انڈین مسیحیوں کو تبدیلی مذہب کے معاملے پر حملوں یا قید کا خوف
پادری سومو اوارادھی کو اس وقت ایک دھچکا لگا جب وہ اکتوبر میں ایک اتوار کی صبح انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کے شہر ہُبالی میں واقع اپنے چرچ میں داخل ہوئے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا، ’اندر لوگ تھے جو ہندو مذہبی مناجات پڑھ رہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے پولیس کو بلایا مگر جب وہ پہنچی تو وہاں موجود لوگوں نے ان ہی پر ایک ہندو کو زبردستی کرسچن بنانے کا الزام لگا دیا۔ پادری کو ’کسی فرقے کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے‘ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور ضمانت پر رہائی سے قبل انھیں 12 دن جیل میں گزارنا پڑے۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ ایونجلیکل فیلوشپ آف انڈیا (ای ایف آئی) کی ایک رپورٹ کے مطابق اس برس جنوری سے نومبر تک کرناٹک میں مسیحیوں کو ڈرانے دھمکانے کے 39 واقعات پیش آ چکے ہیں۔
ان میں سخت گیر ہندو تنظیموں کے ارکان کی جانب سے پادریوں پر مبینہ حملے، اور انھیں زبردستی اپنے مذہبی اجتماعات منعقد کرنے سے روکنا شامل ہے۔
ہندو اکثریت والے انڈیا میں مسیحی ایک چھوٹی اقلیت ہیں۔
کرسچن نمائندوں کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں اکتوبر سے اضافہ ہوگیا ہے جب ریاست اور مرکز میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اعلان کیا کہ وہ ریاست کرناٹک میں تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیے ’سخت‘ قانون بنانے والی ہے۔
ناقدین موجودہ مسودۂ قانون (ڈراف) کو ’ڈریکونیئن‘ (سخت ظالمانہ) قرار دیتے ہیں۔ اس میں ان لوگوں کے لیے 10 سال تک کی قید کی سزا تجویز کی گئی ہے جو کسی کو ’زبردستی‘، ’دھوکہ دہی‘ یا شادی کے ذریعے مذہب تبدیل کروانے میں ملوث پائے جائیں۔ اور ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنے والوں کو تمام سرکاری مرعات سے ممکنہ طور پر محروم کیا جانا بھی شامل ہے۔
ایسے ہر فیصلے کی چھان بین کی جائے گی کیونکہ مذہب تبدیل کرنے والوں کو ایسا کرنے سے دو ماہ قبل متعلقہ حکام کو آگاہ کرنا ہوگا، اور یہ حکام ایسا کرنے کی اجازت دینے سے پہلے اس کی وجوہات کی تفتیش کریں گے۔
مسیحی رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ اس مجوزہ قانون سے سخت گیر ہندو شہہ پا کر ان کی برادری کو مزید نشانہ بنائیں گے۔
بینگلور کے آرچ بشپ پیٹر مچاڈو نے بی بی سی ہندی کو بتایا، ’مسودۂ قانون کی منظوری کے بعد ہمیں مزید ایذا رسانی اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
یہ مسودۂ قانون اس قانون کی طرز پر مرتب کیا گیا ہے جو گزشتہ برس شمالی ریاست اتر پردیش میں منظور کیا گیا تھا اور جہاں بی جے پی کی ہی حکومت ہے۔ وہاں اس قانون کا نام نہاد مقصد ’لو جہاد‘ کو روکنا ہے۔ یہ اصطلاح ان مسلمانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو ہندو عورتوں سے شادی کرتے ہیں، اور سخت گیر ہندوؤں کے مفروضے کے مطابق ایسے مسلمان ہندو عورتوں کو محبت کا جھانسا دے کر مسلمان بنا لیتے ہیں۔ پرِنٹ نیوز ویب سائٹ کے مطابق اس قانون کی منظوری کے بعد اس کے تحت زبردستی مذہب تبدیل کروانے کے 100 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔
پادری وجےیش لال ای ایف آئی کے جنرل سکریٹری ہیں۔ انڈیا بھر میں 65 ہزار گرجوں کا انتظام اسی تنظیم کے پاس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرناٹک میں وہ ہی طریقۂ کار اپنایا گیا ہے جو اتر پردیش میں قانون کی منظوری سے پہلے اختیار کیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں، ’آپ ایک برادری پر دباؤ ڈالتے ہیں، اسے پچھاڑ دیتے ہیں، اس کے خلاف تبدیلی مذہب کے الزامات لگاتے ہیں اور پھر ایک ایسا قانون پاس کر دیتے ہیں جو خلاف آئین ہے۔‘
