انگور کو کھٹا کہنے کے بجائے اپنی ناکامیوں کا مقابلہ اس سمارٹ طریقے سے کریں
ہم میں سے بہت سے لوگ بار ہا ایک ہی قسم کی غلطیاں کرتے ہیں لیکن نئےانکشافات بتاتے ہیں ہم ناکامیوں سے قیمتی سبق سیکھ سکتے ہیں۔ آج کے ترغیب دینے والے ادب میں ناکامی کو اکثر جشن منانے کی چیز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مایوسیاں یا ناکامیاں کامیابی کے لیے ایک ضروری زینہ سمجھے جاتے ہیں اور ہماری زندگی کی کہانی میں ایک اہم موڑ آئے گا جو بالآخر فتح پر ختم ہو گا۔
مایوسی میں پڑنے کے بجائے، ہمیں ‘ناکام ہو کر بھی آگے بڑھتے رہنے’ کی ترغیب دی جاتی ہے۔ کاش یہ اتنا آسان ہوتا۔ پچھلی دہائی میں بہت ساری نفسیاتی تحقیق سےپتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر لوگ ناکامی کو تعمیری طور پر استعمال کرنے میں جدوجہد کرتے ہیں۔ اس کے بجائے، ہم اس کام کی قدر کو کم کرنے کے طریقے تلاش کرتے ہیں جس میں ہم ناکام رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے کم حوصلہ مند ہو گئے ہیں۔ اس رجحان کو ‘انگور کھٹے ہیں’ بھی کہا جاتا ہے۔
اس کی جگہ ہم اپنی غلطیوں کو محسوس کرنے میں ناکام ہوتے ہیں اور بے فکری کے ساتھ اسی طرح رہتے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، کہ ہم مستقبل میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے بہتر حکمت عملی سیکھتے۔ ترغیب دینے اور تحریک دینے والے مقررین اکثر ناول نگار سیموئیل بیکٹ کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہیں: ‘پھر ناکام ہوں۔ (لیکن) بہتر ڈھنگ سے ناکام ہوں۔’ لیکن سچ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر دوبارہ ناکام ہوتے ہیں اور اسی طرح ناکام ہوتے ہیں۔
حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ناکامی کے اس جال سے بچنے کے طریقے موجود ہیں۔ یہ حل اکثرمتضاد ہوتے ہیں یعنی غلطیوں سے سیکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی دوسرے شخص کو مشورہ دینا جن کو شاید اسی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہو جس میں آپ ناکام ہو چکے ہیں۔ دوسروں کو ناکامی سے بچنے میں مدد کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ اپنی کامیابی کے اپنے امکانات کو بھی بڑھا سکتے ہیں۔
انگور نہیں ملے تو کھٹے
آئیے سب سے پہلے ہم انگور کھٹے ہیں کے اثر کا جائزہ لیتے ہیں، جسے نارویجن سکول آف اکنامکس میں سائیکالوجی اور لیڈرشپ کے پروفیسر ہالگیئر ایسجسٹاد اور ساتھیوں نے دریافت کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کے اپنے خوابوں کو وقت سے پہلے ترک کرنے کے رجحان پر حیرت زدہ اور متجسس تھے۔ وہ کہتے ہیں: ‘تحقیق میں یہ سمجھنے کی کوشش تھی کہ ہم بعض اوقات بہت جلدی کیوں ہار مان لیتے ہیں، حالانکہ ہم کامیاب ہو سکتے تھے اگر ہم تھوڑا زیادہ صبر کرتے اور اس پر دوسری کوشش کرنے کے لیے تیار ہوتے۔’
اپنے پہلے تجربے میں ایسجسٹاڈ نے شرکاء سے کہا کہ وہ ایک ٹیسٹ کا عملی امتحان لیں جس میں وہ اپنے وجدان کی درستگی کو جانچيں۔ مثال کے طور پر ان سے یہ اندازہ لگانے کے لیے کہا گیا کہ 20 سیب کا وزن کتنا ہوگا اور انھیں بتایا گیا کہ حقیقی جواب کے 10 فیصد کے اندر آنے والا اندازہ ان کے مضبوط وجدان یا اندازے کی علامت سمجھا جائے گا۔
