ایران میں حکومت مخالف مظاہروں پر لکھا جانے

ایران میں حکومت مخالف مظاہروں پر لکھا جانے

ایران میں حکومت مخالف مظاہروں پر لکھا جانے والا گیت جو نعرہ بن کر مشہور ہوا

ایرانی گانا، ’برائے‘، ملک میں جاری حکومت مخالف احتجاج کا مرکزی ترانہ بن چکا ہے جسے صرف ایران میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ آن لائن دیکھ چکے ہیں لیکن اس گانے کی اپنی کہانی کیا ہے؟

حال ہی میں برطانوی میوزک بینڈ ’کولڈ پلے‘ نے اپنے ورلڈ ٹؤر کے آغاز پر ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں جب یہ گانا گایا تو ایرانی اداکار اور سماجی کارکن گلشفتیہ فرحانی بھی سٹیج پر موجود تھے جن کو ملک بدر کر دیا گیا تھا۔

اس کنسرٹ کے دوران اس گانے کا اصلی ورژن، جسے ایرانی گلوکار شیروین حاجی پور نے گایا تھا، بھی پس منظر میں چلایا گیا۔ اس پرفارمنس کو 81 ممالک میں دکھایا گیا جس کی وجہ سے اسے ایک عالمی شناخت ملی۔

اس گیت کو تخلیق کرنے والے حاجی پور نے تمام اشعار ان پیغامات کی مدد سے بنائے ہیں جن کے ذریعے ایران میں بسنے والے لوگ احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی وجوہات بیان کر رہے ہیں۔

ہر پیغام کا آغاز لفظ ’برائے‘ سے ہوتا ہے۔ فارسی زبان میں اس کا مطلب ہے ’جس کے لیے۔‘

اس گیت کو لکھنے کا خیال حاجی پور کو اس وقت آیا جب ایران کی اخلاقی پولیس کے تشدد کے بعد کوما میں جانے والی 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی موت واقع ہوئی اور ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے۔

ایران

مہسا امینی کو مبینہ طور پر سر ڈھانپنے کے قوانین کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا تھا تاہم عینی شاہدین کے مطابق ان پر حراست کے بعد پولیس وین میں تشدد کیا گیا جس کے بعد وہ کوما میں چلی گئی تھیں۔ ایران کی پولیس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مہسا امینی کو ’اچانک دل کا دورہ پڑا تھا۔‘

ان کی موت کے بعد پہلی بار اس وقت احتجاج ہوا جب ان کا جنازہ ہوا جہاں خواتین نے اظہار یکجہتی میں اپنے سروں پر سے سکارف اتار پھینکے تھے۔

اس وقت کے بعد سے ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد اب تک کے سب سے وسیع احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔

اسی دوران یہ گیت سامنے آیا جس کے جذباتی اشعار کی وجہ سے یہ سوشل میڈیا پر دنوں میں آگ کی طرح پھیل گیا۔

اس گیت کے چند اشعار میں احتجاج میں شرکت کی وجہ بتائی گئی ہے کہ ’میری بہن کے لیے، تمہاری بہن کے لیے، ہم سب کی بہن کے لیے، ایک عام سی زندگی کے لیے جو ہم سب کی خواہش ہے، طلبا کے لیے اور ان کے مستقبل کے لیے۔‘

شیروین حاجی پور کے ساتھ کیا ہوا؟

شیروین حاجی پور
شیروین حاجی پور

اس گیت کے خالق حاجی پور کو انسٹا گرام اکاوئنٹ پر پوسٹ کرنے کے چند ہی دن بعد گرفتار کر لیا گیا تھا تاہم اس وقت تک یہ گیت لاکھوں لوگ دیکھ چکے تھے۔

ان کی گرفتاری کے بعد ان کے انسٹا گرام اکاوئنٹ سے اس گیت کو ہٹا دیا گیا۔ ان کو بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا لیکن وہ خاموش رہے۔

بی بی سی فارسی کے نامہ نگار برائے موسیقی بہزاد بولور کا کہنا ہے کہ ’اس گیت کی طاقت گلوکار کی ایمانداری ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایران کی تاریخ میں کسی گیت نے دنیا اور ایرانی معاشرے پر اتنا گہرا اثر نہیں چھوڑا۔‘

ایران کی ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس نیوز ایجنسی کے مطابق اب تک مظاہروں پر کریک ڈاون میں 45 بچوں سمیت 284 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس دوران 35 سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

ایرانی حکام نے ملک بھر سے گرفتار ہونے والے مظاہرین کی تعداد نہیں بتائی تاہم سماجی کارکنوں کے مطابق یہ تعداد لگ بھگ 14 ہزار کے قریب ہے۔

’برائے‘ ایک ترانہ کیوں بن گیا؟

ایران

کئی ایرانی شہریوں کے نزدیک اس گیت نے ملک میں زندگی کی اصلیت دکھائی ہے۔

بہزاد کہتے ہیں کہ ’گیت کی ایک لائن میں گلی میں ناچنے کی بات کی گئی جو دراصل خوف کے بغیر ناچنے کی بات ہے کیوںکہ ایران میں ثقافت کا تعلق سیاست سے ہے۔‘

’انھوں نے ایسے اشعار کا انتخاب کیا جو گذشتہ 40 سال سے ایرانیوں کی عام زندگی کا احاطہ کرتی ہیں، حکومت کی لاپرواہی اور ان چیزوں کو بیان کرتی ہیں جو نوجوان چاہتے ہیں یا نہیں چاہتے، وہ چیزیں جو ان پر زبردستی تھوپ دی گئی ہیں۔‘

’اس گیت کو طلبا زیادہ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ یہی نوجوان سائنس، ثقافت، آرٹ، ادب کی نمائندگی کرتے ہیں جو ایران کی حکومت کی مذہبی پالیسی کے خلاف ہیں۔‘

اس گیت کے اشعار میں ’گلیوں میں ناچنے‘، ’ہر بار جب ہم اپنے محبوب کو بوسہ دینے سے خوفزدہ تھے‘، اور ’برائے عورت، زندگی اور آزادی‘ شامل ہیں۔ یہ ایسے الفاظ اور فقرے ہیں جو ملک بھر کے شہروں میں مظاہروں کے دوران بلند کیے گئے حتیٰ کہ واشنگٹن، سٹراس برگ اور لندن کے مظاہروں میں بھی۔

’برائے‘ گیت ایران کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہو چکا ہے جس کو حال ہی میں متعارف کرائی جانے والی معاشی تبدیلی کی کیٹگری میں گریمی ایوارڈ کے لیے نامزد کرنے کے لیے ہزاروں لوگ آن لائن سفارش کر رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *