ایگرافا یونان کا وہ علاقہ جسے کسی نے نقشوں میں شامل کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا
یونان کا ایک علاقہ ایسا ہے جس کے بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں، اور جتنے لوگ جانتے ہیں ان سے بھی انتہائی کم لوگ آج تک یہاں گئے ہیں۔
یونان کے انتہائی اندرونی علاقے میں موجود بلند و بالا پہاڑوں میں گھرا یہ علاقمہ دنیا سے کٹا ہوا ہے۔ اس علاقے کا نام ’ایگرافا‘ ہے۔
یونانی زبان میں ’ایگرافا‘ کے لغوی معنیٰ ایسی چیز کے ہیں جو ’نہ لکھی گئی ہو‘۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ جب بازنطینی نمائندے اس علاقے میں پہلی مرتبہ پہنچے تو انھیں یہ اتنا دور دراز لگا کہ اُنھوں نے اسے اپنے نقشوں میں شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا اور صرف ’ایگرافا‘ لکھ دیا، یعنی ایسا علاقہ جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔
اسی طرح عثمانیوں کو بھی اس علاقے تک رسائی میں دشواری کے باعث اسے کنٹرول کرنے میں مشکلات تھیں چنانچہ ایگرافا یونان کے ان بہت تھوڑے سے علاقوں میں سے ہے جہاں سلطنتِ عثمانیہ کا تسلّط کبھی نہیں رہا۔
یہاں کے ’ایگرافیوٹس‘ کہلانے والے آزاد خیال رہائشیوں نے اس آزادی کا استعمال اپنی سرزمین کو انقلابی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے میں کیا۔
مشہورِ زمانہ جنگجو آزادی اینٹونس کیٹسینٹونس یہاں پیدا ہوئے تھے اور انقلابی رہنما جیورجیوس کرائسکاکس نے بھی میدانی علاقوں میں عثمانی سپاہیوں کو خوف زدہ کیے رکھنے کے لیے ایگرافا کو بطور اڈہ استعمال کیا تھا۔
سنہ 1823 میں میسولونگھی کے ساحلی قصبے سے پسپا ہو رہے عثمانی فوجی دستے نے ایک غلط مشورے پر ایگرافا سے گزرنے کا فیصلہ کیا۔
پہاڑوں، جنگلات اور نالوں پر مشتمل اس مشکل ترین علاقے میں وہ بھٹک گئے اور 800 یونانی جنگجوؤں نے اُن پر حملہ کر دیا۔
اس معرکے میں تمام عثمانی سپاہی مارے گئے اور اب اس معرکے کو انقلابِ یونان میں جوش و خروش سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد عثمانی کبھی بھی یہاں نہیں آئے۔ کچھ برس بعد ایگرافا نئی آزاد سلطنتِ یونان کا حصہ بن گیا۔
ایسا نہیں ہے کہ آزادی سے ایگرافا کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہوئے۔ یہ علاقہ بدستور غریب اور الگ تھلگ رہا اور 19 ویں صدی کے اواخر میں یہاں کے کئی رہائشیوں نے دیگر جگہوں پر بہتر زندگی کی تلاش شروع کر دی۔
کچھ لوگ میدانی علاقوں کی طرف چلے گئے تو کچھ ایتھنز کی طرف۔ کئی لوگوں نے امریکہ میں اپنی قسمت آزمائی، خاص طور پر شمالی کیرولائنا کے شہر شارلوٹ میں۔
ایگرافا کے گاؤں فریگکستا میں میری میزبان ایلیساوٹ پاپادوپولو نے بتایا: ’امریکہ پہنچنے والا پہلا ایگرافیوٹ کسی طرح شارلوٹ جا پہنچا۔ اس نے دیہات میں اپنے دوستوں کو لکھا کہ یہ رہنے کے لیے اچھی جگہ ہے جہاں بہت سا کام ہے، چنانچہ کئی لوگوں نے ان کی پیروی کی۔ اب شارلوٹ میں یونان سے باہر ایگرافیوٹس کی سب سے بڑی آبادی ہے۔‘
