ایس جے شنکر کا دورہ اسرائیل کیا انڈیا، اسرائیل، امریکہ اور متحدہ عرب امارات مشرق وسطیٰ میں ایک نیا اتحاد بنا رہے ہیں؟
انڈیا، اسرائیل، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کی ایک حالیہ ملاقات کو مشرق وسطیٰ میں ایک نئے سیاسی و سٹرٹیجک اتحاد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سفارتی حلقوں میں ان چاروں ممالک کے ایک ساتھ بیٹھنے کو ’نئے کواڈ اتحاد‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔
انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر آج کل اسرائیل کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے اسرائیلی ہم منصب یائیر لیپیڈ سے یروشلم میں ملاقات کی ہے۔ میڈیا کو فراہم کی جانے والی تفصیلات کے مطابق اس ملاقات میں ایشیا اور مشرق وسطٰیٰ میں معاشی ترقی، سیاسی تعاون، دو طرفہ تجارت اور میری ٹائم سکیورٹی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس ملاقات کے بعد جے شنکر نے اس حوالے سے ٹویٹ کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ اس ملاقات میں جن امور پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا مستقبل قریب میں ان پر کام بھی کیا جائے گا۔
اس ملاقات میں امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ انٹونی بلنکن اور شیخ عبداللہ بن زید النہیان بھی شریک تھے۔
کیا امریکہ مشرق وسطیٰ میں انڈیا کو اہم کردار دینا چاہتا ہے؟
سٹریٹیجک اُمور کے ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا نے مشرق وسطیٰ کے معاملات کو لے کر ماضی میں ہمیشہ امریکہ سے ایک مناسب فاصلہ قائم رکھا ہے۔
گذشتہ برس امریکہ نے اسرائیل اور متعدد خلیجی ریاستوں کے درمیان ’ابراہمک معاہدہ‘ کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس معاہدے کے بعد متعدد خلیجی ریاستوں اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔ یہ معاہدہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کے دوران طے پایا تھا۔
کنگز کالج لندن کے شعبہ خارجہ امور پروفیسر ہرش وی پنٹ کا کہنا ہے کہ جب جو بائیڈن نے بطور صدر اقتدار سنبھالا تو ایسا لگتا تھا کہ وہ ٹرمپ کی پالیسیوں اور فیصلوں سے خود کو الگ کر لیں گے۔ لیکن جو بائیڈن نے بھی اسرائیل کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے اسے پر عمل درآمد کا کام جاری رکھا ہے اور اب چاروں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات اسی جانب ایک قدم ہے۔
ہرش پنٹ کے مطابق انڈیا کے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ اسی لیے امریکہ چاہتا ہے کہ انڈیا مشرق وسطیٰ میں ایک اہم کردار ادا کرے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ انڈیا بھی مشرق وسطیٰ میں ایک نیا کردار ادا کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں تھا جو اب اسے مل گیا ہے۔
ماضی قریب میں انڈیا اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارت نے فروغ پایا ہے جبکہ انڈیا اور اسرائیل کے درمیان ٹیکنالوجی اور سکیورٹی کے بہت سے شعبوں میں تعاون جاری ہے۔ پنٹ کا کہنا ہے کہ مشرقی وسطیٰ میں دو دوست ممالک اور امریکہ کا گٹھ جوڑ انڈیا کے لیے سفارتی اور سٹرٹیجک اعتبار سے فائدہ مند ہے۔
تاہم خارجی امور کے ماہر منوج جوشی اس تحاد کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایسے معاہدے ممالک کے درمیان ہوتے رہتے ہیں۔
’نیا چار ملکی اتحاد‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ چار ملک اکٹھے ہوئے، باہمی مذاکرات اور معاہدے بھی ہو گئے لیکن اس سب کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس کے نتائج کیا حاصل ہوں گے۔ اس کے بعد ہی اس اتحاد کو سنجیدگی سے دیکھا جائے گا۔‘ منوج جوشی کے مطابق ’یہ چار ملکی اتحاد‘ جسے ایک نئے ’نیٹو‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے فی الحال کوئی گرمجوشی نہیں دکھا رہا۔
لیکن ان کا ماننا ہے کہ اس وقت انڈیا کو مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ عسکری معاہدے کرنے چاہییں کیونکہ انڈیا کی خلیجی ممالک میں سٹریٹیجک نمائندگی نہیں ہے۔ جبکہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے وہاں فوجی اڈے ہیں۔
سٹرٹیجک امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے ایران کے ساتھ تعلقات ہمیشہ اس کے مشرق وسطیٰ میں کردار ادا کرنے کے آڑے آ جاتے ہیں۔ انڈیا نے مشرق وسطیٰ کے ممالک اور ایران کے ساتھ تعلقات میں ہمیشہ درمیان کا راستہ اپنایا ہے۔
سینیئر صحافی ابھیجیت آئیر مترا کہتے ہیں کہ یہ تینوں ممالک انڈیا کے لیے اہم ہیں۔ انڈیا کے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور انڈیا کے گذشتہ تین دہائیوں سے اچھے سفارتی تعلقات ہیں جس کے باعث وزیر خارجہ ایس جے شنکر وہاں دورے کے لیے گئے ہیں۔
اگرچہ انڈیا نے سنہ 1952 میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا لیکن سفارتکاروں کی باضابطہ تعیناتی 90 کی دہائی سے شروع ہوئی تھی۔ جب انڈیا کے وزیر اعظم نرسہما راؤ تھے۔
ابھیجیت کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کا ہمیشہ سے ماننا ہے کہ واشنگٹن جانے کا راستہ تل ابیب سے ہو کر گزرتا ہے، لہذا امریکہ سے اچھے تعلقات رکھنے کے لیے اسرائیل سے اچھے تعلقات ہونا ضروری ہیں۔ اسی وقت میں انڈیا کے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ وزیر اعظم مودی کے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے سربراہوں کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں اور انھوں نے ہمیشہ خلیجی ممالک کے جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے چاہے وہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان ہو یا متحدہ عرب امارات کے امیر۔‘
ان کا کہنا ہے کہ یہ ہی وجہ ہے کہ جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کو ختم کر کے خطے کی قانونی حیثیت بدلی گئی تو مشرق وسطیٰ کے ممالک نے اس پر ردعمل نہ دیتے ہوئے اسے انڈیا کا ’اندرونی معاملہ‘ قرار دیا تھا۔ اسی وجہ سے انڈیا نے ہمیشہ اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تعلقات میں توازن برقرار رکھا ہے اور اب تک وہ اس میں کامیاب ہے۔