اویغور کیمپوں میں منظم انداز میں مبینہ ریپ کا انکشاف ’پتا نہیں وہ انسان تھے یا جانور‘
چین میں اویغور افراد کے لیے بنائے گئے ‘تربیتی کیمپوں‘ میں خواتین کو ایک منظم انداز میں ریپ کیا جاتا ہے، انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور اُن پر تشدد کیا جاتا ہے۔ بی بی سی کو ان کیمپوں کے بارے میں نئی اطلاعات موصول ہوئی ہے۔ اس کہانی میں موجود تفصیلات چند قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔
تورسنے زیائدین یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ وہاں (کیمپ میں) مرد ہمیشہ ماسک پہنے ہوئے ہوتے تھے اس بات سے قطع نظر کہ اس وقت تک کورونا کی عالمی وبا نہیں پھیلی تھی۔
وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے سوٹ پہنے ہوتے تھے، ناکہ روایتی پولیس یونیفارم۔
رات بارہ بجے کے بعد وہ آتے تھے اور اپنی مرضی کی خواتین چُن کر ایک راہداری میں لے جاتے تھے، جہاں کوئی کیمرا نصب نہیں تھا۔
زیائدین کہتی ہیں کہ متعدد مرتبہ رات کے وقت انھیں بھی اُس راہداری میں لے جایا گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ وہاں جو کچھ ہوا وہ بھلانا بہت مشکل ہے۔ ‘میں چاہتی ہوں کہ یہ الفاظ میرے منھ سے ہی نہ نکلیں۔
تورسنے زیائدین نے چین کے صوبے سنکیانگ میں موجودہ حراستی مراکز کے خفیہ نظام میں نو ماہ گزارے ہیں۔ آزادانہ اندازوں کے مطابق ان کیمپوں میں تقریباً دس لاکھ سے زیادہ مرد اور خواتین کو رکھا گیا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں کا مقصد اویغور اور دیگر اقلیتوں کی ‘تعلیمِ نو‘ ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے وقتاً فوقتاً اویغوروں کی مذہبی آزادی ختم کی ہے جو کہ ایک بڑے پیمانے پر نگرانی کے نظام، حراستوں، زبردستی تعلیم، اور یہاں تک کہ لوگوں کو بانجھ کرنے کی مہم کی شکل میں سامنے آ رہی ہے۔
یہ پالیسی چین کے صدر شی ژن پنگ کی جانب سے سامنے آئی ہے۔ صدر نے سنہ 2014 میں علیحدگی پسندوں کے دہشتگردانہ حملے کے بعد سنکیانگ صوبے کا دورہ کیا تھا۔ اس کے تھوڑے عرصے کے بعد نیو یارک ٹائمز کو لیک کی گئی کچھ دستاویزات کے مطابق صدر نے حکام سے کہا تھا کہ وہ ‘بالکل کسی رحم‘ کے بغیر اس کا سدِ باب کریں۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ چینی اقدامات نسل کشی کے مترادف ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر حراستوں اور لوگوں کو بانجھ کرنے کی اطلاعات ’سراسر جھوٹ‘ ہیں۔
ان کیمپوں کے اندر کے حالات کی کہانیاں مشکل سے ہی ملتی ہیں تاہم متعدد ایسے افراد جنھیں وہاں بند رکھا گیا اور ایک گارڈ نے بی بی سی سے بات کی ہے اور بتایا ہے کہ انھوں نے وہاں پر منظم انداز میں ہونے والے ریپ اور تشدد کے شواہد دیکھے ہیں۔
تورسنے زیائدین اپنی رہائی کے بعد امریکہ منتقل ہو گئیں تھیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ خواتین کو ان کے کمروں سے رات کو نکالا جاتا ہے اور ماسک پہننے مرد انھیں ریپ کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تین مرتبہ ان کا گینگ ریپ کیا گیا اور ہر مرتبہ دو سے تین مردوں نے انھیں ریپ کیا۔
تورسنے زیائدین نے پہلے بھی میڈیا سے بات کی ہے مگر اس وقت وہ قازقستان میں تھیں جہاں انھیں ہر وقت یہ خدشہ لاحق رہتا تھا کہ انھیں چین واپس بھیج دیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں یہ خوف تھا کہ اگر انھوں نے جنسی تشدد کی اصل کہانی ظاہر کر دی اور انھیں چین واپس بھیج دیا گیا تو انھیں اس سے زیادہ سخت سزا دی جائے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے علاوہ انھیں اس پر شرمندگی بھی تھی جو کچھ ان کے ساتھ ہوا۔