میں کارپینیسی نامی قصبے سے ایک طویل اور بل کھاتی ڈرائیو کے بعد فریگکستا پہنچا تھا۔ کارپینیسی بھی ایتھنز سے ایک طویل مسافت پر واقع ہے۔
ایگرافا میں اتنی کم ہموار زمین ہے کہ زیادہ تر آبادیاں بس پہاڑوں کے ساتھ ساتھ ہی قائم ہیں اور فریگکستا اصل میں دو دیہات پر مشتمل ہے جن کے بیچ ایک نالہ بہتا ہے۔
میں ایناتولیکی (مشرقی) فریگکستا میں تھا جبکہ دیتیکی (مغربی) فریگکستا تھوڑا دور ہی موجود تھا۔
اس دن مقامی مے خانے میں میرا دھیان میرے ساتھ والی میز پر بیٹھے دو عمر رسیدہ افراد کی جانب مڑ گیا جو کبھی یونانی زبان تو کبھی امریکی لہجے میں انگریزی زبان میں بات کر رہے تھے۔ اُنھوں نے اپنا تعارف دو بھائیوں کونسٹینٹینوس ‘ڈینو’ پانورگیاس اور اپنے بھائی ایوانجیلوس ‘وان’ کے طور پر کروایا۔
ڈینو دونوں بھائیوں میں بڑے تھے اور اُنھوں نے حال میں اپنی 91 ویں سالگرہ منائی تھی۔
وہ کہتے ہیں: ’جب میں چھوٹا تھا تو یہاں سکول میں 70 طلبہ تھے، سب کے سب ایک ہی کمرے میں۔ سردیاں بہت سخت ہوا کرتی تھیں۔ ہمارے پاس آتش دان نہیں تھا بلکہ صرف ایک چولہا ہوا کرتا۔ ہر بچہ اپنے ساتھ گرمائش کے لیے لکڑی کا ایک ٹکڑا لایا کرتا تھا۔ اب یہاں کوئی طلبہ نہیں ہیں۔ سکول 20 سال قبل بند ہو چکا ہے۔‘
دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ علاقہ نازیوں کے ہاتھ میں چلا گیا۔ ممکنہ طور پر وہ پہلے حملہ آور تھے جنھوں نے ایگرافا پر باقاعدہ قبضہ کیا تھا۔
ڈینو کہتے ہیں کہ ’یقیناً وہ پہاڑوں پر چرواہوں کے پرانے راستوں پر چلتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہوں گے۔ جب ہم نے اُنھیں دیکھا تو ہم سب غاروں میں چھپ گئے۔ وہ دو دن تک یہاں رہے اور پھر گاؤں کو جلا دیا۔‘
مگر مقامی مزاحمتی تحریک مضبوط تھی اور ایگرافا نازی قبضے سے آزادی کا اعلان کرنے والا یونان کا پہلا علاقہ بنا جس نے اگست 1943 میں پہاڑوں سے ’آزاد یونان‘ کا اعلان کیا تھا۔
مگر بدترین وقت ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ جنگ کے خاتمے سے قبل ہی یونان قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کے درمیان ایک خونی خانہ جنگی میں ڈوب گیا۔
ملک کا شیرازہ بکھیر دینے والے ان واقعات کا کچھ حد تک اثر ایگرافا پر بھی ہوا اور فریگکستا کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔
یہاں خاندان ایک دوسرے کے اور یہاں تک اپنے ہی ارکان کے خلاف ہو گئے اور دیہات کے الگ تھلگ ہونے کا مطلب تھا کہ آپ تشدد سے فرار نہیں ہو سکتے۔ وان کہتے ہیں: ’میں کبھی اپنے والد سے نہیں ملا۔ اُنھوں نے میرے پیدا ہونے سے قبل ہی اُنھیں مار دیا تھا۔‘
سنہ 1951 میں 21 سالہ ڈینو ایھتنز گئے جہاں وہ نیو یارک جانے والی ایک کشتی میں سوار ہو گئے اور فوراً ہی ایک ٹرین پر سوار ہو کر شارلوٹ پہنچ گئے۔
