انڈین حراستی مرکز میں قید پانچ ’پاکستانی‘ کیسے ہلاک ہوئے؟
خالد نہیں رہا؟ کیا آپ یقینی طور پر ایسا کہہ رہے ہیں؟‘ یہ رد عمل تھا حیرت زدہ ماہر نفسیات ڈاکٹر مہیش تلوانی کا جب بی بی سی کی ٹیم پچھلے ماہ خالد نامی ایک ذہنی مریض کے بارے میں بات کرنے کے لیے ان کے ہسپتال پہنچی۔
ریاست گجرات کے ضلع کچھ کے شہر بھوج میں واقع ایک حراستی مرکز میں، جسے جوائنٹ انٹیروگیشن سینٹر یا جے آئی سی کے نام سے جانا جاتا ہے، گذشتہ تین ماہ میں ذہنی توازن کھوئے ہوئے پانچ مبینہ پاکستانی شہریوں کی موت ہوئی ہے۔
خالد کی موت 13 جنوری کو ہوئی جو ان پانچ ہلاکتوں میں سب سے آخری تھی۔
ڈاکٹر تلوانی طویل عرصے سے خالد اور جے آئی سی کی حراست میں دیگر مبینہ پاکستانی افراد کا علاج کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ خالد کو کافی اچھی طرح سے جانتے تھے۔
‘میں یہ سن کر حیران ہوں. آپ کو معلوم ہے کہ میں کیوں حیران ہوں؟ کیونکہ وہ بہت ہی جوان تھا۔ اس کی عمر صرف 40 سال تھی۔‘
انڈین حکام کا دعویٰ ہے کہ جب ان پانچ افراد کو حراست میں لیا گیا تھا تب یہ سبھی افراد ذہنی طور پر غیر مستحکم تھے اور انڈیا پاکستان بین الاقوامی سرحد کے بہت قریب تھے۔ حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سبھی گرفتاری سے قبل جن بیماریوں میں مبتلا تھے، انہی کی وجہ سے فوت ہوئے یا قدرتی اموات کا شکار ہوئے ہیں۔
بی بی سی آزادانہ طور پر اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکی۔
یہ حراستی مرکز ضلع کچھ کے ایس پی سوربھ سنگھ کے دائرہ کار میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ وہ قیدی تھے جنھیں بی ایس ایف (بارڈر سیکیورٹی فورس) نے سرحد پر مختلف مقامات سے پکڑا تھا، جو سرحد کے بہت قریب آئے تھے یا وہ شاید سرحد عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ لوگ پچھلے 10 سے 12 سال پہلے پکڑے گئے تھے۔‘
خالد کی موت سے قبل 60 سالہ کریم 11 جنوری 2021 کو فوت ہوئے تھے۔ وہ 2013 سے جے آئی سی کی حراست میں تھے۔ 32 سالہ جاوید یکم دسمبر 2020 کو فوت ہوئے۔ 45 سالہ منیر 19 نومبر 2020 کو انتقال کر گئے۔ وہ 2014 سے جے آئی سی کی حراست میں تھے۔ 50 سالہ پرویز 04 نومبر 2020 کو فوت ہوئے۔ انھیں 2016 میں کچھ سرحد سے حراست میں لیا گیا تھا۔
جے آئی سی کے افسران کا دعویٰ ہے کہ منیر نامی شخص کو کووڈ-19 تھا۔ افسران کے مطابق ان پانچوں افراد کو سانس لینے میں دشواری تھی۔
بی بی سی نے ان افراد کے نام بدل دیے ہیں کیوں کہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان کہ اہل خانہ کو ان کی موت کی اطلاع دی بھی گئی ہے یا نہیں۔
ان میں سے تین کی لاشیں حراستی مرکز سے 250 کلومیٹر دور گجرات کے شہر جام نگر کے ایک مردہ خانے میں رکھی گئی ہیں۔ اگرچہ انڈین افسران کا کہنا ہے کہ پرویز نامی شخص کی لاش کو پاکستان واپس بھیج دیا گیا ہے، تاہم پاکستانی حکومت نے بی بی سی سے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
خالد بھی زیرِ علاج تھے مگر اس بات کا تعین نہیں ہو سکا تھا کہ وہ کس نفسیاتی بیماری میں مبتلا تھے۔ ان کی موت 13 جنوری کو بھوج شہر کے ایک ہسپتال میں ہوئی تھی۔ انھیں 2009 میں کچھ کے سرحدی علاقے حراست میں لیا گیا تھا اور ذرائع اور میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ پاکستان میں صوبہ سندھ کے علاقے بدین کے رہنے والے تھے جو کہ بین الاقوامی سرحد سے فقط چند کلومیٹر دور ہے۔
