ایشیا کپ کے پاکستان میں صرف چار میچ یہ کیسا ہائبرڈ ماڈل ہے جس کا میزبان ملک کو ہی فائدہ نہیں
ایشیا کپ پاکستان میں ہو گا یا ہائبرڈ ماڈل کے تحت کچھ میچ پاکستان اور کچھ اس سے باہر، پاکستان ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ کرے گا یا انڈیا اور ایسی بہت سی افواہیں پاکستانی اور انڈین میڈیا پر گردش کرتی رہیں اور پاکستان اور انڈیا کے سیاسی تناؤ کے درمیان ’کرکٹ کی ہار‘ کا امکان نظر آیا۔
تاہم گذشتہ روز بالآخر اس حوالے سے ایشین کرکٹ کونسل کے حتمی اعلان سے یہ معلوم ہوا کہ ایشیا کپ اب ہائبرڈ ماڈل کے تحت پاکستان اور سری لنکا میں 31 اگست سے 17 ستمبر کے درمیان کھیلا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق انڈیا اپنے تمام ہی میچ سری لنکا میں کھیلے گا جبکہ پاکستان میں کم سے کم چار میچ کھیلے جائیں گے۔ پاکستان کے گروپ میں انڈیا اور نیپال جبکہ دوسرے گروپ میں سری لنکا، افغانستان اور بنگلہ دیش دوسرے گروپ میں ہوں گے۔
تاحال ایشیا کپ کے تفصیلی شیڈول کا اعلان نہیں کیا گیا۔
اس حوالے سے اپنے بیان میں پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ’یہی ہمارا وعدہ تھا اور آج ہم نے اپنا وعدہ نبھایا ہے۔
’یاد رہے کہ یہ ہائبرڈ ماڈل نئی پیش قدمی ہے اس سے اور بھی دروازے آگے کھل سکتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آخری بار مختلف ممالک کے درمیان ٹورنامنٹ 2008 میں ہوا تھا۔ پھر 2016 میں پی سی بی پی ایس ایل لے کر آیا اور ایک ایک کر کے ہر ملک اور مختلف کھلاڑی آتے رہے۔‘
’اس ٹورنامنٹ کے بارے میں کتنی افواہیں پھیلائی گئیں کہ یہ پاکستان میں نہیں ہو گا، پی سی بی اپنے مقاصد میں ناکام ہو گئی لیکن چلیے دیر آید درست آید۔‘
خیال رہے کہ انڈیا نے سنہ 2008 کے بعد سے پاکستان میں کوئی سیریز نہیں کھیلی اور انڈیا کا اس حوالے سے مؤقف واضح رہا ہے کہ وہ پاکستان کا دورہ نہیں کرے گا۔
پاکستان میں کرکٹ کی باضابطہ واپسی کے بعد سے اب تک صرف انڈیا اور افغانستان نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔
پاکستان کو سنہ 2025 کی چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی کے رائٹس مل چکے ہیں اور ایشیا کپ کے انعقاد کی تفصیلات اس لیے بھی اہم تھیں کیونکہ اس کی بنیاد پر آگے چل چیمپئنز ٹرافی سے متعلق فیصلے ہو سکتے ہیں۔
ایک طرف پاکستان کی جانب سے اسے اپنے مؤقف کی جیت کہا جا رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان میں کرکٹ فینز اور تجزیہ کار اس کا دوسرا رخ دیکھ رہے ہیں۔
صحافی و تجزیہ کار عمر فاروق کالسن نے ٹویٹ کی کہ پی سی بی اس فیصلے کو پاکستان کے مؤقف کی جیت قرار قرار دے رہا ہے جس پر بحث کی جا سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں چار میچ کھیلیں جائیں گے جو خوش آئند ہے لیکن انڈیا پاکستان نہیں آئے گا جو بری خبر ہے اور یہ بھی کہ سری لنکا میں بھی مزید نیوٹرل میچ کھیلے جا رہے ہیں۔ ‘
’پی سی بی کا مؤقف یہ تھا کہ اس ماڈل کو ورلڈ کپ کے لیے اپنایا جائے گا لیکن پاکستان ورلڈکپ کے لیے انڈیا بھی جا رہا ہے۔‘
ایک صارف ابو تمیم نے لکھا کہ میں اسے وسیع تر تناظر میں پی سی بی کی جیت اس لیے مانتا ہوں کیونکہ اس سے ہائبرڈ ٹورنامنٹس کی روایات بن جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ پی سی بی کو انڈیا کی جانب سے چیمپیئنز ٹرافی 2025 کے حوالے سے کوئی یقین دہانی ملی ہو۔‘
خیال رہے کہ اس طرح کے ٹورنامنٹس میں جس چیز کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے وہ لاجسٹکس کے مسائل کے ساتھ ساتھ براڈ کاسٹنگ اور گیٹ منی بھی ہے۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ سری لنکا میں ہونے والے میچوں کے حوالے سے پی سی بی کی سری لنکن کرکٹ بورڈ سے کیا بات ہوئی ہے۔
ایشیا کپ گذشتہ تین دہائیوں سے ہر دو برس بعد کھیلے جانے والا ٹورنامنٹ ہے، جسے بیشتر اوقات پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کے باعث مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
تاہم پاکستان اور انڈیا کے میچوں کی اہمیت اتنی بڑھ چکی ہے اور گذشتہ کئی سال سے یہ آئی سی سی ٹورنامنٹس میں بھی سب سے زیادہ دیکھا جانے والا میچ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا عموماً ایسے ٹورنامنٹس میں ایک ہی گروپ میں ہوتے ہیں اور گذشتہ مرتبہ کی طرح اس بار بھی دونوں ٹیمیں ممکنہ طور پر آپس میں تین مرتبہ مدِمقابل آ سکتی ہیں۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے پاڈکاسٹ ڈبل وکٹ میڈن کی میزبان ایمان ارباب نے ٹویٹ کی کہ ’ذرا سوچیں کہ آپ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے درمیان میچ پاکستان میں دیکھنے جائیں اور پھر اگلے دن آپ کی اپنی ٹیم کا میچ ہو اور وہ آپ کو گھر پر بیٹھ کر دیکھنا پڑے۔‘
’یہ اچھی پیش رفت نہیں، یہ (پی سی بی کی) فتح بھی نہیں اور نہ ہی منصفانہ سمجھوتا ہے۔۔۔ یہ کیسا ہائبرڈ ماڈل ہے جس سے میزبان ملک کو ہی فائدہ نہیں ہو رہا۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ اگر ہائبرڈ ماڈل ایشیا کپ پر اپلائی ہوا ہے تو اسے ورلڈ کپ میں بھی رائج ہونا چاہیے۔
اسی طرح کچھ صارفین کو یہ بھی خوف ہے کہ سنہ 2025 کی چیمپیئنز ٹرافی کے لیے بھی اسے ایک فارمولا کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
تاہم اس صورت میں فرق یہ ضرور ہو گا کہ چیمپیئنز ٹرافی ایک آئی سی سی ٹورنامنٹ ہے اور ایسے ٹورنامنٹس میں شرکت نہ کرنا یا ہائبرڈ ماڈل کو رائج کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔
کیا یہ ہائبرڈ ماڈل پاکستان کے لیے ایک جیت ہے یا شکست اس بارے میں حتمی طور پر شاید آنے والے برسوں میں ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