انڈیا میں خود کشی کرنے والی عائشہ کا ویڈیو پیغام ’دعا کروں گی کہ مجھے دوبارہ کبھی انسانوں کا چہرہ نہ دیکھنا پڑے‘
اگر وہ مجھ سے آزادی چاہتا ہے تو اسے آزادی ملنی چاھیے۔ میری زندگی اب یہیں تک ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اللہ سے ملوں گی۔ میں اس سے پوچھوں گی کہ میں کہاں غلط تھی؟ مجھے اچھے والدین ملے، اچھے دوست ملے، ہو سکتا ہے کہ میرے مقدر میں کوئی خرابی ہے۔ میں خوش ہوں۔ میں اطمینان سے الوداع کہہ رہی ہوں میں اللہ سے دعا کروں گی کہ مجھے دوبارہ کبھی بھی انسانوں کا چہرہ نہ دیکھنا پڑے۔‘
یہ تھے راجستھان سے تعلق رکھنے والی عائشہ مکرانی کے خود کشی سے پہلے آخری الفاظ۔ پولیس کے مطابق عائشہ نے اپنی آخری ویڈیو 26 فروری کو بنائی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے سابرمتی ندی میں کود کر جان دے دی۔
عائشہ راجستھان کی رہنے والی تھیں اور احمد آباد کے وٹوا علاقے میں رہائش پذیر تھیں۔ عائشہ نے سابرمتی ندی میں کودنے سے پہلے یہ بھی کہا ’میں دعا کرتی ہوں کہ یہ خوبصورت دریا مجھے اپنے گلے لگا لے۔‘
سابرمتی ریور فرنٹ (ویسٹ) کے پولیس انسپکٹر وی ایم دیسائی اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ انھوں نے تصدیق کی کہ عائشہ نے سابر متی ندی میں چھلانگ لگا کر خود کشی کی ہے۔
پولیس انسپکٹر وی ایم دیسائی نے بتایا ’ہمیں عائشہ کا فون ملا ہے۔ 25 فروری کو انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ فون پر 70 منٹ کی گفتگو ریکارڈ کی تھی۔ اس گفتگو کے دوران ان کے شوہر نے کہا: ’میں تمہیں لینے نہیں آؤں گا، تمہیں مر ہی جانا چاھیے اور اس وقت کی ویڈیو بنا کر بھیجنا تبھی مجھے یقین آئے گا کہ تم مر چکی ہو۔‘
پولیس انسپکٹر دیسائی نے کہا کہ اس لڑکی نے اپنے شوہر سے طویل عرصے سے جاری جھگڑے کی وجہ سے خودکشی کی ہے۔
اس ویڈیو کو بنانے کے دوران عائشہ نے اپنے والد سے اپنے شوہر کو ہر چیز سے آزاد کرنے کی اپیل کی اور اپنے شوہر کے خلاف درج مقدمہ واپس لینے کے لیے بھی کہا۔
عائشہ نے ویڈیو میں کہا: ’ہیلو، اسلام و علیکم۔ میرا نام عائشہ عارف خان ہے۔ میں جو کچھ کرنا چاہتی ہوں وہ کر رہی ہوں۔ مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ میں اور کیا کہہ سکتی ہوں، اللہ نے مجھے اتنا کچھ عطا کیا ہے اور میری زندگی خوشیوں سے بھری رہی۔‘
گجرات پولیس نے عائشہ کے شوہر عارف خان کو راجستھان کے پالی علاقے سے پیر کی شام گرفتار کیا ہے ہے۔
بی بی سی کو یہ معلومات دیتے ہوئے وی ایم دیسائی نے بتایا کہ عارف کے خلاف دفعہ 306 کے تحت خود کشی کے لیے اکسانے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
پالی کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کالو رام راوت نے راجستھان میں بی بی سی کے صحافی موہر سنگھ مینا کو بتایا کہ ’عائشہ کے شوہر عارف کی گرفتاری کے لیے گجرات پولیس آئی تھی۔ مقامی پولیس نے گجرات پولیس سے تعاون کیا اور عارف کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد گجرات پولیس عارف کو اپنے ساتھ لے گئی۔‘
عائشہ کی ویڈیو اور تناؤ
عائشہ اپنی آخری ویڈیو میں ہنستی ہوئی دکھائی دیتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ شدید تناؤ میں تھیں کیونکہ ان کی شادی شدہ زندگی میں سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ ان کے والدین نے الزام عائد کیا ہے کہ عائشہ کے شوہر اور ان کے گھر والوں کے تشدد کی وجہ سے عائشہ کا حمل ضائع ہو گیا تھا۔
عائشہ کی ویڈیو کے بارے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر پرشانت بھیمانی نے کہا: ’ویڈیو میں عائشہ جس طرح سے بات کر رہی ہیں وہ ایک الجھن اور بے سکونی کی نشاندہی کرتی ہے، جیسے آگ بجھنے سے پہلے شمع پھڑکتی ہے۔ عام طور پر ایسے افراد جو خودکشی کرتے ہیں ایک طرح سے سکون محسوس کرتے ہیں، انھیں لگتا ہے کہ وہ دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں اور وہ تمام پریشانیوں اور غموں سے آزاد ہوں جائیں گے۔ عائشہ یقینی طور پر ڈپریشن کا شکار تھیں۔‘
لوگوں کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا پر عائشہ کی ویڈیو پر رد عمل دے رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عائشہ کو اپنے والدین کی بات سننی چاھیے تھی اور کچھ لوگ ویڈیو دیکھ کر تناؤ بھی محسوس کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر بھیمانی کہتے ہیں ’ایک طرح سے اس طرح کی خودکشی رومانویت کو جنم دے گی۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ اپنے آخری لمحات کی ویڈیوز پوسٹ کرنے لگیں کیونکہ وہ آخری لمحوں تک لوگوں کی توجہ اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرنا چاہیں گے۔ ایک طرح سے اپنے آپ کو بچانے کی یہ آخری اپیل ہو گی۔ اگر کوئی وقت پر مدد کے لیے پہنچ گیا تو جان بچائی جا سکے گی۔‘
عام لوگوں کے ذہنوں پر اس طرح کے واقعات کے اثرات کے بارے میں ڈاکٹر بھیمانی نے کہا کہ ’اس طرح کے واقعات کو کوئی اہمیت نہیں دی جانی چاھیے۔ اس سے یہ سیکھنا چاھیے کہ موت کسی بھی مسئلے کو حل نہیں کر سکتی۔‘
ڈاکٹر بھیمانی کہتے ہیں کہ ’کسی دوسرے آدمی کے لیے خود ہی مرنے کا فیصلہ کرنا ایک غلط قدم ہے۔ والدین کی بات کو سمجھنا چاھیے۔ آپ کو دیا گیا ان کا وقت، محنت، پیسہ اور محبت کو سمجھنا چاھیے۔ اپنی زندگی میں آپ کے والدین ہی نہیں بلکہ آپ کے رشتہ داروں نے بھی یہ سب آپ پر خرچ کیا ہوتا ہے۔ کوئی ان لوگوں کا قرض ادا کیے بغیر اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟‘
ڈاکٹر بھیمانی نے یہ بھی کہا کہ ’ذہنی تناؤ اور مایوسی میں ہر کسی کو یہ یاد رکھنا چاھیے کہ ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ اگر کوئی خودکشی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہے تو اسے بروقت علاج کی ضرورت ہے، اس سے اس کی زندگی کو بچایا جا سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر بھیمانی نے کہا کہ ’اگرچہ معاشرے میں ذہنی صحت سے متعلق آگاہی کی شدید کمی ہے لیکن یہ سوچنا غلط ہے کہ پاگل ہونے پر ہی ماہر نفسیات سے علاج کروایا جاتا ہے۔ ہر ایک کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کو تھوڑا سا بھی ذہنی دباؤ ہے تو اس کا علاج کیا جانا چاھیے۔‘
عائشہ کون تھیں؟
23 برس کی عائشہ راجستھان کے ضلع جالور کے لیاقت مکرانی اور حرمت بی بی کی بیٹی تھیں۔ لیاقت مکرانی ملازمت کے سلسلے میں راجستھان سے احمد آباد آئے اور اپنے کنبے کے ساتھ وٹوا میں رہ رہتے تھے۔ لیاقت مکرانی کے چار بچے تھے۔
ان کی مالی حالت بہت اچھی نہیں تھی لیکن انھیں درزی کا کام آتا تھا اور احمد آباد میں انھوں نے یہی کام شروع کیا۔ لیاقت مکرانی اپنے بڑے بیٹے کو تعلیم نہیں دے سکے تھے اور ان کا کا بیٹا آج کل ایک میکینک کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔
لیاقت مکرانی کہتے ہیں ’میں چاہتا تھا کہ میرے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں اور بڑے افسر بنیں لیکن گھر میں پریشانیوں کو دیکھ کر میرے بڑے بیٹے نے اپنی تعلیم چھوڑ دی اور کام شروع کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ کاروں میں الیکٹرِک وائرنگ کا کام کرتا ہے۔ ہم مل کر گھر چلاتے ہیں۔ میری بڑی بیٹی حنا کی شادی احمد آباد میں ہوئی تھی۔ اس کی شادی میں بہت زیادہ خرچ آیا تھا۔‘
’میری دوسری بیٹی عائشہ پڑھائی میں اچھی تھی لہذا میں نے اسے پڑھایا۔ ہم اسے پیار سے عائشہ سونو کہتے تھے۔ عائشہ بہت ہونہار تھی، وہ ہمارے کنبے کی پہلی گریجویٹ تھی۔ اس کے بعد عائشہ نے ایم اے کی تعلیم بھی شروع کر دی تھی۔‘
لیاقت مکرانی کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی عائشہ اپنی تعلیم جاری رکھے لیکن انھیں یہ بھی خوف تھا کہ ان کی برادری میں زیادہ تعلیم یافتہ لڑکا ملنا مشکل ہو گا۔
جب عائشہ ایم اے کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں تو اس وقت جلور کے ایک اچھے گھرانے نے عائشہ کا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے مانگا اور اس طرح عائشہ کی شادی ڈھائی سال قبل بابو خان کے بیٹے عارف سے ہوئی۔
عارف جلور میں گرینائٹ تیار کرنے والی کمپنی میں منیجر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا اپنا گرینائٹ فروخت کرنے کا کاروبار بھی تھا۔ شادی کے وقت عارف نے وعدہ کیا تھا کہ عائشہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے گی۔
جہیز کے مطالبات اور گھریلو تشدد
عائشہ کی والدہ حرمت بی بی نے بتایا کہ ’عارف نے شادی کے وقت کہا تھا کہ وہ میری بیٹی کو مزید تعلیم حاصل کرنے دے گا اور وہ ملازمت بھی کر سکے گی۔ ہمیں لگا کہ لڑکا پڑھا لکھا ہے، لہذا ہم نے اس کے الفاظ پر بھروسہ کیا۔ ان کی حیثیت ہم سے کہیں زیادہ تھی اس لیے ہم نے عائشہ کی شادی پر قرض بھی لیا۔‘
عائشہ کے خاندان کے افراد کے مطابق عارف کے گھر والوں کو شادی میں جہیز کے طور پر تین تولہ سونا اور ایک کلو چاندی دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ عائشہ کو بہت سے کپڑے اور دیگر سامان بھی دیا گیا تھا۔
عائشہ کی والدہ نے بتایا: ’عائشہ کی شادی کے بعد ہمارے اوپر قرض میں اضافہ ہوا۔ لہذا چھوٹے بیٹے ارمان کو بھی سکول چھوڑنا پڑا اور وہ ایک نجی بینک میں بطور لون ایجنٹ ملازمت کرنے لگا، ہم آہستہ آہستہ قرضے کی ادائیگی کر رہے تھے۔‘
لیاقت مکرانی کا کہنا ہے کہ ’ابتدا میں دونوں کی شادی اچھی تھی۔ پھر عارف کے کہنے پر عائشہ نے ایم اے کی تعلیم چھوڑ دی۔ اس دوران وہ حاملہ بھی تھیں لیکن اس کے بعد سے عائشہ کی زندگی میں دکھوں کا آغاز ہو گیا۔‘
