او آئی سی وہ واقعات جنھوں نے اسلامی تعاون تنظیم کے مزاحمتی کردار اور سفارتی اہمیت کو کم کر دیا
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا 48 واں اجلاس (آج) منگل کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں شروع ہو رہا ہے۔ 57 مسلمان ممالک کی اس کونسل کے دو روزہ سالانہ اجلاس میں مسلمان ممالک کو درپیش سیاسی و معاشی مسائل پر بات چیت ہوگی۔ اجلاس میں اقوام متحدہ، عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل سمیت دیگر عالمی تنظیموں کے نمائندوں سمیت چینی وزیر خارجہ وینگ یی بطور مہمان شرکت کریں گے۔
اس اجلاس اور تنظیم کے کردار کے تناظر میں پیش ہے صحافی ظفر ملک کی تحریر جو کہ پہلی مرتبہ ستمبر 2021 میں شائع کی گئی تھی۔
یہ ایران اور عراق کے درمیان دس سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے فوری بعد کا واقعہ ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی طرف سے قائم کمیٹی کے ارکان اردن کے شاہ حسین اور مصر کے صدر انور سادات کی قیادت میں عراق کے صدر صدام حسین سے ملنے بغداد میں ان کے صدارتی محل پہنچے۔
طویل جنگ سے تباہ حال عراق کے صدام حسین ان دنوں بہت برہم تھے کیونکہ ان کے خیال میں جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمسایہ ملک کویت نے عراقی جزیروں سے ’تیل چوری کر کے عالمی منڈی میں فروخت کا کام جاری رکھا۔‘
صدام چاہتے تھے کہ او آئی سی اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے انھیں کویت کی جانب سے چوری کیے گئے تیل کی قیمت واپس دلوا دے۔
مصر کے صدر اور اردن کے شاہ نے کویتی حکمرانوں کا پیغام صدام کو پہنچایا کہ ان کا سرمایہ امریکی بینکوں میں ہے جو فوری طور پر نکالا نہیں جا سکتا اور اگر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو امریکی معیشت کو بھی بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے۔
سپاٹ چہرے کے ساتھ گفتگو سننے کے بعد صدام حسین نے خالص عرب قبائلی انداز میں اپنا جوتا اتار کر ان سربران مملکت کے سامنے میز پر رکھا اور کہا ’اب میں کویت سے اپنا سرمایہ اس کے ذریعے نکلواؤں گا۔‘
مؤتمر عالم اسلامی (ورلڈ مسلم کانگریس) کے سیکرٹری جنرل راجہ ظفر الحق جو ایران اور عراق جنگ کو او آئی سی کے زوال کی سب سے بڑی وجہ قرار دیتے ہیں، اس واقعے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’صدام حسین نے دھمکی دی تھی کہ اگر کویت نے چوری کیے گئے تیل کی قیمت ادا نہ کی تو وہ کویت پر قبضہ کر لیں گے۔‘
اور پھر صدام نے کویت پر قبضہ کر لیا اور وہاں لوٹ مچ گئی۔
او آئی سی کا قیام کیسے ہوا
21 اگست 1969 کو ایک سخت گیر آسٹریلوی مسیحی ڈینس مائیکل روہان نے یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے اندر خطبے کے لیے رکھے گئے صلاح الدین ایوبی کے دور کے آٹھ سو سال پرانے منبر کو آگ لگا دی۔ اس کے نتیجے میں مسجد کی قدیم عمارت کی چھت کو بھی نقصان پہنچا۔
اسلامی دنیا نے اس واقعے پر شدید ردعمل دیا۔ فلسطین کے مفتی اعظم امین الحسینی نے اسے ’جیوئش کرائم‘ قرار دیا اور اسلامی ملکوں سے اپیل کی کہ وہ ایک سربراہ اجلاس منعقد کریں اور ایسے واقعات کے سدباب کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
فلسطین کے مفتی اعظم کی اپیل کے جواب میں مراکش کے شہر رباط میں 24 مسلم اکثریتی ملکوں کے نمائندے اکٹھے ہوئے جن میں سے زیادہ تر ان ممالک کے سربراہان کی تھی۔
25 ستمبر 1969 کو اس اجتماع نے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ ’اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اقتصادی، سائنسی، ثقافتی اور روحانی شعبوں میں قریبی تعاون اور مدد کی راہ اختیار کرنے کے لیے مسلم حکومتیں آپس میں صلاح مشورہ کریں گی۔‘
یہ قرارداد اسلامی تعاون تنظیم یا اسلامی کانفرنس تنظیم کے قیام کا نقطۂ آغاز تھی۔
اس کے چھ ماہ بعد سعودی عرب کے شہر جدہ میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی اور 1972 میں او آئی سی کا ایک باقاعدہ تنظیم کے طور پر قیام عمل میں لایا گیا جس کا ہر سال وزرائے خارجہ کا اجلاس اور ہر تین سال بعد سربراہ اجلاس منعقد ہونا طے پایا۔
او آئی سی کے چارٹر میں کہا گیا ہے کہ ’اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپس میں یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کو فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائس و ٹیکنالوجی کو فروغ دی جائے گا۔‘
اسلامی کانفرنس تنظیم سے پہلے مؤتمر عالم اسلامی
راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ اسلامی سربراہ کانفرنس سے پہلے مؤتمر عالم اسلامی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم تھی۔ خلافت عثمانیہ کا 1924 میں خاتمہ ہوا تو پھر عالم اسلام میں افراتفری کا دور رہا۔ پھر حج کے موقع پر سعودی شاہ عبدالعزیز نے مسلم ملکوں سے نمائندے اکٹھے کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے عالم اسلام کی ایک تنظیم قائم کی گئی جو ایک پلیٹ فارم مہیا کرے۔ سنہ 1931 میں مؤتمر عالم اسلامی کے انتخابات بیت المقدس میں منعقد ہوئے۔ مفتی اعظم فلسطین کو مؤتمر عالم اسلامی کا پہلا صدر چنا گیا۔
ایشیا سے ایک نائب صدر علامہ سر محمد اقبال، ایک نائب صدر علووہ پاشا مصر سے لیے گئے۔ ایران سے ڈاکٹر ضیا الدین طباطبائی کو سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ بعد میں یہی طباطبائی ایران کے وزیر اعظم بھی بنے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مؤتمر عالم اسلامی کی پہلی مجلس عاملہ میں مولانا محمد علی جوہر بھی رکن بنے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی طاقتوں کی جانب سے اس تنظیم کو نشانہ بنایا گیا کیونکہ اس کی موجودگی میں اسرائیل کا قدم جمانا مشکل کام تھا۔‘
’او آئی سی ایک امریکی بلاک کی تنظیم‘
سینیئر صحافی اور کالم نگار عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ ’اسلامی کانفرنس کا قیام جب عمل میں آیا تو بنیادی تصور وہی تھا جو اس سے پہلے مؤتمر عالم اسلامی کا ادارہ بنا تھا لیکن سربراہی سطح پر اسلامی ملکوں کی کوئی ایک تنظیم نہیں تھی۔‘
’یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ اور سویوت بلاکس میں سرد جنگ جاری تھی لیکن مسلمان ملکوں کا کوئی بلاک نہیں تھا۔ اس وقت مسلمان ملک بالعموم امریکہ کے زیر اثر تھے چنانچہ جب اسلامی کانفرنس کی تنظیم بنی تو وہ مسلمان ملک جو سوویت بلاک کے زیر اثر تھے وہ اس کے بارے میں سرد مہر تھے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور جو ملک سعودی عرب کے کیمپ سے تعلق رکھتے تھے ان میں مراکش اور تیونس وغیرہ شامل تھے۔ ان ملکوں نے اسلامی کانفرنس تنظیم کے قیام میں زیادہ حصہ لیا۔ ان میں پاکستان بھی تھا۔ شروع میں اسلامی کانفرنس تنظیم کا تاثر یہی تھا کہ ایہ امریکی بلاک کی ایک تنظیم ہے جس میں مذہب اور غیر مذہب کی جو کشمکش چل رہی ہے تو اس میں یہ امریکہ کی اتحادی تنظیم ہے۔‘
مصنف اور تجزیہ کار فرخ سہیل گوئندی کا کہنا ہے کہ ’پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس رباط میں منعقد ہوئی اس میں بالکل ایسے لگتا تھا کہ یہ امریکی بلاک کے مسلمان ملکوں کی کانفرنس ہے اور پھر جب پاکستان میں یہ کانفرنس منعقد کرنے کی بات چلی تو شاہ ایران نے خواہش کے ساتھ ساتھ پوری کوشش کی یہ کانفرنس ایران میں منعقد کی جائے۔‘
