بی کی مبینہ آڈیو چلوائی اور کہا ’ہمیں کہا گیا تھا وہ (سابقہ خاتون اول) گھریلو خاتون ہیں، ان کی بات نہ کی جائے۔ انھوں نے سازش اور غداری کا بیانیہ داغا ہے۔‘
بشریٰ بی بی سے منسوب مبینہ آڈیو کہاں سے آئی اور اس میں آخر ہے کیا؟
یہ آڈیو سب سے پہلے سوشل میڈیا پر سامنے آئی جہاں اسے ویڈیو فارمیٹ میں ایک طرف بشریٰ بی بی اور دوسری طرف ڈاکٹر ارسلان کی تصاویر لگا کر ’لیکڈ آڈیو‘ کے نام سے پیش کیا گیا۔
یہ قریب دو منٹ کی آڈیو کچھ مخصوص اکاؤنٹس کی جانب سے سنیچر کی رات نو بجے کے قریب پوسٹ کی گئی جس وقت عمران خان کی قیادت میں پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں تحریک انصاف کا مہنگائی اور ’امپورٹڈ حکومت‘ کے خلاف جلسہ جاری تھا۔
آڈیو پر بعض سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ اس میں مبینہ طور پر ’بشری بی بی سوشل میڈیا ہیڈ پی ٹی آئی ارسلان خالد کو براہ راست ہدایات اور بیانیے‘ کا کہہ رہی ہیں۔
اس آڈیو میں ایک خاتون کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ’خان صاحب نے آپ کو کہا تھا غداری کا ہیش ٹیگ چلانا ہے۔۔۔ آج کل آپ لوگوں کو بہت ایکٹیو ہونا چاہیے۔۔۔ ان سب کو غداری کے ساتھ لنک کرنا ہے (کہ) یہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے غداروں کے ساتھ مل گئے ہیں۔
’غدار باہر کی قوتیں بھی ہیں اور وہ سب آپ کو پتا ہے۔۔۔ ٹرینڈ بنا دینا ہے کہ ان کو بھی پتا ہے کہ ملک اور خان کے ساتھ غداری ہو رہی ہے۔‘
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’مجھے اور جو وہ فرح ہے نا، اس کے بارے میں انھوں نے بہت گند اڑانا ہے۔ اس کو بھی آپ نے لنک کر دینا ہے کہ ہمیں پتا ہے یہ غداری کون کر رہا ہے۔‘
دوسری طرف اس آڈیو میں ایک مرد کی آواز سنی جاسکتی ہے جو بظاہر ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ بعض سوشل میڈیا صارفین کی رائے ہے کہ یہ آوازیں بشریٰ بی بی اور ڈاکٹر ارسلان کی ہیں جبکہ کچھ کے مطابق یہ بالکل ان کی آوازیں نہیں بلکہ یہ دراصل انھیں پھنسانے کی ایک کوشش ہے۔
کوئی آڈیو اصلی ہے یا جعلی، یہ کیسے پتا چلایا جائے؟
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ پاکستانی سیاست میں کسی اہم شخصیت کی مبینہ آڈیو زیرِ بحث آئی ہو۔
گذشتہ سال کے اواخر میں سوشل میڈیا پر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ سامنے آئی تھی جس کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ انھوں نے چند پاکستانی ٹی وی چینلز کو اشتہارات نہیں دینے کی ہدایت دی۔ جبکہ رواں سال کاروباری شخصیت ملک ریاض نے خود سے منسوب کی جانے والی مبینہ آڈیو کو جعلی قرار دیتے ہوئے اس میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کیا تھا۔
نومبر 2021 کے دوران پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق سربراہ جسٹس (ر) ثاقب نثار نے خود سے منسوب اس آڈیو کو جعلسازی کا نتیجہ قرار دیا جس میں گفتگو کے دوران ملک کے سابق وزیراعظم ‘نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو سنائی جانے والی سزاؤں کے لیے دباؤ ڈالنے‘ کی بات کی گئی تھی۔
تحریک انصاف کے رہنما ماضی میں ایسے دعوے بھی کر چکے ہیں ان کے خلاف ڈیپ فیک آڈیو اور ویڈیو مہم تیار کی گئی ہے۔ ایسے میں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کسی آڈیو کے اصلی یا جعلی ہونے کو کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے۔
برطانیہ میں ورڈن فارنزکس نامی ایجنسی سے وابستہ فارنزک میڈیا ایگزامینر جیمز زالک نے بی بی سی کے نامہ نگار عمر دراز ننگیانہ کو بتایا تھا کہ کسی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کے گلوبل تجزیے سے یہ بتایا جاسکتا ہے کہ ریکارڈنگ میں ترمیم کی گئی ہے یا نہیں جبکہ لوکل تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ ترامیم ریکارڈنگ میں ٹھیک کن کن مقامات پر کی گئی ہیں۔
ان کے کے مطابق اس کے بعد ویڈیو میں موجود آڈیو سٹریم یعنی صوتی دھارے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس کے مرحلوں، توانائی، دباؤ کی سطح اور طویل مدتی سپکٹرم کی اوسط کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
آخر میں فائل کنٹینر یعنی کمپیوٹر پر موجود وہ ڈبا جس میں ویڈیو کی فائل موجود ہوتی ہے، اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس میں فائل کی ساخت، خصوصیات، ای ایکس آئی ایف ڈیٹا اور فائل کے ہیڈر اور فوٹر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ‘جب تمام تر تجزیے مکمل کر لیے جائیں تو ان کے نتائج کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر دیکھا جاتا ہے اور اس کے بعد ہی تجزیہ کار اپنی رائے دے سکتا ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ آڈیو کے اندر ترامیم کے لیے استعمال کیے جانے والے کسی سافٹ ویئر کی نشانیاں اس میں باقی رہ جانے کے بارے میں فائل کنٹینر کے تجزیے سے پتا چل سکتی ہیں۔
اسی طرح صوتی دھارے کا علیحدہ سے جائزہ لے کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی فریکوئینسی، بینڈ وڈتھ، دباؤ کی حدود اور کوڈیک میں مطابقت ہے یا نہیں۔
خیال رہے کہ نومبر 2021 کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کے لیے دائر درخواست کی سماعت میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آڈیو درست بھی ہے تو اصل کلپ کہاں (اور) کس کے پاس ہے؟‘
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ ’اگر فرض بھی کر لیں کہ یہ اصل ہے تو یہ اہم ہے کہ اس کا اوریجنل کلپ کہاں ہے۔‘