انڈین حکام نے ان افراد کے آبائی علاقوں کی معلومات کو خفیہ قرار دے کر بتانے سے انکار کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستانی حکومت کو ان کی اموات کی اطلاع دی جا چکی ہے لیکن انڈیا میں پاکستانی سفارت خانے اور اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے بھی اس حوالے سے جواب نہیں دیا۔
ایسی صورت میں اگر کسی شخص کا پتا یا شناخت معلوم نہ ہو سکے تو پاکستانی حکومت کی جانب سے لاش قبول نہ کرنے پر انڈین حکومت لاش کو انڈیا میں ہی دفن کر دیتی ہے۔
مثلاً اکتوبر 2019 میں اسی حراستی مرکز میں بند ایک اور ذہنی طور پر بیمار اور معذور مبینہ پاکستانی شخص کی موت ہوئی تھی۔ انڈین وزیر داخلہ کے مطابق پاکستان ان کی شہریت کی تصدیق نہیں کر سکا اور ان کی لاش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا انھیں بھوج کے ہی ایک قبرستان میں مذہبی رسومات کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔
انڈیا میں قید پاکستانی شہریوں کی 2019 جنوری میں ایک فہرست حکومتِ پاکستان کو دی گئی تھی۔ اس فہرست کے مطابق انڈین قید خانوں میں 249 پاکستانی شہری بند ہیں اور پاکستانی حراست خانوں میں 537 اںڈین شہری قید ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے کوشاں ایک تنظیم آغازِ دوستی ذریعے حاصل کی گئی یہ فہرست ظاہر کرتی ہے کہ ان میں زیادہ تر مچھیرے ہیں جنھیں گجرات اور سندھ کے قریب دونوں ممالک کی بحری فورسز نے حراست میں لیا تھا۔
اگرچہ دونوں ملکوں کے ماہی گیروں کا گجرات اور سندھ کے ساحل کے متنازعہ خطے سر کریک خطے سے گرفتار ہونا عام بات ہے، ان پانچوں ہلاک شدہ افراد کو گجرات اور سندھ کی زمینی سرحد سے حراست میں لیا گیا تھا۔
گجرات میں بارڈر رینجر کے سابق انسپکٹر جنرل اے کے جڈیجہ نے بتایا کہ پہلے انڈیا پاکستان کی بین الاقوامی سرحد پر سمگلنگ عام تھی۔
‘سونا چاندی اور کھانے کی چیزوں کی بھی، سمگلنگ ہوتی تھی۔ ایک زمانے میں پان کے پتے کی بھی سمگل ہوتے تھے۔ اس وقت زمینی سرحد پر کوئی تاربندی نہیں تھی، بس ستون تھے۔ مگر حالات اب کافی بدل چکے ہیں۔ چند کلومیٹر کے علاوہ انڈیا نے پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد پر خار دار تار لگا دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سرحد پر نگرانی بھی شدید ہوئی ہے جس کی وجہ سے غیر قانونی یا غلطی سے سرحد عبور کرنے کے واقعے بہت کم ہو گئے ہیں۔‘
اے کے جڈیجہ نے کہا ‘میرے خیال سے دونوں طرف سے خاص طور پر ذہنی معذور افراد سرحد کے قریب گھومتے تھے یا اسے عبور کرتے تھے اور پکڑ ے جاتے تھے۔‘
انھوں ںے بتایا کہ جے آئی سی میں ذہنی طور پر معذور افراد مقامی علاقے یا زبان سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔
انڈیا پاکستان سرحد کے قریب واقع خطہ، خاص طور پر اںڈین سرحد کے اندر کا علاقہ، کافی دشوار گزار ہے اور اس کی توسیع اور پانی کی کمی عام لوگوں کو عموماً گمراہ کر دیتی ہے جس کی وجہ سے سمت کھو دینے کا خطرہ رہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ذہنی طور پر غیر مستحکم ہے تو اس کے لیے یہ خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
غلطی سے یا غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے یا غلط کاغذ استعمال کر کے انڈیا میں داخل ہونے والے ایسے 100 سے زائد افراد جے آئی سی میں زیر حراست ہیں۔ مختلف عہدیداروں کے مطابق ان میں سے مبینہ طور پر تقریباً 20 پاکستانی ہیں اور ان میں کم از کم آٹھ ذہنی مریض ہیں۔
