انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں غیر مقامی لوگوں اور فوجیوں کو ووٹنگ کا حق دینے پر سیاسی ماحول گرم
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں غیر مقامی فوجیوں، مزدوروں اور ملازمین کو ووٹنگ کے حقوق دینے کے معاملے پر سیاسی ہنگامہ شدید ہوتا جا رہا ہے۔
سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے پیر کے روز کُل جماعتی اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ ’جموں و کشمیر میں رہنے والے کشمیریوں، ڈوگروں، سکھوں اور دوسرے طبقوں کے لوگوں کی شناخت خطرے میں پڑ گئی ہے‘۔
اس کل جماعتی کانفرنس میں پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی، کانگریس کے وقار رسول، سی پی آئی ایم کے محمد یوسف تاری گامی، شِیوسینا کے منیش ساہنی اور دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
واضح رہے شِیوسینا دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت ہے جس نے مودی حکومت کے ذریعہ 370 کی آئینی دفعہ ہٹانے کا خیرمقدم کیا تھا۔ تاہم اس معاملے پر جماعت کے مقامی رہنما کا کہنا تھا کہ ’جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ ہمارے دوسری جماعتوں سے اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن غیرمقامی شہریوں کو یہاں کی سیاست، تجارت اور ملازمت میں شریک کرنا عوام کے خلاف قدم ہے اور اس میں انصاف کی خاطر ہم سب لوگ ایک ساتھ ہیں‘۔
فاروق عبداللہ نے اعلان کیا کہ ان کا سیاسی اتحاد سپریم کورٹ کا بھی دروازہ کھٹکھٹائے گا اور بھارت کی سبھی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو کشمیر اور جموں میں مدعو کرکے ان کے سامنے یہاں کی صورتحال رکھے گا۔
انھوں نے کہا کہ اس اعلان نے نہتے مزدوروں کی جان کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ’یہاں تو سیاست دانوں کے لیے کافی سکیورٹی نہیں ، بچارے عام مزدوروں اور ملازمین کا تحفظ کیسے ہوگا۔ یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ میں لیفٹنٹ گورنر کو فون پر بتایا کہ ہمیں بلائیں ہم سمجھا دیں گے کہ یہ فیصلہ معقول نہیں ہے‘۔
یا بی جے پی کو فائدہ ہوگا؟
فاروق عبداللہ نے پیر کے روز ہوئی کل جماعتی میٹنگ کے بعد کہا کہ اس فیصلے کو چیلنج نہ کیا گیا تو ’یہاں باہر والوں کی اسمبلی ہوگی، یہ ہمیں کسی بھی قیمت پر منظور نہیں ہے‘۔
ادھر پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے پیر کے روز کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر کشمیر میں نہیں بلکہ نئی دلی میں بھارتی پارلیمان کے باہر بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’قانون ہمارے لیے خطرہ نہیں لیکن حکومت کے عزائم ہمارے لیے خطرہ ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومتی وضاحت کو نہ تسلیم کرتے ہیں نہ مسترد۔ ’ہم انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اپنائیں گے۔ اگر یہاں کی انتخابی ڈیموگرافی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو ہم بھوک ہڑتال کریں گے‘۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ کل جماعتی اجلاس سے کچھ ٹھوس نکل آتا ہے تو وہ اُس پروگرام کی حمایت بھی کریں گے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے جموں کشمیر کے چیف الیکشن افسر ہردیش کمار نے اعلان کیا تھا کہ کشمیر میں رہنے والے غیر مقامی طالبعلم، مزدور، ملازم اور فوجی اہلکاروں کو بھی اب انتخابات کے دوران ووٹ ڈالنے کا حق ہو گا۔
ہردیش کمار نے کہا کہ دفعہ 370 ہٹ جانے کے بعد اب وہ لوگ بھی ووٹ ڈال سکیں گے جو کبھی ووٹ نہیں ڈال سکتے تھے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ عمل دہائیوں سے پورے انڈیا میں جاری تھا لیکن جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی وجہ سے یہاں نافذ نہیں ہو پایا تھا۔
’بہت سارے نوجوان فوج میں ہیں۔ وہ مختلف ریاستوں میں تعینات ہیں۔ اُن کو یہ آپشن حاصل ہے کہ وہ جہاں تعینات ہیں وہ وہیں پر ووٹر لِسٹ میں اندراج کروا سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح یہاں جو فوجی یا فورسز کے اہلکار تعینات ہیں وہ یہاں ووٹر لسٹ میں اندراج کر کے ووٹ کا حق یہیں پر استعمال کر سکتے ہیں۔‘
حالیہ حکمنامے کے مطابق ایسے کسی بھی ووٹر کو ’سروس ووٹر‘ کہا جاتا ہے۔
واضح رہے 5 اگست 2019 کو انڈین پارلیمان نے ’جموں کشمیر تنظیمِ نو‘ بل منظور کیا تو اس کے مطابق جموں کشمیر کا عوامی نمائندگی قانون منسوخ ہو گیا۔ اُس قانون کے مطابق یہاں کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے یا الیکشن لڑنے کے لیے جموں کشمیر کا مستقل باشندہ ہونا لازمی تھا۔ اب انڈیا کے وفاقی قانون برائے عوامی نمائندگی کو پورے ملک کی طرح جموں کشمیر میں بھی نافذ کیا گیا ہے۔
سیاسی ہنگامہ
دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت اور بی جے پی کی سابق اتحادی شیو سینا نے اس اعلان کے خلاف جمعے کو جموں میں احتجاجی ریلی نکالی تھی۔
اس موقع پر پارٹی کی جموں کشمیر شاخ کے سربراہ منیش ساہنی نے کہا کہ ’لوگ مودی حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ لوگوں کی بے چینی دیکھ کر بی جے پی اب یہاں کی حکومت پر قبضہ کرنے کی سازشیں کرنے لگی ہے۔‘
منیش ساہنی نے بتایا کہ غیرمقامی لوگوں کو ووٹنگ حقوق دینے سے جموں کشمیر کا کلچر اور شناخت متاثر ہوں گے۔ ’بی جے پی سیاسی مفاد کی خاطر یہاں کے لوگوں سے کھلواڑ کر رہی ہے۔‘
جموں میں ہی بعض سیاسی کارکنوں نے اس حکمنامے کی کاپی بھی احتجاج کے دوران جلا دی۔
اُدھر سرینگر میں سبھی ہندو نواز جماعتوں نے اس فیصلے کو ’عوام کُش‘ قرار دیتے ہوئے کشمیریوں کو مزید بے اختیار بنانے کی کارروائی قرار دیا ہے۔
سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ ’ایسے اقدامات سے بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ کیا بی جے پی اس قدر عدم تحفظ کا شکار ہے اسے انتخابات میں ووٹرز امپورٹ کرنے کی ضرورت ہے؟‘
سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا ’اس فیصلے کا اصل مقصد آہنی ہاتھوں سے جموں کشمیر پر حکومت کر کے کشمیریوں کو مزید بے اختیار بنانا ہے۔‘
ان کی پارٹی کے کارکنوں نے بھی سرینگر میں اس اعلان کے خلاف مظاہرہ کیا۔
یاد رہے کہ سنہ 1987 کے انتخابات میں بے تحاشا دھاندلی کا الزام لگا کہ جیتے ہوئے اُمیدواروں کو شکست یافتہ قرار دیا گیا۔ اُن ہی اُمیدواروں میں محمد یوسف شاہ بھی تھے جو بعد میں مسلح گروپ حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر بن گئے۔