کئی سوالوں کے جواب میں اعلی کارکردگی کے بارے میں انھیں بتایا گیا کہ ان کا وجدان ‘زندگی کے مثبت نتائج، جیسے کام میں غیر معمولی کامیابیوں اور اچھی طرح سے کام کرنے والی سماجی زندگی’ سے مضبوطی سے منسلک ہیں۔ یہ ایک ایسا پیغام تھا جو ان کی کامیابی کی خواہش کو بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
مشق کے لیے دیے گئے چند سوالات کے جوابات دینے کے بعد، شرکاء کو غلط رائے دی گئی یعنی انھیں یا تو بہت مثبت یا بہت منفی رائے دی گئی۔ اس کے بعد ان سے یہ اندازہ لگانے کو کہا گیا کہ حقیقی ٹیسٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا کتنا مشکل ہوگا، اور یہ کہ اگر وہ صدفیصد سکور کرتے ہیں تو وہ کتنے خوش ہوں گے۔
ایسجسٹاڈ نے یہ مفروضہ قائم کیا کہ کیا کہ جن لوگوں کو ان کی مشق کے جوابات کے بارے میں منفی رائے دی گئی ہے وہ اپنی جذباتی حالت کے سبب مستقبل کی اپنی کارکردگی کی اہمیت کو کم کریں گے۔ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔ جن لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ جب مشق میں ہی ناکام ہو گئے ہیں تو انھوں نے پیش گوئی کی کہ ایک کامل سکور ان کی فوری خوشی کو بڑھانے میں بہت کم مددگار ہوگا۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ سچ نہیں نکلا۔ جب انھوں نے دوسرا امتحان دیا اور انھیں بتایا گیا کہ انہوں نے اعلیٰ نمبر حاصل کیے ہیں، تو اس خوشخبری نے انھیں واقعی خوش کر دیا۔ وہ یہ سوچنے میں مکمل طور پر غلط تھے کہ نتیجہ ان کے لیے باعث فخر نہیں ہوگا۔
ایسجسٹاڈ کے مطابق یہ خود کو تحفظ فراہم کرنے جیسا ہے۔ ’ہم میں سے اکثر لوگ خود کو اہل اور باصلاحیت لوگ سمجھتے ہیں۔ تو جب بیرونی ردعمل اس سے مختلف ہو تو یہ ہماری اپنی ساکھ کے لیے خطرے کا باعث بنتا ہے۔
’سب سے آسان طریقہ اس کو رد کرنا یا بیرونی اشاروں کی وضاحت کرنا ہوتا ہے تاکہ ہم اپنے عدم تسلسل کو کم کریں اور اپنی شخصیت کو مثبت رکھ سکیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم ہمیشہ ایسا کرتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔‘ (تحقیق کے بعد شرکا سے سوالات کیے گئے تاکہ وہ اپنی رائے کے مطابق اپنی صلاحیتوں میں کوئی غلط تاثر نہ دیں۔)
اگلی تحقیق میں ایسجسٹاڈ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ سوالوں کے جواب میں ناکامی سے کیسے شرکا کی رائے میں ٹیسٹ کے نتائج کی اہمیت کے حوالے سے تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایک بار پھر انھیں ’انگور کٹھے ہیں‘ کے اشارے ملے: منفی ردعمل ملنے پر شرکا کی رائے تھی کہ ٹیسٹ کے نتائج سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ بطور شخص کیسے ہیں، یا پھر فطری ذہانت سے مستقبل میں کامیابی کا تعین نہیں ہوسکے گا۔
انھوں نے اصل زندگی میں بھی کٹھے انگوروں کے نظریے کی آزمائش کی اور ایسا ناروے کی ایک یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ کیا گیا۔ انھیں معلوم ہوا کہ جن طلبہ کی کارکردگی اوسط درجے کی تھی، ان کی رائے یہ تھی کہ بہترین درجے کی کارکردگی سے گریجویٹ ہونے کے اصل زندگی میں زیادہ فوائد نہیں۔