عائشہ کے گھر والوں کا الزام ہے کہ ان کی ساس اور نند عائشہ کا زیور لے کر انھیں ہراساں کرنے لگے تھے اور حاملہ ہونے کے باوجود بھی عائشہ کو مناسب خوراک نہیں دی جاتی تھی۔
بی بی سی آزادانہ طور پر ان الزامات کی تصدیق نہیں کر سکا ہے تاہم اس معاملے میں 21 اگست 2020 کو واٹوا پولیس سٹیشن میں شکایت درج کرائی گئی تھی۔
پولیس شکایت کے مطابق عارف خان، ان کے والد بابو خان غفور خان، ان کی والدہ سائرہ بانو اور بہن خوشبو خان کو ملزم بنایا گیا تھا۔
اس کے علاوہ گھریلو تشدد کا ایک مقدمہ احمد آباد کی گھیکانٹ میٹرو پولیٹن عدالت میں بھی درج ہے۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ کورونا وبا کے دوران گھریلو تشدد کے واقعات زیادہ سامنے آئے ہیں۔
گھریلو تشدد میں متاثرہ عورتوں کی مدد کرنے والی گورنمنٹ ہیلپ لائن ابھیم کے چیف آپریٹنگ آفیسر جسونت پرجاپتی نے بی بی سی گجراتی کی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران گجرات میں گھریلو تشدد کے واقعات میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔
دسمبر 2020 میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ خواتین کورونا انفیکشن کے دوران گھریلو تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔
خودکشی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ساتھ‘ کے سیکرٹری ناگیندر سود پیشے سے وکیل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس جہیز اور خودکشی کے معاملات بہت زیادہ آ رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر معاملات کا حل نکل سکتا تھا۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’جب ہمارے پاس ایسے معاملات ہوتے ہیں تو ہمیں کسی بھی طرح کی رائے قائم کرنے سے پہلے ان کو غور سے سننا چاھیے اور مفت میں عدالتی مدد کے لیے کاؤنسلنگ مہیا کرانی چاھیے۔ عائشہ جیسے معاملات میں جلدی عدالتی فیصلے کروا کر لوگوں کو خود کشی سے بچایا جا سکتا ہے۔‘
ناگیندر سود نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’گجرات کے بھتہ قانون (جس میں شوہر بیوی اور بچوں کو ماہانہ دیتا ہے) کی دفعہ 125 کے تحت طویل عرصے تک کیس چلنے کے سبب خواتین کو عارضی احکامات ملتے ہیں۔ گھریلو تشدد کے واقعات بھی طویل عرصے تک چلتے ہیں۔ خواتین ذہنی اور مالی دشواریوں کے بعد مایوس ہو جاتی ہیں۔ انھیں بھی معاشی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ مالی بوجھ کے ساتھ ساتھ خواتین کو یہ بھی لگتا ہے کہ ان کی وجہ سے ان کے والدین بھی پریشان ہو رہے ہیں۔‘
عائشہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ ’عائشہ کی شادی بچانے کے لیے ان کے شوہر اور بیٹے دن رات کام کر رہے تھے اور عائشہ اس بات سے بھی دکھی تھیں۔ عائشہ رات گئے تک عارف سے بات کیا کرتی تھیں، اسے میسج بھیجتی تھیں لیکن عارف ان کی بات نہیں سنتا تھا اور اس سے جھگڑا کرتا رہتا تھا۔‘
10 لاکھ کا مطالبہ