’لیکن امریکی بلاک کے ملک جن کی قیادت شاہ ایران کر رہے تھے وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ اس کے باوجود کہ سعودی عرب میں امریکی بلاک تھا لیکن پاکستان میں کانفرنس کے انعقاد کی انھوں نے کھل کر حمایت کی۔‘
انڈیا کی پہلے روز سے ممبر بننے کی کوشش
عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ 1969 میں رباط میں منعقد ہونے والی پہلی کانفرنس میں انڈیا نے نمائندگی حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی کیونکہ انڈیا کا دعویٰ یہ تھا کہ مسلم شہریوں کی آبادی دنیا بھر میں اس کے پاس سب سے زیادہ ہے جو کہ اس کہ کل آبادی کا 20 فیصد ہے۔
’سعودی عرب سمیت کچھ مسلمان ملک اس بات کے حامی تھے کہ اتنی بڑی مسلمان آبادی کی نمائندگی کے لیے انڈیا کو مبصر کا درجہ دیا جا سکتا ہے لیکن پھر پاکستان نے اس کی سخت مخالفت کی اور اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان نے تو کانفرنس کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی تو پھر انڈیا کو مبصر کا درجہ بھی نہ مل سکا۔‘
مؤتمر عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور سینیئر سیاستدان راجہ ظفر الحق اس ادارے میں انڈیا کی جانب سے شمولیت کی کوشش اور اس کو روکے جانے کے معاملے کی تصدیق کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اسلامی سربراہ کانفرنس کے لیے تجویز سعودی عرب سے شاہ فیصل اور مراکش کے شاہ محمد اول نے پیش کی اور ساری اسلامی دنیا کو اکٹھا کیا۔ تب پاکستان میں جنرل یحییٰ خان صدر تھے۔ انھوں نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر انڈیا نے بہت کوشش تھی کہ وہ اس ادارے میں داخل ہو جائیں اور یہ دلیل دی گئی کہ وہاں مسلمانوں کی تعداد کے برابر مسلمان دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں۔
’لیکن صدر یحییٰ خان نے اس تجویز کی سختی سے مخالفت کی۔ تین دن تک انڈیا کو شامل کرنے یا نہ کرنے کی بحث چلتی رہی جس کے بعد یہ متفقہ طور پر طے پایا کہ انڈیا اسلامی کانفرنس کا حصہ نہیں ہو گا۔ گذشتہ دنوں متحدہ عرب امارات میں او آئی سی کے اجلاس میں انڈیا کی یہ خواہش پوری ہو گئی جب ممبر نہ ہوتے ہوئے بھی انھیں شرکت کی دعوت دی گئی۔‘
کثیر الجہتی تنظیم لیکن مقاصد میں ناکام
اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی ابتدا اور کردار کے حوالے سے عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ ’اس کانفرنس کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں مسلمان ملکوں کی نمایاں شخصیات علمی اور سکالر قسم کے جو لوگ تھے ان کو بھی بلایا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں پاکستان سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی گئے تھے۔ او آئی سی کی یہ پہلی کانفرنس ایک یادگار ایونٹ ضرور تھی لیکن یہ کوئی مؤثر نتیجہ پیدا نہ کر سکی۔ خاص کر عرب اسرائیل تنازع کو سلجھانے میں اس نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔‘
فرخ سہیل گوئندی کہتے ہیں کہ ’یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اسلامی کانفرنس کے منشور میں فلسطین کے مسئلے کا حل دو ریاستی حل کی شکل میں تجویز کیا گیا ہے کہ فلسطین کی ریاست قائم ہو اور اس کے ساتھ اسرائیل بھی ایک ریاست کے طور پر قائم رہے۔‘
’یہ 1972 میں تنظیم کے قیام کے بعد اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ایک کانفرنس میں یہ معاملہ رکھا گیا تھا تو یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ او آئی سی مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستوں کے قیام کی شکل میں دیکھتی ہے۔‘
