انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف ’نفرت پر مبنی جرائم‘ کے واقعات کیا انڈیا میں مسلمان خوف اور بے بسی کے دور سے گزر رہے ہیں؟
آج سے ٹھیک ایک ہفتے قبل انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے نیمچ ضلع میں ہندوؤں کے ایک ہجوم نے ایک درگاہ کے مجاور اور ایک خاتون سمیت بعض عقیدت مندوں پر رات میں حملہ کر دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انھیں رات بھر زد و کوب کیا گیا اور جانے سے پہلے درگاہ کے ایک حصے کو دھماکے سےاڑا دیا۔
اس واقعے سے ڈیڑھ مہینے پہلے اجین ضلع کے سیکلی گاؤں میں کئی نوجوان ہندوؤں نے ایک مسلم کباڑی والے عبدالرشید کو بری طرح پیٹا اور انھیں دھمکی دی کہ یہ ہندوؤں کا گاؤں ہے، وہ یہاں دوبارہ نہ دکھائی دے۔
اس واقعے کے بعد رشید بہت ڈر گئے ہیں اور انھوں نے گاؤں جانا بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے ان کا کام کافی متاثر ہوا ہے۔
عبدالرشید نے بی بی سی کو بتایا: ‘میں بیس سال سے یہاں کام کر رہا ہوں۔ ہم سبھی آس پاس کے گاؤں جاتے ہیں۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے روکا ہو۔ مجھے کئی نوجوانوں نے مارا۔ میرا سامان پھینک دیا۔ مجھ سے جے شری رام کا نعرہ لگوایا اور کہا کہ میں دوبارہ یہاں نہ آؤں۔’
اجین ضلع کے ایک بااثر شخص نے بی بی سی کو اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس علاقے میں مسلم کباڑیوں پر حملے کافی عرصے سے ہو رہے ہیں لیکن ان کے بارے میں کوئی جانتا نہیں تھا۔
‘عبدالرشید پر حملے کی ویڈیو خود حملہ آوروں نے بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی تھی جو وائرل ہو گئی جس سے اس واقعہ کا پتا چلا اور رپورٹ درج کرائی گئی۔ یہاں اب لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔‘
اس کے علاوہ چھ روز قبل بنگلور میں انجینئرنگ کے ایک مسلمان طالبعلم کے جسم کے ٹکڑے کر کے ریلوے ٹریک پر پھینک دیا گیا تھا۔ اس مسلمام طالبعلم کے ایک ہندو لڑکی سے مبینہ روابط تھے۔
ایک مقامی سخت گیر ہندو تنظیم نے دونوں کے درمیان رشتے ختم کرنے کا ایک باقاعدہ معاہدہ کروایا۔ اس کے باوجود لڑکے کو قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے میں ہندو تنظیم کے کئی ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ان تین واقعات کے علاوہ حالیہ دنوں میں مدھیہ پردیش، اتر پردیش، اترا کھنڈ، ہری انھ، کرناٹک اور کئی دیگر ریاستوں میں چھوٹے چھوٹے مسلم کاروباری افراد پر اس طرح کے مذہبی نفرت پر مبنی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اب کئی مسلمان موجودہ ماحول میں نہ صرف غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں بلکہ ملک کا جمہوری نظام بھی رفتہ سخت گیر ہندو سوچ کے زیر اثر آتا جا رہا ہے۔
اس طرح کے نفرت انگیز تشدد کے واقعات کا سلسلہ 2017 میں راجستھان کے الور ضلع کی شاہراہ پر دن دہاڑے ایک مسلمان شخص کے قتل سے شروع ہوا تھا جنھیں گائے کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ہندوؤں کی ایک تنظیم کے ارکان نے سڑک پر مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
پہلو خان ہری انھ کے نواحی علاقے کے ڈیری فارمر تھے اور واقعے والے روز وہ وہاں کی ایک منڈی سے گائے خرید کر لا رہے تھے۔
پہلو خان کے قتل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی صحافی محمد زبیر خان نے بی بی سی کو بتایا: ‘پہلو خان کے واقعے سے یہاں کے لوگوں کے ذہن میں ایک خوف بیٹھ گیا ہے۔
’ہم الور سے آ رہے ہوں، ریواڑی سے آرہے ہوں، پلول سے آ رہے ہوں، گڑگاؤں یا فریدآباد سے آ رہے ہوں، بس ڈر یہ ہوتا ہے کہ کہیں کوئی پہلو خان جیسا واقعہ نہ پیش آ جائے۔ یہاں زندگی بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔’
معروف تجزیہ کار عارفہ خانم کہتی ہیں ‘چند حملے منظم طریقے سے منصوبہ بندی کے تحت اور چند انفرادی طور پر، دونوں شکلوں میں ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک مہم چل رہی ہے۔ پڑوسی کو پڑوسی کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوشش ہو رہی ہے کہ ملک کا ڈی این اے تبدیل کر دیا جائے۔’
گذشتہ مہینے انتہائی دائیں بازو کی ہندو جماعت آر ایس ایس کی ایک اہم میٹنگ میں یہ اہم موضوع تھا کا اتراکھنڈ میں مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
جب عارفہ سے یہ سوال کیا گیا کہ حالیہ دنوں میں ایسے واقعات نظر آئے ہیں کہ سوشل میڈیا پر لوگوں کو ‘بیدار’ کیا جا رہا ہے کہ سبزی فروشوں میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے اور کیا یہ چھوٹے چھوٹے مسلمانوں کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش ہے؟
اس بارے میں عارفہ کہتی ہیں ‘مسلمان پہلے ہی غربت اور اقلیت ہونے کے سبب معاشرے کے حاشیے پر ہیں۔ اب انھیں اقتصادی طور پر مزید الگ تھلگ کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے۔’
