اگر مصباح کو گھر بھیج دیا جائے؟
اکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اس وقت گہرے پانیوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ادارے کے دو بڑوں، احسان مانی اور وسیم خان کے درمیان اختلافات کی خبریں گرم ہیں۔
دروغ بر گردنِ راوی لیکن اگر ان خبروں میں کچھ بھی صداقت ہے تو یہ پاکستان کرکٹ کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
پچھلے ڈیڑھ سال میں قومی ٹیم کی فتوحات گھٹتی گئی ہیں اور ناکامیوں کی داستانیں متواتر بڑھتی جا رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس ’تبدیلی‘ کا بیڑا اٹھایا گیا تھا، اسے اپنے اثرات ظاہر کرنے کے لیے وقت کتنا دیا گیا؟
عمران خان جب کپتان تھے، تب سے ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کے خلاف تھے اور اقتدار ملتے ہی اُنھوں نے ڈومیسٹک کرکٹ کا نیا ڈھانچہ متعارف کروا دیا۔ کرکٹ کی کوالٹی کو تو اس سے جو فائدہ ہوا، سو ہوا مگر کئی کرکٹرز کے چولہے بجھ گئے۔
اب اس بنیاد پر ابھی سے کوئی فیصلہ کر چھوڑنا درست نہیں کہ نیا ڈھانچہ کامیاب ہوا یا ناکام۔
تجرباتی فیصلوں کو صرف ایک ڈیڑھ سال کے مشاہدات کی بنیاد پر بدلا نہیں جا سکتا۔ ان کے حقیقی اثرات دیکھنے کے لیے صبر اور تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔
یونس خان سمیت کئی سابق کرکٹرز ماضی میں پی سی بی کے ساتھ کام کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں اور اس کی وجہ کوئی ذاتی عناد نہیں بلکہ پی سی بی کی متلون مزاجی ہے جہاں راتوں رات فیصلے بدلنے کے سبب فریقین کے درمیان اعتماد کا فقدان رہتا ہے۔
لیکن احسان مانی کے عہدہ سنبھالنے کے بعد بہت سے معاملات درست سمت میں جاتے دکھائی دیے ہیں۔
وسیم خان کا تقرر بہت اچھا فیصلہ تھا۔ نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو اپ گریڈ کر کے ہائی پرفارمنس سنٹر میں بدلنا، محمد وسیم اور ثقلین مشتاق جیسے سابق کرکٹرز کو انتظامی دھارے میں لانا اور ڈومیسٹک کرکٹ کے معیار میں بہتری ایسے فیصلے ہیں جن کے ثمرات ظاہر ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