تورسنے زیائدین کی کہانی کی آزادانہ تصدیق کرنا ممکن نہیں کیونکہ چین میں صحافیوں پر شدید پابندیاں ہیں۔ تاہم انھوں نے جو سفری دستاویزات اور امیگریشن ریکارڈ بی بی سی کو پیش کیا ہے وہ ان کے بیانات کی کسی حد تک تائید کرتا ہے۔
ان کی سنکیانگ کی کیونز کاؤنٹی میں کیمپ کے بارے میں معلومات، بی بی سی کی جانب سے دیکھی گئی سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق معلوم ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ کیمپوں کے اندر موجود حالات جو انھوں نے بیان کیے ہیں، ان کیمپوں سے رہا ہونے والے دیگر افراد بھی ان کی تصدیق کرتے ہیں۔
سنہ 2017 اور سنہ 2018 کا کیونز کاؤنٹی کا عدالتی ریکارڈ بی بی سی کو ایڈرئن زینز نے فراہم کیا ہے جو کہ چین کی سنکیانگ میں پالیسیوں کے حوالے سے ایک اہم ماہر ماننے جاتے ہیں۔
اس ریکارڈ میں ‘اہم گروہوں کی تعلیم کے ذریعے تبدیلی‘ کی تفصیلی منصوبہ بندی اور اخراجات کے شواہد ملتے ہیں۔ یہ الفاظ چین میں اویغور کی تعلیمِ نو کو بیان کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک دستاویز میں اس ‘تعلیمی عمل‘ کو ‘ذہن سازی‘ ’دلوں کی صفائی، ’حق کی مضبوطی‘، اور ’باطل کا خاتمہ‘ قرار دیا گیا ہے۔
بی بی سی نے سنکیانگ سے ایک قازق خاتون کا انٹرویو بھی کیا جنھیں 18 ماہ تک اس کیمپ سسٹم میں رکھا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں اس پر مجبور کیا گیا کہ وہ اویغور خواتین کو برہنہ کریں اور انھیں ہتھ کڑیاں لگائیں اور پھر انھیں چینی مردوں کے سامنے اکیلا چھوڑ دیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بعد میں وہ کمرے کو صاف کیا کرتی تھیں۔
گلزیرہ ایولخان بتاتی ہیں کہ ‘میرا کام تھا کہ خواتین کی قمیضیں اُتاروں اور پھر انھیں ہتھ کڑیاں لگاؤں تاکہ وہ ہل نہ سکیں۔‘ یہ کہتے ہویے وہ اپنے سر کے پیچھے اپنی کلائیاں لے جا کر دیکھاتی ہیں کہ وہ کس پوزیشن میں خواتین کو ہتھ کڑیاں لگاتی تھیں۔
‘پھر میں کمرے سے باہر آ جاتی تھی اور کوئی چینی مرد کبھی باہر سے یا پھر کوئی پولیس والا کمرے میں داخل ہوتے تھے۔ میں کمرے کے باہر خاموشی سے بیٹھی ہوتی تھی اور جب وہ مرد کمرے سے نکلتا تھا تو میں اس خاتون کو نہانے کے لیے لے کر جاتی تھی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’چینی مرد نوجوان قیدیوں اور خوبصورت قیدیوں کو حاصل کرنے کے لیے رقم بھی ادا کرتے تھے۔‘
ان کیمپوں کے کچھ اور سابق قیدیوں نے کہا ہے کہ انھیں گارڈز کی مدد کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا یا پھر انھیں سزا دی جاتی تھی۔ گلزیرہ ایولخان کہتی ہیں کہ مداخلت کرنے یا مزاحمت کرنے کی ان میں طاقت نہیں تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہاں پر ریپ کا ایک منظم نظام تھا، تو انھوں نے کہا ‘ہاں بالکل تھا۔‘
تورسنے زیائدین کا کہنا ہے کہ کچھ خواتین کو جب لے کر جایا جاتا تھا تو وہ لوٹتی نہیں تھیں۔ کچھ خواتین جو لوتٹی تھیں، انھیں کہا جاتا تھا کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ کسی کو نہیں بتائیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’آپ کسی کو کچھ نہیں بتا سکتے۔ آپ بس خاموشی سے آ کر لیٹ سکتے ہیں۔ اس کا مقصد آپ کے حوصلے کو تباہ کرنا ہے۔‘
ایڈرئن زینز نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘جب سے یہ معاملہ شروع ہوا ہے، یہ اس کی خوفناک ترین کہانیاں ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں ‘یہ شواہد اس بدترین خدشے کی تائید کرتے ہیں جو شروع سے ہمارے ذہنوں میں ہیں۔ یہ جنسی تشدد کا تفصیلی منظرنامہ ہے اور یہ ہمارے پہلے خدشات سے بھی زیادہ بُرے حالات بیان کرتا ہے۔‘