برف سے ڈھکے قطب شمالی میں روسی فوجی اڈے امریکہ کے لیے تشویش کا باعث کیوں؟
روس کی فضائیہ کے مال بردار طیارے نے ہمیں دنیا کی چھت پر پہنچایا جو ایک جزیرہ نما ہے اور جو کبھی نایاب پرندوں اور (والروسس) دریائی شیروں کی وجہ سے مشہور تھا۔
اب فرانز جوزف کی سرزمین پر روس کی افواج کا فوجی اڈہ قائم ہے جو کہ مغربی ملکوں سے اس کے تنازعات کی طویل فہرست میں ایک نیا اضافہ ہے۔
امریکہ نے ایک مرتبہ پھر روس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ قطب شمالی میں بھی فوجی مہم جوئی کر رہا ہے جب کہ روس کی بحریہ کے شمالی بیڑے کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس خطے میں یورپی ملکوں اور امریکہ کہ فوجی اتحادہ نیٹو اور امریکی فوج کی سرگرمیاں جو کہ یقیناً اشتعال انگیز ہیں اس قدر تیز ہو گئی ہیں کہ اتنی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یہاں نہیں دیکھی گئیں۔
قطب شمالی اب روس کی ترجیحات میں شامل ہے
ہم ان خوش نصیب اخبار نویسوں میں شامل تھے جنھیں پہلی مرتبہ جزیرہ الیگزینڈر پر قائم روس کے فوجی اڈے پر لے جایا گیا۔ یہ فوجی اڈہ مرمنسک سے دو گھنٹے کی پرواز پر قطب شمالی میں واقع ہے۔
اس جزیرے پر قائم الیگزینڈر فضائی اڈے میں توسیع کر کے اس کو تمام چھوٹے اور بڑے جنگی اور مال بردار طیاروں کی سارا سال آمد و رفت کے قابل بنایا گیا ہے۔ اس ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد طیارے سے نیچ قدم رکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ ‘آئس رنک’ یا برف کی سل پر قدم رکھ رہے ہوں۔
قطب شمالی سے صرف 960 کلو میٹر نیچے موسم انتہائی سرد رہتا ہے اور مئی کے مہینے میں بھی یہاں برفانی طوفان اور تیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔
ایک فوجی ٹرک پر مختصر سفر کے دوران میں برف کی سفید چادر کے سوا کچھ نہیں دیکھا سکا۔
انتہائی سرد موسم میں یہاں درجہ حرارت منفی پچاس ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے اور اڈے کی طرف نکل آنے والے ریچھوں کو بھگانے کے لیے فوجیوں کو اکثر گاڑیوں پر سوار ہو کر جانا پڑتا ہے۔
اس خطے میں روس نے اپنی برتری کو یقینی بنانے کے لیے اپنی فوجی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔
خلائی اڈے کی طرح
اس اڈے کی عمارت بھی لگتا ہے جیسے ایک علامت ہو۔ سفید رنگ کی اس عمارت پر روس کے جھنڈے کے رنگ ایک پٹی کی شکل میں کیے گئے ہیں۔
اس عمارت کو ‘آرکٹک ٹرفوائل’ کا نامی دیا گیا ہے لیکن یہ قطب شمالی میں اس نوعیت کا دوسرا اڈہ ہے جہاں 150 فوجیوں کے رہنے کی گنجائش ہے۔
اڈے کا دورہ کرنے سے قبل اس اڈے کے کمانڈر نے ہمیں بتایا کہ یہ انتہائی جدید اور ماحولیاتی طور پر موثر ہے کہ یہ خلائی اسٹیشن لگتا ہے جو خلا میں نہیں بلکہ قطب شمالی کے ویرانوں میں قائم ہے۔
لیکن اصل منظر اڈے کے باہر کا ہے جہاں ‘بیسچن میزائل’ کو داغنے کے عرشروں کو اوپر نیچے کیا جاتا ہے اور ان کے ارد گرد دبیز سفید لباس میں ملبوس روسی فوجی کندھوں پر بندوقیں لٹکائے ان کی حفاظت کے لیے ہر وقت مستعد اور چاک و چوبند نظر آتے ہیں۔
ایک فوجی نے بتایا کہ یہ میزائل دشمن کے بحری جہازوں کو تباہ کرنے کے لیے ہیں۔ اس نے بڑے فخر کے ساتھ کہا کہ ’یہ انتہائی مؤثر میزائل ہیں۔‘
روسی بحریہ کے شمالی بیڑے نے اس سال کے شروع میں ایک بڑی مشق کی تھی جس میں تین آبدوزیں برف کی دبیز چادر کو توڑ کر سطح سمندر پر نمودار ہوئی تھیں۔ اس طرح کی مشق اس سے پہلے کبھی نہیں کی گئی تھی۔ ان ہی مشقوں کے دوران روسی فضائیہ کے دو طیاروں نے قطب شمالی پر پرواز کی اور ان میں فضا ہی میں ایندھن بھی بھرا گیا۔