‘موجودہ ماحول میں انڈیا کے مسلمانوں کی اکثریت غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اکثریتی برادری کا ایک طبقہ مذہبی انتہا پسندی کی طرف مائل ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنا بڑا طبقہ مذہبی طور پر سخت گیر ہوا ہے لیکن اکثریتی برادری کے رویے میں شدت پسندی کسی بھی ملک میں بہت خطرناک ہوتی ہے۔’
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان واقعات کا مقصد مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا ہے اور اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حملہ آوروں کو یقین ہوتا ہے کہ حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی، جبکہ کئی ایسے واقعات ہیں جہاں حملے کا شکار ہونے والے کے خلاف ہی قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔
معروف مبصر رجنی بخشی اخبار انڈین ایکپریس میں شائع اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں: ‘مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے تشدد کو ہندوؤں کے لیے انصاف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کے معاملے میں انتظامیہ اپنی آنکھیں بند رکھے گی۔’
ان واقعات نے مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساس کو بڑھا دیا ہے۔ دلی کی ایک طالبہ فرحین سیفی کہتی ہیں: ‘جب ہم ان واقعات کو سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں تو دل میں ایک ڈر پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں ایسا ہمارے ساتھ نہ ہو جائے۔’
جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم احمد انصاری کا خیال ہے کہ ‘اس طرح کے عوامی تشدد کے واقعات کے خلاف سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام ان سے محفوظ رہ سکیں۔’
دوسری جانب، اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نرگس خاتون کو بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش ضرور ہے لیکن وہ کہتی ہیں انھیں ابھی تک ایسے کسی ناگوار تجربے سے گزرنا نہیں پڑا۔
‘مجھے سفر کر کے آنا ہوتا ہے۔ میں حجاب کا استعمال کرتی ہوں لیکن ابھی تک مجھے کوئی برا تجربہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی تفریق کا سامنا ہوا ہے۔ مجھے لگتا ہے ابھی بھی لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کی عزت ہے۔’
لیکن دلی کی سماجی کارکن ایمن رضوی کے تجربات مختلف ہیں۔ وہ عبایہ پہنتی ہیں اور حجاب بھی کرتی ہیں۔
‘جب یہ لوگ کوئی داڑھی والا کوئی ٹوپی والا، کوئی برقعے والی لڑکی دیکھتے ہیں تو یہ ہمارے مذہب پر طعنے کستے ہیں۔ ہمیں کٹھ ملا تو کبھی ملا کہہ کر بلاتے ہیں۔ مجھے تو ٹنٹ ہاؤس والی کہا جاتا ہے کیونکہ میں اسی طرح عبایہ اور حجاب میں رہتی ہوں۔‘
ان واقعات پر حکومتی رد عمل کیا ہے؟
حکومت نے اس طرح کے واقعات پر کئی بار تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا جس کے سبب سخت گیر عناصر کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔
البتہ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی کہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات حکومت کے لیے تکلیف اور تشویس کا باعث ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ‘ایسے واقعات انسانیت کو شرمسار کرتے ہیں لیکن ان واقعات کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی وہ کم خطرناک نہیں ہے۔ ان واقعات کو مذہبی رنگ دینا نہ تو سماج کے مفاد میں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے مفاد میں ہے۔ انتخابات کے آتے ہی ووٹ کی سیاست کرنے والے باہر آ جاتے ہیں اور اسی طرح کا بھرم پیدا کرتے ہیں۔ مسلمان برادری 75 سالوں میں ووٹ کے سوداگروں کے دیے ہوئے 75 زخموں سے گھائل ہے لیکن اب ان کے حربوں کو سمجھ چکی ہے اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔’
عباس نقوی کا مزید کہنا ہے کہ ان پرتشدد واقعات کا شکار صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دوسرے لوگ بھی ہو ہیں۔
‘لنچنگ کو اگر صحیح معنوں میں دیکھنا ہے تو ہمارے پڑوس میں دیکھ لیجیے۔ وہاں پر خواتین کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جا رہا ہے، کیا بے حرمتی ان کی کی جا رہی ہے۔ ہندوستان آئین سے چلتا ہے، لیکن جو ممالک شریعت سے چل رہے آپ جا کر دیکھ لیجیے وہاں کی حالت۔’
آنے والے کچھ عرصے میں انڈیا کی کئی اہم ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات میں مزید اضافہ ہو گا۔
تجزیہ کار عارفہ خانم کہتی ہیں کہ ’ملک کے لیے جمہوری نظام برسوں کی آزادی کی جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ اب ہم اس پوری عمارت کی اینٹ اینٹ کو بکھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ریزہ، ریزہ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اسے صرف انتخابی طریقے سے اور جمہوری اداروں کو ٹوٹنے سے بچا کر روکا جا سکتا ہے۔’