برطانوی راج کے خلاف ’پگڑی سنبھال جٹا‘ تحریک کے سرخیل اجیت سنگھ کون تھے؟
انڈیا کے معروف ’مجاہد آزادی‘ بھگت سنگھ نے اپنے مضمون ’جدوجہد آزادی کی پنجاب میں پہلی لہر‘ میں لکھا ہے کہ ’کچھ نوجوان جو لوک مانیہ کی طرف راغب ہوئے تھے ان میں کچھ پنجابی نوجوان بھی تھے۔ ایسے ہی دو پنجابی نوجوان کشن سنگھ اور میرے عزیز چچا سردار اجیت سنگھ تھے۔‘
اجیت سنگھ 23 فروری سنہ 1881 کو جالندھر ضلع کے کھٹکر کلاں گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ بھگت سنگھ کے والد کشن سنگھ ان کے بڑے بھائی تھے۔ ان سب کے چھوٹے بھائی سوورن سنگھ تھے، جو 23 سال کی عمر میں آزادی کی جدوجہد کے دوران جیل میں تپ دق کا شکار ہوئے اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔
تینوں کے والد ارجن سنگھ آزادی کی جدوجہد میں کانگریس پارٹی سے وابستہ تھے اور تینوں بھائی بھی اس میں شامل ہو گئے تھے۔
تینوں بھائیوں نے سائی داس اینگلو سنسکرت سکول جالندھر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا اور اجیت سنگھ نے بریلی کالج سے قانون کی تعلیم سنہ 1903 میں مکمل کی تھی۔ سنہ 1903 میں ہی ان کی شادی قصور کے صوفی نظریات کے حامل دھنپت رائے کی بیٹی ہرنام کور سے کر دی گئی۔
سنہ 1906 میں دادا بھائی نائروجی کی سربراہی میں کلکتہ میں کانگریس کا اجلاس منعقد ہوا، جہاں وہ بال گنگادھر تلک سے بہت متاثر ہوئے اور وہاں سے واپس آ کر دونوں بھائیوں کشن سنگھ اور اجیت سنگھ نے ’بھارت ماتا سوسائٹی‘ یا ’انجمن محبان وطن‘ تنظیم کی بنیاد رکھی اور انگریز مخالف کتابیں شائع کرنا شروع کر دیں۔
برطانوی حکومت تین قانون لے کر آئی
سنہ 1907 میں برطانوی حکومت تین کسان مخالف قوانین لائی، جس کے خلاف پنجاب کے کسانوں میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا۔
اجیت سنگھ نے آگے بڑھ کر کسانوں کو منظم کیا اور پورے پنجاب میں جلسوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، جس میں پنجاب کے سینیئر رہنما لالہ لاجپت رائے کو بلایا گیا۔
ان تینوں قوانین کا تذکرہ بھگت سنگھ نے اپنے مذکورہ مضمون ’نئے کالونی ایکٹ‘ میں کیا ہے، جس کے تحت کسانوں کی زمینیں ضبط کی جا سکتی تھیں، مالیہ (محصول) میں اضافہ اور باری دوآب نہر کے پانی کی شرح میں اضافہ کیا جا سکتا تھا۔
مارچ 1907 کی لائل پور کے ایک بڑے جلسے میں ’جھنگ سیال‘ میگزین کے مدیر لالہ بانکے دیال نے، جو پولیس کی ملازمت چھوڑ کر تحریک میں شامل ہو گئے تھے، ایک پُرجوش نظم ’پگڑی سنبھال جٹا‘ پڑھی، جس میں کسانوں کے استحصال کی اذیت کو بیان کیا گیا تھا۔
یہ نظم اس قدر مقبول ہوئی کہ اس کسان مزاحمت کا نام ہی ’پگڑی سنبھال جٹا‘ پڑ گیا۔ اس کا اثر واضح طور پر 120 برسوں کے بعد حالیہ 2020-21 کی کسان تحریک پر دیکھا جا سکتا ہے جب کسان ایک بار پھر کسانوں میں اپنی زمین کے کھونے کا خوف پیدا ہو گیا ہے۔
21 اپریل 1907 کو راولپنڈی میں ایک بڑے جلسے میں اجیت سنگھ کی جو تقریر ہوئی تھی اسے برطانوی حکومت نے بہت ہی ’باغیانہ‘ اور ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا تھا اور آج ہی کی طرح اُن پر تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
پنجاب بھر میں اس طرح کے 33 جلسے ہوئے جن میں سے 19 میں اجیت سنگھ ہی مرکزی سپیکر تھے۔
ہندوستان میں برطانوی فوج کے کمانڈر لارڈ کچنر کو خدشہ ہوا کہ اس تحریک سے فوج اور پولیس میں شامل کسان گھروں کے بیٹے باغی ہو سکتے ہیں۔
ان کے علاوہ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر نے بھی اپنی رپورٹ میں اسی قسم کے خدشات کا اظہار کیا تو حکومت برطانیہ نے مئی 1907 کے قوانین کو منسوخ کر دیا۔ لیکن اس تحریک کے رہنماؤں لالہ لاجپت رائے اور اجیت سنگھ کو برما (جو ان دنوں ہندوستان کا حصہ تھا) کی مانڈلے جیل میں چھ ماہ کے لیے جلاوطن کر کے بھیج دیا گیا۔
ان کی رہائی 11 نومبر 1907 کو ممکن ہو پائی تھی۔