روسی افواج کے یہ پینترے نیٹو اور امریکہ کے لیے پریشانی کا باعث ہیں کیونکہ اس خطے میں سرد جنگ کے بعد سے اس سطح کی فوجی سرگرمی نہیں دیکھی گئی۔
نیٹو کی ایک ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ نیٹو نے بھی اس علاقے میں اپنے گشت اور مشقیں بڑھا دی ہیں اور ایسا بگڑتے ہوئے سکیورٹی ماحول کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
نیٹو پر فوجی تناؤ کا الزام
لیکن روس کا زوایہ نگاہ مختلف ہے۔ اس سے پہلے کے ہمیں الیگزینڈر کے فوجی اڈے پر لے جایا جاتا ہمیں بس میں بٹھا کر ایک جنگی بحری جہاز پر لے جایا گیا جو کہ سیورمورسک کی فوجی چھاؤنی کے قریب لنگر انداز تھا۔
یہ 252 میٹر لمبا جوہری توانائی سے چلنے والا بحری جہاز شمالی بحری بیڑے کا حصہ ہے جس کا نام پیٹر دی گریٹ کے نام پر رکھا گیا ہے۔
جہاز پر بیڑے کے کمانڈر ایڈمرل الیگزینڈر موسییو نے روس کی بحریہ کی بنیاد رکھنے والے پیٹر دی گریٹ، زار روس کی ایک تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر ہم سے خطاب کیا۔
انھوں نے نیٹو اور امریکی فوج پر الزام لگایا کہ ان کی سرگرمیاں قطب شمالی میں بہت بڑھ گئی ہیں جس سے فوجی تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’برسوں بلکہ کئی دہائیوں سے یہاں اتنی فوجی سرگرمی نہیں دیکھی گئیں کم از کم دوسری جنگ عظیم کے بعد سے۔‘
ایڈمرل سے جب یہ کہا گیا کہ نیٹو اس کا ذمہ دار روس کو قرار دیتا ہے تو انھوں نے جواباً کہا ’روس کی سرحد کے اس قدر نزدیک ان کارروائیوں کو ہم اشتعال انگیزی قرار دیتے ہیں جہاں ہمارے فوجی اثاتے ہیں اور اس سے میری مراد ہماری جوہری فورسز ہیں۔‘
روس کی فوج کی تعیناتی ان علاقوں میں کی جا رہی ہے جہاں سے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روسی فوجیوں کو واپس بلا لیا گیا تھا اور ان اڈوں کو خالی چھوڑ دیا گیا تھا۔
قطب شمالی کے ماہر ایک پروفیسر لیو وروکو نے کہا کہ ’ہم اپنی سرحدوں کے دفاع کی صلاحیت بحال کر رہے ہیں اور ہم کسی کو نہیں مار رہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد سرحدی چوکیوں کو بھی خالی چھوڑ دیا گیا تھا۔ ایسا ہمیشہ کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے قطب شمالی کی برف پگھل رہی ہے اور ایک قدرتی دفاعی حصار ختم ہو رہا ہے جس سے روس کی شمالی سرحدیں کمزور ہو رہی ہیں۔
مواقعوں کی سرزمین
الیگزینڈر کے جزیرے پر بیسچن میزائلوں کی تصویر لیتے ہوئے میں نے ایک روسی برف شکن جہاز کو دیکھا جو کچھ فاصلے پر اس برفیلے ماحول میں محو سفر تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے ایک مال بردار جہاز چل رہا تھا جن کے پیچھے ایک بہت بڑا برفافی تودہ نظر آ رہا تھا۔
یہ بحری جہاز شمالی بحری راستے پر جا رہے تھے جس میں بڑھتی ہوئے عالمی درجہ حرارت کی وجہ سے جہاز رانی کے لیے موافق ہو جائے گا اور روس اس راستے پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہتا ہے۔ اس راستے سے تجارتی مال کی ترسیل ہو گی اور اسے سمندر کے اندر تیل اور گیس کے قدرتی وسائل کی برآمدات کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔
ایڈمرل مسییو نے کہا کہ وہ اپنے فوجی اس خطے میں روس کے تجارتی مفادات اور روس کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تعینات کر رہے ہیں۔
جیسے کہ اس خطے میں فوجی تناؤ بڑھ رہا ہے، فرانز جوزف کی اس سرزمین پر ہمارے دورے سے روس اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا اور ایک پیغام دینا چاہتا تھا کہ وہ اس خطے میں اپنے معاشی اور دفاعی مفادات کے بارے میں کس قدر سنجیدہ اور پرعزم ہے۔