دیگر کئی ممالک کے شہری بھی جے آئی سی کے حراست میں ہیں۔
جے آئی سی میں تقریباً 22 ایجنسیاں پوچھ گچھ کرتی ہیں۔ اور اسی طرح کی تفتیش کی بنیاد پر انڈین حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ پانچ ہلاک افراد پاکستانی شہری تھے اور ذہنی طور پر غیر مستحکم تھے۔
پاکستان کے ساتھ انڈیا کی سرحد کا زیادہ تر حصہ بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے زیر نگرانی ہے۔ اس کا انٹیلیجنس ونگ ٹیکنالوجی کے استعمال سے زمینی سرحد عبور کرنے والوں کا پتا لگاتا ہے۔ پھر انھیں ڈھونڈنے اور پکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
لیکن انڈین سرحد کے اندر کسی فرد کو غیر ملکی یا اس کی شہریت ثابت کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کی صورت میں سکیورٹی فورسز اور خفیہ دستے دوسرے طریقے استعمال کرتی ہیں جس سے ضروری نہیں کہ مکمل طور پر یقینی نتیجے ملے۔ مثلاً سرحد سے گرفتار افراد کی شناخت کے لیے سکیورٹی اہلکار ان کو مختلف ممالک کے کرنسی نوٹ دکھاتے ہیں۔
انسپکٹر گلاب سنگھ جڈیجہ پچھلے سال ریٹائر ہونے سے قبل 15 سال تک جے آئی سی کے سربراہ رہے۔ انھوں نے ذہنی طور پر بیمار یا معذور افراد کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کسی کو نہیں شناخت کر سکتے ہیں لیکن آپ کرنسی کی شناخت کر سکتے ہیں۔ ہم تمام کرنسیاں (ان کے سامنے) رکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہم (مختلف) قومی پرچم بھی ان کے سامنے رکھتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اس کی نشاندہی کر لیتے ہیں۔‘
اے کے جدیجہ کہتے ہیں کہ ‘پکڑے گئے شخص کے آنے کی سمت بھی سکیورٹی اہلکاروں کو ان کی قومیت کی نشاندہی کرنے میں مدد کرتی ہے۔ بارڈر پر پگی (کتے کی نسل) ہوتے ہیں، وہ پیر کے نشانات کو ڈھونڈتے ہیں کہ یہ شخص کون سے علاقے سے آیا ہے۔ زبان کا مترجم بتاتا ہے کہ یہ کون سی برادری سے ہے۔ اس کے علاوہ متعدد ایجنسیوں کے ذریعہ تفتیش کے علاوہ ان کے ذہنی توازن خراب ہونے یا جاسوس ہونے کی تصدیق کرنے کے لیے ماہر نفسیات سے مشورہ لیا جاتا ہے۔‘
یہی عمل ان ہلاک افراد کے ساتھ بھی انھیں حراست میں لینے کے بعد کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر تلوانی کے مطابق اس کے لیے ایک آسان پروٹوکول ہے۔ ‘جاسوس شخص انکنسسٹنٹ ابنارمل برتاؤ کرے گا اور حقیقی مریض کنسسٹنٹ ابنارمل سلوک کرے گا۔ نارمل شخص کا برتاؤ اچھا ہو گا اور یہ ایک سمجھدار فرد کی طرح ہو گا۔ اور بیمار شخص میں ڈل ایکپریشن ہو گا اور ایک نارمل انسان کا ایکپریشن اسے بے نقاب کر دے گا۔‘
انڈین پولیس کے ایک سابق عہدیدار نے ایک غیر معمولی طریقے کی نشاندہی کی جس کا استعمال بعض اوقات جاسوسوں کی پہچان یا ذہنی توازن کھوئے ہوئے افراد کی تصدیق کے لیے کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘میڈیکل سائنس میں اتنا سب کچھ ہے کہ آپ کو ایک گولی دے دیں گے، اگر آپ پاگل ہیں تو آپ خاموش ہو جائیں گے۔ اگر پاگل نہیں ہوئے تو آپ کا پیٹ خراب ہو جائے گا، الٹی ہو جائے گی، معلوم ہو جائے گا کہ آپ ناٹک کر رہے ہیں۔‘
جے آئی سی سے وابستہ متعدد افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان افراد کی گرفتاری سے قبل ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی اور یہ افراد ایسے حالات میں تھے کہ انھیں اپنی جسمانی ضروریات کا بھی اندازہ نہیں ہوتا تھا۔
