106 برس کی ڈانسر جنھوں نے لفظ ’بوڑھے‘ پر پابندی لگا دی ہے
106 برس کی عمر میں ایلین کریمر پہلے سے زیادہ متحرک ہیں۔ وہ سڈنی شہر میں بزرگوں کی دیکھ بھال کے سینٹر میں رہتی ہیں اور وہاں سے ہر روز ایک کہانی لکھتی ہیں، کتابیں چھاپتی ہیں اور آسٹریلیا میں مصوری کے سب سے معتبر مقابلے میں حصہ لے چکی ہیں۔
کئی دہائیوں تک ملک سے باہر رہنے کے بعد وہ 99 برس کی عمر میں اپنے آبائی شہر سڈنی واپس آ گئیں۔ اس کے بعد سے وہ مخلتف فنکاروں کے ساتھ مل کر کئی ویڈیو بنا چکی ہیں۔ یہ رقص کی ویڈیوز ہیں جو ان کا اصل ٹیلنٹ اور زندگی بھر کا جنون ہے۔
ایلین کریمر اب بھی رقص کرتی ہیں جس میں وہ اپنے جسم کے اوپر کے حصے کو استعمال کرتے ہوئے بڑی پروقار اور ڈرامائی موومنٹس کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں انھوں نے کوریوگرافی بھی کی ہے۔
‘جب سے میں سڈنی واپس آئی ہوں میں بہت مصروف ہوں۔ میں نے نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ڈرامیٹک آرٹ (این آئی ڈی اے اور دوسرے تھیٹروں میں ڈانس کے تین بڑی اور مختلف پرفارمنس کی ہیں۔’
انھوں نے اپنے گھر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں نے ایڈیلیڈ اور برسبین میں ڈانس کے دو بڑے میلوں میں حصہ لیا، میں نے فلم میں بھی کام کیا ہے، مجھے کئی چھوٹی پرفارمنس کے موقع دیا گیا ہے، میں نے کتابیں لکھی ہیں اور آج میں سب کاموں سے چھٹی لے کر آپ سے بات کر رہی ہیں۔’
ایک سوال جو ان سے اکثر پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ میں اتنی توانائی کہاں سے آتی ہے اور اتنی زیادہ عمر میں ڈانس کرنے کا کیا کوئی راز ہے۔
ان کا ردعمل یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ذہن سے ‘بوڑھے’ اور ‘عمر’ جیسے الفاظ ہی نکال دیے ہیں۔ انھوں نے مجھے بھی بات چیت کے دوران ان الفاظ کو استعمال کرنے پر نصیحت کی۔ ‘میں کہتی ہیں میں بوڑھی نہیں ہوں، میں اس دنیا میں کافی عرصے سے ہوں اس اس دوران میں نے کئی چیزیں سیکھی ہیں۔’
‘مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ لوگ بڑھاپے کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ میں آج بھی ویسے ہی چیزیں تخلیق کرتی ہوں جیسے اپنے بچپن میں کرتی تھی۔’
اپنے علاقے کا اثر
جب سڈنی میں لاک ڈاؤن لگایا گیا تو اس وقت وہ اپنے ایک نئے ڈانس کی تیاری کے درمیانی مراحل میں تھیں اور یہ کام وقتی طور پر رک گیا لیکن یہ تعطل زیادہ دن کے لیے نہیں تھا۔
‘باہر جس جگہ پر ڈانس کی ویڈیو بنائی جا رہی تھی میں وہاں نہیں جا سکتی تھی لہذا ان دنوں میں نے ایک کتاب لکھ ڈالی۔ یہ کتاب اس بارے میں تھی کہ ہم نے فلم کیسے بنائی۔’
اس فلم کی شوٹنگ کی جگہ ایلین کے لیے بہت خاص تھی۔ یہ جگہ سڈنی کے مضافات میں انجیر کے ایک بہت بڑے درخت کے اندر تھی۔ درختوں کی گوند کی بو، بڑی بڑی انجیریں اور درختوں پر بیٹھے پرندوں کی چچہاہٹ، یہ وہ تمام چیزیں تھیں جن کی وجہ سے ایلین کریمر کو سڈنی واپس آنے کی ترغیب ملی۔
‘میری کوریوگرافی پر اس درخت کا بڑا اثر ہے۔ آپ نے کبھی اسے قریب سے دیکھا ہے؟ آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ پریوں کی کہانی کے کسی آسیب زدہ محل میں ہیں۔ یہ مجھے میرے بچپن میں واپس لے گیا’
مس کریمر سڈنی شہر کے مضافاتی علاقے ایلزبتھ بے میں رہتی ہیں اور وہاں کی ایک معروف شخصیت بن چکی ہیں۔
ان کے ڈانس پرفارمر دوستوں نے گزشتہ برس نومبر میں ان کی 106ویں سالگرہ ان کے گھر کے باہر منائی۔
انھوں نے کہا ‘مجھے ایک خوشگوار حیرت اور خوشی ہوئی، میں بہت متاثر ہوئی۔’
ایک بھرپور زندگی
مس کریمر نے ایک برہنہ ماڈل سے لے کر 104 برس کی عمر میں آسٹریلیا کے سب سے معتبر مصوری کے مقابلے میں سب سے عمر رسیدہ فرد کی حیثیت سے حصہ لینے تک ایک بھرپور اور رنگین زندگی گزاری ہے۔ مصوری کا یہ مقابلہ، ان کی تخلیقی قوت اور تقلید سے بغاوت، یہ وہ تین چیزوں ہیں جن میں ان کی زندگی کو سمویا جا سکتا ہے۔
ایلین کریمر سڈنی کے علاقے موسمین بے میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے ڈانس کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ انھوں نے انڈیا کا سفر کیا اور بعد میں پیرس میں سکونت اختیار کر لی اور اس کے بعد نیویارک میں رہنے لگیں۔ وہ 99 برس کی عمر تک نیویارک میں رہیں۔
ان کا ڈانس کا کیریئر چار براعظموں اور ایک صدی پر محیط ہے۔ ڈانس ہی ہمیشہ ان کی پہلی محبت اور ترجیح رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ساری زندگی ڈانسروں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انھوں نے کبھی بھی خود کو تنہا محسوس نہیں کیا۔ ‘میرے برعکس میرے کچھ ساتھیوں نے شادیاں کر لیں، بچے پیدا کیے یا یورپ کی طرف لوٹ گئے۔ میں ایک ڈانسر کی زندگی کی تمام مشکلات برداشت کرتی ہوں۔’
یونیورسٹی آف میلبورن کی آرٹ فیکلٹی کی اعزازی فیلو سو ہیلی کا کہنا ہے کہ کریمر زندگی کا سامنا پر وقار اور تخلیقی انداز سے کرتی ہیں۔ وہ مکمل کنٹرول میں ہوتی ہیں اور مسلسل کوئی نئی چیز بناتی رہتی ہیں۔
مس کریمر کا کہنا ہے کہ بعض لوگوں کی طرح وہ بیمار رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ ‘میں ڈاکٹر کی جانب سے دی گئی وٹامن کی گولیوں کے علاوہ کوئی دوا نہیں کھاتی۔’
ابھی ہماری یہ بات چیت جاری تھی کہ دروازے پر کسی نے دستک دی۔ انھیں کووڈ ویکسین لگانے کوئی آیا تھا۔ انھوں نے کہا ‘میں اس سے بہت خوف زدہ ہوں۔ لیکن میں بیماری سے بچنے کی کوشش جاری رکھوں گی۔’