ایسجسٹاڈ کا خیال ہے کہ زندگی کے دوسرے حصوں میں بھی اس نظریے سے حوصلہ افزائی پر اثر پڑتا ہے۔ اگر اپنی خواہش کردہ نوکری کے لیے انٹرویو بُرا ہوجائے تو آپ شاید یہ سوچیں کہ آپ کو اس شعبے میں کام نہیں کرنا ہے۔ لہذا آپ ایسی نوکریوں کے لیے درخواست دینا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسا ہی ہوتا ہے اگر آپ کھیلوں کے ٹرائل میں ناکام ہوجائیں یا ناشر آپ کی کتاب کا پہلا مسودہ مسترد کر دے۔
ان کے خیال میں ’اپنی کوتاہی کی وضاحت کرنا یا دوسروں کو قصوروار ٹھہرانا آسان ہوتا ہے۔ مگر خود کو سمجھانا کہ دراصل پلان سی ہی اصل میں پلان اے ہونا چاہیے تھا، مشکل ہے۔‘
ایسجسٹاڈ کا یہ دعویٰ نہیں کہ ہمیں ہمیشہ اپنے مقاصد کے ساتھ جڑے رہنا چاہیے۔ بلکہ یہ اچھا ہوسکتا ہے اگر ہم اپنی خوشی اور حالات کو جان کر ’یوٹرن‘ لیں۔ مگر کٹھے انگوروں والی مثال سے ہم قبل از وقت اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھ پاتے کہ ہم کیسے مزید سیکھ کر خود کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانا
مایوسی کے ذرائع کو اہمیت نہ دے کر ہمارا ذہن ناکامی سے تعمیری انداز سے نہیں نمٹ پاتا۔ اسی طرح ناکامی سے نمٹنے کا ایک طریقہ ریت میں سر دبا لینا ہے۔ اس سے آپ غم کا سبب بننے والی صورتحال سے اپنی توجہ ہٹا لیتے ہیں تاکہ اس کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
محققین کو ہمیشہ سے یہ معلوم رہا ہے کہ ہم بُری خبر سے منھ موڑ لیتے ہیں۔ مثلاً معاشی ماہرین کو پتا ہے کہ جب سرمایہ کار کی دولت بڑھنے کے بجائے گِر رہی ہو تو وہ اپنی مالی حیثیت کا جائزہ نہیں لیتے۔
اس نظریے کو اوسٹریج ایفیکٹ یعنی شتر مرغ کی حکمت عملی کہا جاسکتا ہے۔ لارین اسکریس فنکلر کی تحقیق کے مطابق ہم منفی معلومات کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں مینجمنٹ اور آرگنائزیشنز کے مضامین کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اس کے ساتھ محقق ایلٹ فشباک نے کام کیا ہے جو یونیورسٹی آف شکاگو بوتھ سکول آف بزنس میں بیہیویورل سائنس اور مارکٹنگ کی پروفیسر ہیں۔
ان کی تحقیق ’فیسنگ فیلیئر گیم‘ میں شرکا سے خاص سوال کیے جاتے ہیں اور پوچھا جاتا ہے کہ وہ دو چیزوں میں سے کس چیز کا انتخاب کریں گے۔ مثلاً وہ قدیم علامتیں دکھا کر پوچھا جاتا ہے کہ ان میں سے کون سی علامت کسی جانور کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
شرکا کی جانب سے دیے گئے جوابات کے بعد انھیں بتایا جاتا ہے کہ ان کا جواب درست تھا یا غلط۔ چونکہ اس میں صرف دو طرح کے جواب، مثبت یا منفی، ہوتے ہیں لہذا خود غلطی سے سیکھ کر اگلے ٹیسٹ میں بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ ہر علامت یاد رکھنے اور صحیح پہچاننے پر انھیں ڈیڑھ ڈالر کا انعام بھی ملتا ہے۔
اکثر لوگوں کو صحیح جواب یاد رہے تھے۔ تاہم وہ اپنے غلط جواب سے سیکھنے میں ناکام رہے۔ محققین کے مطابق ’لوگ اکثر اپنی غلطی سے نہیں سیکھ پائے۔‘