اس حراستی مرکز سے وابستہ افسران کا کہنا ہے کہ ‘زیادہ کھانا دو تو زیادہ کھا جاتے تھے۔ کم دو تو کم کھاتے تھے۔ جتنا دیں گے اتنا چلے گا، دوسری بار مانگیں گے نہیں۔ دوسرے لوگ بھی کھانا دے دیتے تھے، پھر ان کا پیٹ خراب ہو جاتا تھا، اور وہ اپنے کپڑے بھی خراب کر لیتے تھے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ‘اگر وہ موجودہ موسم سرما میں رات کے وقت پیشاب یا پخانہ کرتے تھے تو اس کے بارے میں اہلکاروں کو بتانے کے لیے وہاں کوئی موجود نہیں ہوتا تھا کیوں کہ حراست میں ان کے ساتھی سوئے ہوئے ہوتے تھے۔ رات بھر گیلے ہونے کے وجہ سے انھیں سردی لگ جاتی تھی۔‘
ہلاک ہونے والے ان پانچ افراد میں سے منیر نامی شخص کے علاوہ دیگر چار افراد کو بھی مرنے سے پہلے سانس لینے میں تکلیف تھی۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ انھیں سانس کی شکایت سردی لگنے کے وجہ سے تھی یا کووڈ کے وجہ سے۔ تاہم پولیس اور ہسپتال کے اہلکاروں نے ان افراد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ دینے سے انکار کر دیا۔
جے آئی سی کے منتظمین اور اس سے متعلق دیگر افسران تمام افراد کی موت کی وجہ کورونا بتانے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جے آئی سی میں پولیس اہلکار اور قیدی سبھی ساتھ رہتے ہیں اور کورونا ہونے کے صورت حال میں اس کی زد میں سبھی آتے۔
اس حراستی مرکز کا جائزہ لینے کی بی بی سی کی درخواست کو اہلکاروں نے یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں تک کہ وہاں کسی اہلکار کے ریٹائرمنٹ کے لیے منعقد تقریب میں بھی فوٹو لینا غیر ممنوع ہے۔
ایک مختصر عرصے میں پانچ اموات کئی سوال پیدا کرتی ہیں، لیکن اہلکار دعویٰ کرتے ہیں کہ ان قیدیوں کے ساتھ نرم دل برتاو کیا جاتا تھا۔ جے آئی سی کے سابق اور موجودہ افسران کا کہنا ہے کہ وہ اکثر قیدیوں کے ساتھ کرکٹ، والی بال اور کیرم جیسے کھیل کھیلتے ہیں۔
گلاب جڈیجا نے بتایا کہ وہ کبھی کبھار ذہنی معذور قیدیوں سمیت سبھی زیر حراست افراد کو موسیقی کے لیے بٹھاتے تھے، ‘مجھے میوزک کا شوق تھا اور سب کو نچاتا تھا۔ وہ سب ڈانس کرتے تھے اپنے طریقے سے۔ وہ بول نہیں پاتے تھے، لیکن سنگیت کی زبان سمجھتے تھے۔‘
انھوں نے قیدی خالد کو اپنی دھنوں پر ناچتے ہوئے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ‘خوش ہو جاتا تھا، پھر مجھ سے بسکٹ کا پیکٹ مانگتا تھا تو میں اسے پارلے جی دیا کرتا تھا۔‘
ان ہلاک افراد میں سے خالد، جو کہ جولائی 2009 سے حراست میں تھے، سب سے طویل عرصے تک جے آی سی میں قید تھے۔
گلاب جڈیجہ نے دعویٰ کیا کہ انڈین حکومت نے خالد کی فیملی کے افراد کا پتا لگانے کے لیے پاکستانی ٹی وی چینلوں پر بھی اشتہار دیا تھا۔ یہ افراد علاج کے لیے ڈاکٹر تلوانی سے اکثر ملتے تھے اور وہ ان سبھی افراد کو اچھی طرح سے جانتے تھے۔ ‘جن لوگوں کو آپ ہر مہینے دیکھتے ہوں، ان سے آپ کا ایک طرح کا لگاؤ ہو جاتا ہے۔‘
‘خالد کو تو میں ذاتی طور پر اچھی طرح جانتا تھا۔ ہم سبھی نے اس کے لیے بہت محنت کی تھی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ‘وہ بولتا نہیں تھا۔ پھر ہم نے اسے احمد آباد کے ہسپتال میں بھیجا تھا۔ وہاں تھوڑا ٹھیک ہوا۔‘
لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ خالد کی موت کی خبر سن کر بہت حیران ہیں۔ ‘وہ جوان تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آخرکار اس کے ساتھ کیا ہوا۔‘