انڈیا میں تبدیلی مذہب ایک متنازع موضوع ہے۔ سخت گیر ہندو طویل عرصے سے یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ کرسچن مشنری غریب ہندوؤں کو پیسے یا دوسرے لالچ دے کر زبردستی مذہب تبدیل کرواتے ہیں۔ مشنری ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
مگر دلت (جنھیں پہلے اچھوت کہا جاتا تھا) ہندو مت میں ذات پات کے جابرانہ نظام سے جان چھڑانے کے لیے مسیحی مذہب اختیار کرتے رہے ہیں۔ قانوناً تحفظ حاصل ہونے کے با وجود اس برادری کو نہ صرف امتیازی سلوک بلکہ تشدد کا بھی سامنا رہا ہے۔
اکثر یہ کشیدگی تشدد میں بدل جاتی ہے۔ 1999 میں ریاست اوڑیسہ میں مسیحی اداروں پر حملوں کی ایک لہر کے دوران آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ایک مسیحی اور ان کے دو بیٹوں کو اس وقت قتل کر دیا گیا تھا جب وہ ایک جیپ کے اندر سو رہے تھے۔
کرناٹک میں پادری اور دوسرے مسیحی پیشوا کہتے ہیں کہ انھیں اپنے مستقبل سے ڈر لگنے لگا ہے۔ پہلے پہل تو یہ حملے چند مخصوص علاقوں تک محدود تھے، مگر اب ریاست کے 31 میں سے 21 اضلاع میں کرسچنوں کے خلاف کم سے کم ایک حملہ ہو چکا ہے۔
بیلاگوی ضلع میں پادریوں کی انجمن کے صدر پادری ٹامس ٹی کا کہنا ہے کہ ’میں یہاں 40 برس سے رہ رہا ہوں مگر مجھے نہیں معلوم کہ مذہب کی تبدیلی کے بارے میں یہ الزامات اب کیوں لگائے جا رہے ہیں۔ یہاں کی ہندو برادری میں ہمارے بہت سے دوست ہیں۔‘
پادری ٹامس نے بتایا کہ نومبر میں پولیس نے غیر رسمی طور پر ان سے کہا کہ سخت گیر ہندو گروہوں کے حملوں سے بچنے کے لیے دعائیہ اجتماعات منعقد نہ کیے جائیں۔
ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ پولیس تھانوں نے انفرادی طور پر پادریوں کو احتیاط برتنے کا مشورہ دیا ہے مگر اس بارے میں کسی طرح کی کوئی ’ریاستی پالیسی‘ موجود نہیں ہے۔
بیلاگوی چرچ کے فادر فرانسس ڈی سوزا نے گزشتہ ہفتے دعوٰی کیا تھا کہ ایک شخص نے ان پر تلوار سے حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہیں اور اعلیٰ پولیس حکام نے فادر ڈی سوزا کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’مگر میں اب بھی خوفزدہ ہوں۔‘
برادری کے نمائندے تبدیلئ مذہب کے قانون کی ضرورت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انڈیا کا دستور سب کو ’مذہب کی ترویج‘ کا حق دیتا ہے۔
ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو مذہب کی تبدیلی پر روک لگاتا ہو، اور ماضی میں اس طرح کے قوانین متعارف کروانے کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ مگر چند سالوں سے مختلف ریاستوں نے اپنے طور پر مذہب کی تبدیلی کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے قوانین وضع کیے ہیں۔
بی جے پی کے رکن اسمبلی اروِند بلاد، جنھوں نے پادری سومو کے خلاف ایک بڑے احتجاجی جلوس کی قیادت کی تھی، سوال اٹھاتے ہیں کہ صرف مسیحیوں کو مجوزہ قانون کا خوف کیوں ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری اقلیتی برادریاں جیسا کہ مسلمان، سکھ یا جین اس بارے میں بالکل فکر مند نہیں ہیں۔‘
وزیر اعلی بسواراج بومئے کا کہنا ہے کہ اس قانون سے صرف ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو لوگوں کو دوسرا مذہب اپنانے کا جھانسا دیتے ہیں۔
مگر آرچ بشپ مچاڈو کا کہنا ہے کہ حملوں اور مجوزہ قانون کے بارے میں بحث کا واضح طور پر ہدف کرسچن ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ’حکومت ہمارے ساتھ اچھا نہیں کر رہی ہے۔‘
سماجی مبصر اور ریٹائرڈ میجر جنرل ایس جی ومباٹکرے کا کہنا ہے کہ لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر مجھے آپ سے شکایت ہو تو میں آپ کو مار پیٹ نہیں سکتا۔ آپ پر حملے کا مجھے کوئی حق نہیں ہے چاہے آپ نے جو کچھ بھی کیا ہو۔ مگر آج کل غیر معمولی بات معمول بنتی جا رہی ہے۔‘