اس سلسلے میں محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ نے پیر کے روز کل جماعتی اجلاس بھی طلب کیا ہے جس میں محبوبہ مفتی کے مطابق ’آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔‘
سوشل میڈیا پر ردعمل
نِتن نامی ایک شخص نے ٹویٹ کیا کہ ’25 لاکھ بھگتوں کو ووٹنگ حقوق کے ساتھ جموں کشمیر بھیجا جا رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انتخابات قریب ہیں، بی جے پی ’اِن سیکیور‘ ہے، دفعہ 370 کا خاتمہ ایک ناکامی ہے اور بی جے پی ہار رہی ہے، اسی لیے پورے ملک سے ووٹرز امپورٹ کیے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن بی جے پی کی کٹھ پتلی ہے۔‘
تاہم اس فیصلے کے حق میں بی جے پی اور مودی کے حامی حلقوں نے زور دار مہم چلا رکھی ہے۔ منان بھٹ نامی ایک صارف نے لکھا ہے کہ ’اگر ممبئی میں رہنے والا گجراتی ممبئی کر ہے، دلی میں رہنے والا مدراسی دلّی والا ہے اور کیرلا میں رہنے والا کشمیری ملّو ہے تو کشمیر میں رہنے والا ہر ہندوستانی کشمیری ہے۔‘
بھٹ نے ’سبھی کشمیریوں کو ووٹنگ حقوق دینے کے لیے‘ وزیراعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کیا ہے۔
بعض کشمیری صحافیوں نے نہایت محتاط الفاظ میں اس اعلان پر ردعمل ظاہر کیا تو کشمیری پنڈت صحافی آدِتیہ راج کول نے ٹویٹ کی ’صحافی زیادہ پریشان ہیں۔ دفعہ 370 جانے کے بعد نہ تشدد ہے، نہ ہلاکتیں اور نہ پتھراؤ۔ اس کا مطلب اب سرمایہ کی ریل پیل نہیں ہے اور یہ لوگ سچ لکھنے پر مجبور ہو گئے ہیں، چاہے تو ترنگا لہرانے کی بات ہو یا ووٹنگ حقوق کی۔ جمہوریت بہت چُبھتی ہے۔‘
پاکستان کا ردعمل
پاکستانی دفتر خارجہ نے انڈیا کے اس تازہ اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اس اعلان کو کشمیر میں انتخابات سے قبل ہونے والی دھاندلی قرار دیا ہے۔
جمعہ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’فوجیوں اور نیم فوجی اہلکاروں سمیت سبھی عارضی باشندوں کو ووٹنگ حقوق دینے کا اعلان انڈیا کے اُن عزائم کا مظاہرہ ہے جن کے ذریعہ وہ وہاں ہونے والے نام نہاد الیکشن پر حاوی ہونا چاہتا ہے۔‘
بیان میں 2019 کے بعد سے انتخابی حلقہ بندی اور دیگر تمام اقدامات کو غیرقانونی قرار دے کر عالمی برادری سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ’کشمیر میں ڈیموگرافی تبدیلی کرنے کی برملا کوششوں کا نوٹس لے۔‘
الیکشن کب ہو گا؟
دلچسپ بات ہے کہ اس اعلان سے اس سال کے آخر تک انتخابات منعقد ہونے کی تمام قیاس آرائیاں ختم ہو گئیں۔ کیونکہ چیف الیکشن افسر ہردیش کمار نے غیرمقامی لوگوں کو ووٹنگ حقوق دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا الیکٹورل رول کا رِویژن نومبر کے آخر تک مکمل ہو گا۔
دسمبر میں سخت ترین سردی اور برف کی وجہ سے انتخابات نہیں ہو سکتے۔ واضح رہے 2018 میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی حکومت اُس وقت گر گئی جب بی جے پی نے سیاسی اتحاد توڑ دیا اور کشمیر میں صدارتی راج نافذ ہو گیا۔
مبصرین کہتے ہیں کہ بی جے پی جموں کشمیر میں تب تک الیکشن نہیں ہونے دے گی جب تک اسے یقین نہ ہو کہ اسمبلی میں اسی کی اکثریت ہو گی اور اگلا وزیراعلیٰ نہ صرف جموں سے ہو گا بلکہ ایک ہندو سیاستدان ہو گا۔