فرخ سہیل گوئندی کا کہنا ہے کہ ’دلچسپ بات یہ تھی کہ رباط کانفرنس میں جو قرارداد منظور ہوئی اس میں طے ہوا تھا کہ مسلم ملکوں کی حکومتیں آپس میں تعلیمی، اقتصادی، سماجی، سائنسی، ثقافتی اور روحانیت کے شعبوں میں تعاون کریں گی۔ یعنی اس میں اسلامی ملکوں کی سائنسی، تعلیمی اور اقتصادی ترقی کی بات ہوئی تھی۔ اس میں کوئی جہادی بات نہیں ہوئی تھی۔‘
پین اسلام ازم
عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ ’اسلامی کانفرنس تنظیم کا پہلا اجلاس طلب کرنے میں سعودی عرب کا کردار مرکزی تھا اور پھر 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر دو کام کیے جو سعودی عرب نے پہلی کانفرنس میں نہیں کیے تھے۔‘
’وہ یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو نے لیفٹ اور رائٹ دونوں ملکوں کے سربراہوں کو اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ذاتی طور پر آمادہ کیا اور ہم نے دیکھا کہ اس میں لبیا سے کرنل قذافی بھی آئے، اس میں بنگلہ دیش (جو پاکستان سے ٹوٹ کر تازہ تازہ نیا ملک بنا تھا) کے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان بھی آئے، شاہ فیصل بھی آئے، شاہ ایران بھی آئے، اس طرح یہ سارے تضادات ہمیں اس کانفرنس میں مدغم ہوتے ہوئے نظر آئے۔ یعنی شاہ ایران سعودی عرب کے مخالف تھے، سعودی عرب ایران سے خائف تھا لیکن دونوں شاہ ایران اور شاہ فیصل بھی آئے۔ پاکستان کا بنگلہ دیش سے تنازع تھا لیکن وہ بھی آئے۔ کرنل قذافی اور بومدین وغیرہ کی پالیسیوں میں اختلاف تھا لیکن وہ بھی آئے۔ انور سادات مصر سے آئے۔‘
فرخ سہیل گوئندی کہتے ہیں کہ فروری 1974 میں لاہور میں منعقد ہونے والی سربراہ کانفرنس میں مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، فلسطین سے ہی یاسر عرفات، شاہ فیصل، یوگنڈا سے عیدی امین، تیونس سے بومدین، لبیا سے کرنل قذافی، مصر سے انور سادات، شام سے حافظ الاسد، بنگلہ دیش سے شیخ مجیب الرحمان، ترکی سے فخری کورو سمیت تمام بڑے رہنما شریک تھے۔ اس کانفرنس کے دوران پاکستان نے بنگلہ دیش کو الگ ملک کے طور پر تسلیم کر لیا اور یہی وجہ تھی کہ شیخ مجیب الرحمان نے بطور سربراہ حکومت کانفرنس میں شرکت کی۔‘
عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ ’لاہور میں ہونے والی اس اسلامی سربراہ کانفرنس سے سوچ کی ایک بڑی تحریک شروع ہوئی، جس نے بڑی لہر پیدا کی اور پاکستان کے اندر بھی یہ احساس پیدا ہوا اور وہ تھا پین اسلام ازم کا احساس۔‘
پاکستان عالم اسلام کا لیڈر، تیل بطور ہتھیار
فرخ سہیل گوئندی کہتے ہیں کہ ’اس کانفرنس کے انعقاد سے قبل شاہ ایران کی کوشش تھی کہ یہ تہران میں منعقد ہو اور اس کے لیے بہت دباؤ تھا لیکن شاہ فیصل نے پاکستان میں کانفرنس کے انعقاد کی حمایت کی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کی علاقائی سیاست میں ایران بہت بڑا ملک تھا اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں سے اس کا جھکاؤ امریکہ کی جانب تھا اور پاکستان درمیان میں تھا اور امریکہ اور سوویت یونین کی جانب سے واضح جھکاؤ کسی طرف نہ تھا، اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسلامی تاریخ میں اگر کسی ایک ملک میں پوری مسلم دنیا کے سربراہان ایک وقت میں سب سے زیادہ اکٹھے ہوئے ہیں تو یہ اعزاز پاکستان کو 1974 میں حاصل ہوا۔
’بلا مبالغہ اس کانفرنس میں 50 کے قریب اسلامی سربراہان شریک ہوئے جن میں شاہ ایران خود نہیں تھے بلکہ ان کے وزیر اعظم شریک ہوئے تھے۔ اس کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین یعنی پی ایل او جس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا تھا، اس کو اسلامی سربراہ کانفرنس میں فلسطینی ریاست کی نمائندہ تنظیم کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد یاسر عرفات کو اقوام متحدہ میں خطاب کی دعوت دی گئی اور فلسطین کی نمائندہ تنظیم کو تسلیم کیا گیا اور یاسر عرفات ایک ہاتھ میں زیتون کی شاخ (اور دوسرے میں) بندوق لے شریک ہوئے تھے۔ ایک بات تو یہ اہم ہوئی کہ اس کانفرنس کے بعد پاکستان اسلامی دنیا میں ایک لیڈر بن کر ابھرا۔‘