مانڈلے سے لوٹتے ہی اجیت سنگھ صوفی امبا پرساد کے ساتھ دسمبر 1907 میں سورت میں منعقد ہونے والے کانگریس کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے، جہاں لوک مانیہ تلک نے اجیت سنگھ کو ’کسانوں کا راجہ‘ کہتے ہوئے ایک تاج پہنایا جو آج بھی بنگا کے بھگت سنگھ میوزیم میں موجود ہے۔
سورت سے واپس آ کر اجیت سنگھ نے پنجاب میں تلک آشرم قائم کیا جہاں سے وہ اپنے نظریات کی ترویج و اشاعت کرنے لگے۔
چالیس زبانوں کے ماہر
حکومت برطانیہ ان کے باغیانہ نظریات کے پیش نظر ان کے خلاف کسی بڑی کارروائی کرنے کا منصوبہ بنا رہی تھی جس کی انھیں بھنک پڑ گئی اور ستمبر 1909 میں اجیت سنگھ صوفی امبا پرساد کے ہمراہ کراچی سے ایک جہاز پر سوار ہو کر ایران کے لیے روانہ ہو گئے۔
اب ان کا نام مرزا حسن خان تھا اور اسی نام سے بعد میں ان کا برازیل کا پاسپورٹ بھی تیار ہوا تھا۔
سنہ 1914 تک ایران، ترکی، پیرس، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں رہتے ہوئے جہاں انھوں نے احمد کمال پاشا، لینن، ٹراٹسکی جیسے غیر ملکی انقلابیوں سے ملاقات کی وہین لالہ ہردیال، وریندر چٹوپادھیائے اور چمپک رمن جیسے ہندوستانی انقلابیوں سے بھی ملاقات کی۔
اسی زمانے میں وہ مسولینی سے بھی ملے۔
سنہ 1914 میں وہ برازیل چلے گئے اور 18 برسوں تک وہیں رہے۔ وہاں وہ غدر پارٹی کے ساتھ رابطے میں تھے اور وہ غدر انقلابیوں رتن سنگھ اور بابا بھگت سنگھ بیلگا سے ملتے رہتے تھے۔
خرابی صحت کی وجہ سے وہ کچھ عرصے تک ارجنٹائن میں بھی رہے۔ اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے وہ غیر ملکیوں کو ہندوستانی زبانیں سکھاتے تھے اور زبان کے پروفیسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت تک وہ چالیس زبانوں جانتے تھے۔
سنہ 1912 میں انھوں نے خاندان میں اپنا پہلا خط اپنے سسر دھنپت رائے کو لکھا۔ بھگت سنگھ اپنے چچا کی خیریت کے لیے ان کے دوستوں کو خط لکھا کرتے تھے۔ انھی میں سے ایک کے جواب میں مشہور مصنف اور ہندوستانی انقلابیوں کے ہمدرد ایگنس اسمڈلی نے مارچ 1928 میں بی ایس سندھو، لاہور کے نام ایک خط میں ان کا برازیل کا پتہ بھیجا تھا۔
اجیت سنگھ اپنے بھتیجے بھگت سنگھ کو ہندوستان کے باہر بلانا چاہتے تھے جبکہ بھگت سنگھ کو یہ فکر لاحق تھی کہ کہیں ان کے چچا بیرون ملک نہ وفات پا جائیں۔
سنہ 1932 سے 1938 کے دوران اجیت سنگھ یورپ کے بہت سے ممالک میں مقیم رہے، لیکن ان کا زیادہ تر وقت سوئٹزر لینڈ میں گزرا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران وہ اٹلی ہجرت کر گئے۔ اٹلی میں انھوں نے نیتا جی یعنی سبھاش بوس سے ملاقات کی اور وہاں 11 ہزار فوجیوں پر مبنی آزاد ہند کے لیے ایک لشکر تیار کیا۔
مسولینی کے قریبی ایم پی گرے کی سربراہی میں فرینڈز آف انڈیا نامی تنظیم قائم ہوئی تھی۔ اجیت سنگھ اس تنظیم کے جنرل سیکریٹری اور اقبال شیدئی اس کے نائب صدر تھے۔
عالمی جنگ کے اختتام پر صحت کی خرابی کے باوجود انھیں جرمنی کی ایک جیل میں قید کر دیا گیا اور ان کی رہائی کے لیے عبوری وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو مداخلت کرنا پڑی۔ رہائی کے بعد دو مہینوں تک انھوں نے لندن میں صحت یابی پر توجہ مرکوز کی اور سات مارچ 1947 کو وہ 38 سال کے بعد ہندوستان واپس آئے۔
دہلی میں وہ عبوری وزیر اعظم نہرو کے ذاتی مہمان رہے اور نو اپریل کو جب وہ لاہور پہنچے تو ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔
صحت کی خرابی کی وجہ سے وہ اپنے گاؤں نہیں جا سکے اور انھیں صحت میں بہتری کے لیے جولائی سنہ 1947 میں ڈلہوزی جانا پڑا۔ وہیں 14-15 اگست کو ہندوستان میں برطانوی راج کے اختتام پر انھوں نے وزیر اعظم نہرو کی تقریر سُنی اور صبح کے وقت تقریبا ساڑھے تین بجے ابدی نیند سو گئے۔
ڈلہوزی میں ہی ان کی یادگار پنجپولہ پر تعمیر ہے، جہاں اب ہزاروں افراد انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