وہاں وہ کچھ برس رہے اور پھر شکاگو اور پھر نیو یارک چلے گئے جہاں اُنھوں نے اپنا ریستوران کھول لیا۔
سنہ 1963 میں وان اور اُن کی والدہ بھی وہاں چلے گئے۔
دونوں بھائی اب بھی نیو یارک میں رہتے ہیں تاہم گرمیاں اپنے پرانے دیہات میں گزارنے کے لیے آتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ جنت ہے۔
اگلے روز میں ایگرافا کے مرکز میں مزید اندر تک گیا۔ میں دیتیکی فریگکستا سے گزرا جسے پاپادوپولو پوش حصہ کہتی ہیں۔ یہ اپنے مشرقی حصے سے واضح طور پر زیادہ بڑا اور زندگی سے بھرپور ہے۔ یہاں کیفے کام کاج کرنے والے لوگوں سے بھرے رہتے ہیں اور کچھ ایک طلبہ پر مشتمل سکول بھی ہے۔
اس کے آگے کا منظر اور بھی زیادہ دلکش ہے۔ میں نے ایگرافا کے پہاڑوں (علاقے کی طرح یہ پہاڑ بھی اتنے دور ہیں کہ انھیں نام نہیں دیا گیا) کے نیچے بہتے تین دریا آشیلوس، ایگرافیوٹیس اور میگدوواس کو دیکھا جو اس خطے سے بل کھاتے گزرتے ہیں۔
صنوبر کے لامتناہی جنگلات دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان جنگلات میں ریچھ اور بھیڑیے پائے جاتے ہیں۔
خطرناک ڈھلوانوں پر قائم گھر پہاڑوں سے چپکے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی سرخ چھتیں جن کے گرد سرسبز جنگلات ہیں، انھیں دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ قدرت اپنی جگہ واپس بنا رہی ہے۔
صحافی نتاشا بلاتسیو کہتی ہیں: ‘آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی دوسری دنیا میں داخل ہو رہے ہوں۔ ایگرافا کی دنیا میں۔’
کبھی کبھی تو یہ پورا علاقہ الپائن محسوس ہوتا ہے اور ایگرافا کو اکثر و بیشتر مقامی لوگ ’یونان کا سوئٹزرلینڈ‘ کہتے ہیں۔ ایگرافا کی سرحدوں پر کئی مہنگے سکی ریزورٹس موجود ہیں لیکن اس علاقے میں کوئی ریزورٹ نہیں۔ کیونکہ یہ بہرحال ایگرافا ہے، نامعلوم علاقہ۔ یہاں تک 1950 کی دہائی تک مردم شماری بھی نہیں ہوئی تھی اور آج اس کی آبادی صرف 11 ہزار ہے۔ بجلی یہاں 1980 کی دہائی میں آئی تھی اور اب بھی کئی دیہات پکی سڑکوں کے منتظر ہیں۔
مقامی رہائشی تھامس نتاورینوس نے کہا: ’الگ تھلگ ہونا ایگرافا کے لیے نعمت بھی ہے تو زحمت بھی۔ یہاں کا روایتی رہن سہن برقرار رہا ہے۔ یہ حیوانات و نباتات کی محفوظ جنت ہے۔ مگر یہاں رہنا بہت مشکل ہے۔ سردیاں طویل اور بے رحم ہوتی ہیں اور دنیا سے کٹ جانا بہت آسان ہوتا ہے۔‘
نتاورینوس کو ایگرافیوٹ ہونے پر فخر ہے۔ وہ 11 بہن بھائیوں کے ساتھ بغیر بجلی کے پلے بڑھے۔ اُن کے والدین چرواہے تھے جو اس دور دراز علاقے میں روزگار کے معدودے چند ذرائع میں سے ایک ہے۔
اُنھوں نے ایگرافا اور یہاں کے متضاد جغرافیے کے بارے میں کھل کر بات کی جو بیک وقت خوبصورت بھی ہے اور دشوار ترین بھی۔