فرخ سہیل گوئندی کہتے ہیں کہ ’او آئی سی بطور ادارہ اس حد تک مؤثر ہوا کہ بھٹو کی تجویز پر شاہ فیصل نے تیل کی فراہمی پر شرائط عائد کرنا شروع کر دیں اور پھر ایسا بھی کہا جانے لگا کہ امریکہ میں پیٹرول کی عدم دستیابی کے باعث گاڑیاں بند ہونے لگی ہیں۔‘
اقوام متحدہ میں قرآن کی تلاوت لیکن زوال کا آغاز کہاں سے؟
راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ ’اکتوبر 1980 میں اسلامی کانفرنس تنظیم کی متفقہ نمائندے کے طور پر صدر جنرل ضیا الحق نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ ان کی تقریر کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا جو کہ پہلے ریکارڈ کر لی گئی تھی۔ یہ او آئی سی کا عروج تھا، اس کے بعد زوال نے او آئی سی کا گھر دیکھ لیا۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کے کئی سربراہ اجلاس بعد میں منعقد ہوئے لیکن تنظیم میں اب وہ دم خم نہیں رہا۔‘
راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ ’اسلامی کانفرنس تنظیم میں کمزوری ایران عراق جنگ کے نتیجے میں آئی۔‘
’اس جنگ نے صرف ایک او آئی سی نہیں بلکہ کئی ادارے بلکہ اکثر مسلمان ملکوں کی اپنی قوت بھی اس جنگ کے نتیجے میں ضائع ہو گئی۔ ایران اور عراق کی قوت تو ضائع ہوئی کیونکہ یہ براہ راست دس سال تک جنگ لڑتے رہے۔‘
عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ ’اسلامی کانفرس تنظیم کا ایک فائدہ ہوا اور ایک نقصان بھی ہوا۔ فائدہ یہ ہوا کہ دنیا کو پتا چلا کہ اسلامی ممالک بھی ایک مضبوط گروپ ہیں اور ایک پلیئر کا کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ اس کانفرنس کے سارے متحرک کردار اگلے چند برسوں کے اندر پُراسرار طریقے سے ختم کر دیے گئے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ایسا کیوں ہوا۔ شاہ فیصل، شیخ مجیب، بھٹو ختم کر دیے گئے۔ اس کے باوجود کہ کرنل قذافی تو بہت بعد تک رہے لیکن وہ بھی ختم کر دیے گئے۔‘
عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ ’جب اس کانفرنس کے تین چار بڑے پلیئر مار دیے گئے تو اس کے بعد او آئی سی بطور تنظیم مردہ ہو گئی اور اس کے تھوڑے عرصے بعد سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو اسلامی ملکوں کی اکثریت امریکی بلاک میں چلی گئی اور بعد ازاں جو سوویت یونین کے انتشار کے بعد اس کے حامی مسلمان ملکوں میں حکومتیں ختم ہوئیں اور مغرب کی طرف جھکاؤ رکھنے والے لیڈر اقتدار میں آ گئے۔‘
عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ ’اب اسلامی کانفرنس عملی طور پر ایک ڈیڈ باڈی ہے اور اس کا کوئی اجلاس بھی اس طرح سے نہیں ہوتا۔ وزرائے خارجہ کی کانفرنس منعقد ہوتی ہے لیکن اب یہ بین الاقوامی واقعات کے حوالے سے اس طرح سے متحرک نظر نہیں آتی۔ وزرائے خارجہ کی کانفرنس جب بھی ہوتی ہے تو اس کی خبر ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائن اور اخبارات کی شہ سرخی بھی ہوتی ہے لیکن اسے لوگ پڑھتے نہیں اور کوئی اہمیت نہیں دیتا۔‘
فرخ سہیل گوئندی کے مطابق پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس میں بالکل ایسے لگتا تھا کہ یہ امریکی بلاک کے مسلمان ملکوں کی کانفرنس ہے اور پھر جب پاکستان میں یہ کانفرنس منعقد کرنے کی بات چلی تو شاہ ایران نے خواہش کے ساتھ ساتھ پوری کوشش کی یہ کانفرنس ایران میں منعقد کی جائے لیکن امریکی بلاک کے ملک جن کی قیادت شاہ ایران کر رہے تھے وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