اس کی وجہ جاننے کے لیے محققین نے شرکا کو دوسروں کے جواب دکھائے۔ یعنی دوسروں کے غلط جواب بتائے گئے تاکہ وہ کھلاڑیوں کے غلط جواب بعد میں یاد رکھ سکیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کو دوسروں کے غلط جواب یاد رہ گئے۔ یعنی خود غلط ہونے سے جذبات مجروح ہوئے اور یہ سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ بنا۔
اپنی غلطی سے سیکھنے کے بجائے شرکا کی توجہ ہٹ گئی اور وہ اپنی یادداشت میں اسے محفوظ نہ کر سکے کہ اگلی بار اس کی تصحیح کی جاسکتی ہے۔
ان محققین نے کئی شعبوں میں اپنی تحقیق کو متعارف کرایا ہے، مثلاً ٹیلی مارکیٹرز کے ایک گروہ کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ اپنے پیشے کے حوالے سے مؤثر معلومات یاد رکھ سکیں۔ یہاں بھی ہر بار شرکا صرف اپنی کامیابی یاد رکھ سکے مگر اپنی غلطیوں سے کچھ نہ سیکھ سکے۔
فشباک کی رائے میں ان نتائج سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ذاتی نشو نما کے لیے یہ کتنا بڑا چیلنج ہے۔ ’مجھے ہنسی آتی ہے کہ ہم یہ تحقیق کافی عرصے سے کر رہے ہیں مگر ہر بار نتائج افسوس ناک ہوتے ہیں۔‘
تعمیری سوچ کی ناکامی
خوش قسمتی سے اس تحقیق سے ہمیں ایک حکمت عملی ملتی ہے کہ ہم کیسے ناکامی سے جڑی جذباتی رکاوٹوں سے نمٹ سکتے ہیں۔
اس حکمت عملی کے پہلے مرحلے کو ’خود سے فاصلہ رکھنا‘ کہتے ہیں۔ مثلا آپ خود سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ ’ڈیوڈ ناکام کیوں ہوا؟‘ نہ کہ ’میں ناکام کیوں ہوا؟‘۔ یونیورسٹی آف مشیگن کے ماہر نفسیات ایتھن کراس کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اس مرحلے کو جذباتی ردعمل کو محدود کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس سے ہم اپنی ناکامی کو معروضی انداز سے دیکھ سکتے ہیں۔
ہماری ناکامی سے ہماری انا کو اس قدر خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے ہم اپنی مایوسی کی وجوہات کا بہتر انداز میں جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں دفاعی انداز میں رہنا نہیں پڑے گا یا پورے نظام پر عدم اعتمار کا اظہار نہیں کرنا پڑے گا۔
ایک دوسری حکمت عملی میں محققین کو معلوم ہوا کہ کسی دوسرے شخص کی مدد کرنے سے ہماری ذاتی انا میں مثبت تبدیلی آتی ہے اور لوگ پھر اپنی ناکامی کا ادراک کرنے میں زیادہ پُراعتماد محسوس کرتے ہیں۔ فشباک کے مطابق ’اس سے لوگ اپنے تجربے کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھیں کیا سبق ملا ہے۔‘
مثلاً جن لوگوں کو وزن کم کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا انھوں نے اپنی ناکامیوں سے سیکھ کر دوسروں کو ایسے مشورے دیے کہ وہ اپنے ڈائٹ پلان کے ساتھ کیسے جڑے رہ سکتے ہیں۔ اس طرح وزن گھٹانے کے اپنے مقصد کے حصول کے لیے وہ زیادہ پُراعتماد بن گئے۔
اسی طرح سکول کے بچوں سے پوچھا گیا کہ وہ ادبی میدان میں دوسروں کی کیسے حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔ اپنے سے چھوٹے بچوں کی حوصلہ افزائی کر کے ان کی اپنی قابلیت اور کارکردگی میں اضافہ ہوا۔
ایسجسٹاڈ کے مطابق ناکامیاں زندگی کا حصہ ہیں۔ ’اگر آپ کبھی ناکام نہیں ہوتے تو اس کا مطلب ہے آپ کے مقاصد بہت چھوٹے ہیں۔‘
مایوسی کا مقابلہ کر کے اور ماضی سے سبق سیکھ کر آپ کامیابی کی راہ پر آسانی سے چل سکتے ہیں۔