ویسے تو اُنھوں نے ایتھنز اور یونانی جزیروں پر اپنی زندگی کا بہترین وقت کام کرتے ہوئے گزارا لیکن اُن کا دل ہمیشہ ایگرافا میں ہی رہا۔
پھر 10 سال قبل وہ لوٹ آئے اور کوہ پیماؤں کی مقامی تنظیم ایگرافا ماؤنٹینیئرنگ ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔
وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں: ‘یہاں پر کچھ بھی نہیں تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ صرف پہاڑ، جنگلات اور دریا تھے۔’
تقریباً خود ہی کام کرتے ہوئے اُنھوں نے ایگرافا کی مغربی حدود کے پاس واقع اپنے گاؤں ٹوپولیانا کے آس پاس کا علاقہ صاف کرنا شروع کیا، چٹانوں پر چڑھنے کے لیے بولٹس لگائے اور کشتی رانی اور دیگر سرگرمیاں کروانی شروع کیں۔
شروعات میں مقامی لوگوں کو لگا کہ وہ پاگل ہیں مگر پھر سیاحوں، بالخصوص ایتھنز کے رہنے والے امیر اور قدرتی ماحول کے متلاشی افراد نے یہاں آنا شروع کیا۔
اب ایگرافا ماؤنٹینیئرنگ ایسوسی ایشن میں 200 ارکان اور کئی تجربہ کار گائیڈز ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ‘میں یہ دکھانا چاہتا تھا کہ یہاں سیاحت کے لیے کتنی گنجائش ہے۔ میں ایگرافا کو نقشے پر لانا چاہتا تھا۔’
فریگکستا میں ڈینو نے مجھے اپنے آبائی گھر کے آس پاس کا علاقہ دکھانے پر اصرار کیا۔ یہ پتھر کی ایک پرشکوہ کوٹھی تھی جو دیہات کے مرکزی چوراہے سے کچھ ہی دور تھی۔
مجھے لگ رہا تھا کہ اُنھوں نے امریکہ میں کافی دولت کمائی ہے مگر تب تک مجھے حقیقی اندازہ نہیں ہوا تھا۔
اُن کا گھر اُن کی تصاویر سے بھرا ہوا تھا جس میں وہ نیو یارک میں اپنے ریستوران کے گاہکوں کے ساتھ کھڑے تھے۔
تصاویر میں وہ یونانی امریکی شاہی شخصیات مائیکل ڈوکاکیس، ٹیلی سوالس اور ارسٹوٹل اوناسیس، اور نیو یارک میں متحرک کئی سلیبریٹیز بشمول رڈولف نوریئف، لیبیرس اور سا سا گیبور کے ساتھ نظر آئے۔
وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں: ’ہم براڈ وے میں بہت مشہور تھے۔ ہر کوئی ہمارے ریستوران آتا تھا۔‘
مگر اپنی کامیابی کے باوجود وہ ہر سال کم از کم تین مہینوں کے لیے اس جگہ واپس آتے ہیں جہاں اُن کی پیدائش ہوئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ویسا ہی گاؤں لگتا ہے جہاں میں پلا بڑھا تھا۔ یہ چھوٹا ہے، سڑکیں پہلے سے بہتر ہو گئی ہیں مگر باقی کچھ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ میں اب بھی اپنے سکول کے دوستوں سے یہاں مل سکتا ہوں۔‘
وہ یہاں اپنے خاندان کو بھی لاتے ہیں۔ دونوں ہی بھائیوں نے نہ شادی کی نہ بچے پیدا کیے، مگر اُن کی بہنوں نے شادی کی۔ چنانچہ دونوں بھائیوں کے متعدد بھانجے، بھانجیاں، پڑبھانجے اور پڑبھانجیاں ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’یہ بہت اہم ہے کہ آپ اپنی جڑوں سے نہ کٹ جائیں۔ میں سات دہائیوں سے امریکہ میں ہوں مگر میں ہمیشہ ایگرافا سے تعلق رکھنے والا لڑکا رہوں گا۔‘