’اس کے باوجود کہ سعودی عرب امریکی بلاک میں تھا، پاکستان میں کانفرنس کا انعقاد ہوا اور اس کی کھل کر حمایت ہوئی۔ پھر اس کانفرنس میں بھٹو کا بڑا کردار تھا، اس میں کرنل معمر قذافی بہت نمایاں ہوئے اور یاسر عرفات۔ یہ سب غیر جانبدار یا پرو سوویت یونین تھے بلکہ ان دنوں مصر کے انور سادات بھی درمیان میں ہی تھے، نہ بہت پرو سوویت یونین، نہ بہت پرو امریکہ۔ لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس میں پرو سوویت یونین ملک بہت نمایاں ہو کر سامنے آئے، ان میں شام بہت اہم ملک تھا جو پرو سوویت یونین تھا۔‘
ان کے مطابق سرد جنگ کے دور میں او آئی سی کی اہمیت زیادہ تھی کیونکہ اس کے رکن ملکوں میں دونوں سپر پاورز کے حمایتی موجود تھے۔ ’اس کانفرنس کے حوالے سے بعد میں بھٹو صاحب نے اپنے خلاف مقدمے کے ایک بیان میں کہا تھا کہ مجھ پر بڑا دباؤ تھا کہ یہ کانفرنس منعقد نہ ہو۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’5 جولائی 1977 کے بعد او آئی سی غیر مؤثر ہونا شروع ہو گئی۔ یعنی جو سب مؤثر قیادت تھی وہ ہٹانا شروع کر دی گئی۔‘
عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ ’اسلامی کانفرنس تنظیم کا یہ ادارہ اندھیرے میں ڈوب گیا اور اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ایران کے سوا سارا عالم اسلام اب امریکی بلاک میں ہے۔ ترکی کو ہم اینٹی امریکہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بھی نیٹو کا ممبر ملک ہے۔لیکن دو تین بار ترکی نے امریکہ کی پالیسی کے خلاف ردعمل دیا۔ اس نے شام کے معاملے پر اور پھر آذربائیجان میں جو آرمینیا کے خلاف بھرپور مدد کی وہ ظاہر ہے مغرب کی مرضی کے بغیر ہوا۔‘
افغان جہاد اور ایران عراق جنگ کا نقصان
فرخ سہیل گوئندی کہتے ہیں کہ ’سنہ 1979 میں جب افغان جہاد شروع ہوا تو اسلام آباد میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس منعقد ہوئی جو سب افغان جہاد کی حمایت میں یعنی پرو امریکہ تھے۔‘
’اس کے بعد سے یہ او آئی سی بطور ادارہ امریکہ کے ہاتھوں میں ایک ٹول بن گیا اور او آئی سی کا ایک دبنگ اور مزاحمتی اور قائدانہ کردار معدوم ہوتا چلا گیا۔ اب یہ ایک کاغذی سی تنظیم ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ رہی تب تک اسلامی کانفرنس تنظیم ایک مزاحمتی ادارے کے طور پر موجود رہی لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اب یہ ایک رسمی ادارہ ہے جو سفارتی سطح پر تو ہے لیکن اس کا وجود متحرک نہیں۔‘
دوسری طرف راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ ’ایران عراق جنگ کے خاتمے کے لیے او آئی سی کی طرف سے گنی کے صدر سیکو طورے کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی اس میں صدر ضیا الحق بھی شامل تھے لیکن یہ کمیٹی بھی کامیاب نہ ہو سکی۔
’میری رائے میں اسلامی کانفرنس کی عزت ایران عراق جنگ نے خاک میں ملا دی۔ لوگوں نے دیکھا کہ عرب ایک طرف ہو گئے، ایران کم و بیش اکیلا ہی رہا، باقی دنیا تو تماش بین ہی تھی لیکن اس جنگ سے اسلامی دنیا اس کے اتحاد کو اور او آئی سی کو بہت نقصان پہنچا۔‘
راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ ’پاکستان پر عرب دنیا کا بہت دباؤ تھا کہ اس جنگ میں عراق کا ساتھ دیں لیکن صدر ضیا الحق نے کہا کہ ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ ہم اس کے خلاف نہیں جا سکتے۔ اس سے ناراضی پیدا ہوئی بلکہ اس حد تک کہ اگست 1988 میں صدر ضیا الحق کے فضائی حادثے میں جاں بحق ہونے سے ساری عرب دنیا سے لوگ آئے اور افسوس کا اظہار کیا۔‘
’لیکن اگر کسی نے تعزیت کا پیغام تک نہیں بھیجا تو وہ صدام حسین تھے کیونکہ ضیا الحق نے ایران کے خلاف ان کے مؤقف کی حمایت نہیں کی تھی۔‘