عائشہ کے والد لیاقت مکرانی کا الزام ہے کہ عارف اور اس کے اہلخانہ نے دس لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ’جب عائشہ حاملہ ہوئی تو اس کی ساس نے دس لاکھ روپے جہیز لانے کو کہا۔ میں نے ان سے کہا کہ ہمارے پاس دس لاکھ روپے نہیں،تب انھوں نے عائشہ کو ہمارے گھر چھوڑ دیا۔‘
’ان لوگوں نے مجھے اور میرے بیٹوں کو گالیاں دیں۔ جب عائشہ نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو عارف نے غصے میں آ کر عائشہ کے پیٹ پر لات بھی ماری۔ راجستھان جانے سے پہلے اس نے کہا کہ جب 10 لاکھ روپے کا انتظام ہو جائے گا تو بیٹی کو واپس بھیج دینا۔‘
عائشہ کی والدہ حرمت بی بی نے الزام عائد کیا ہے کہ ’عارف کی لات سے عائشہ کے پیٹ میں بہت درد شروع ہو گیا، ہم اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے بتایا گیا تھا کہ عائشہ کے پیٹ میں چوٹ لگنے سے بچہ پیٹ میں ہی مر گیا ہے۔ ہمیں اسقاط حمل کرانا پڑا۔ انھوں نے بتایا کہ رشتہ داروں کی مدد سے صلح ہوئی۔ ہم نے عارف کو اپنی مجبوری بتائی اور عائشہ کو بھی ساتھ بھیج دیا۔‘
عائشہ کے گھر والوں نے اس دوران عارف کے اہلخانہ کو ڈیڑھ لاکھ روپے بھی دیے۔ ان الزامات کا جواب دینے کے لیے یہ خبر لکھے جانے تک عارف اور نہ ہی ان کے خاندان کے افراد نے بی بی سی سے کوئی رابطہ کیا۔
لیاقت مکرانی نے کہا کہ ’ہمیں لگا کہ وہ پولیس سے ڈر کی وجہ سے میری بیٹی کو کم اذیت دیں گے لیکن پولیس سے شکایت کرنے کے بعد عارف زیادہ ناراض ہو گیا۔ عارف کے اہلخانہ نے پھر سے رقم کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ بیٹی کی شادی کو بچانے کے لیے میں نے ڈیڑھ لاکھ روپے قرض لیا اور اور اس کی ساس اور سسر کو دے دیا۔‘
’عارف کورونا اور دیگر وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے عائشہ کو راجستھان لے جانے سے گریز کرتا رہا۔ انھوں نے ہمیں پولیس کی شکایت واپس لینے کی دھمکی بھی دی۔ عائشہ یہ سب برداشت نہیں کر پا رہی تھی، وہ مسلسل روتی رہتی تھی۔‘
رات کو جھگڑا اور صبح خودکشی
اپنے والد اور بھائیوں کو پریشانی میں دیکھ کر عائشہ نے پچھلے تین ماہ سے ایک نجی بینک میں ملازمت کرنا شروع کر دی تھی۔ وہ ہر صبح ساڑھے نو بجے بینک پہنچ جاتی تھیں۔
حرمت بی بی کے مطابق ’خود کشی سے قبل 25 فروری کی رات عائشہ کا عارف سے جھگڑا ہوا تھا۔‘
حرمت بی بی نے بتایا کہ ’میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ہاں میں آپ کے مرنے سے پہلے ہی مر جاؤں گی۔ میں آپ کی خواہش کے مطابق ویڈیو ریکارڈ کروں گی اور آپ کو بھیجوں گی۔ بس صبح تک انتظار کریں۔‘
حرمت بی بی نے اس لڑائی کے بارے میں 26 فروری کی صبح اپنے شوہر کو بتایا۔
لیاقت مکرانی کہتے ہیں کہ ’میری بیوی نے مجھے بتایا کہ عائشہ رات کو مرنے کی بات کر رہی تھی۔ میں نے فوراً ہی عائشہ کو فون کیا۔ وہ خود کشی سے قبل آخری بار بات کرتے ہوئے رونے لگی اور کہنے لگی کہ میں کسی اور کو تکلیف نہیں دینا چاہتی، میری زندگی کا کوئی معنی نہیں۔ اسی وجہ سے میں دریا میں کود کر خودکشی کر رہی ہوں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’عائشہ بہت جذباتی تھی اس لیے میں نے اس سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تم خودکشی کرو گی تو ہم سب بھی خودکشی کر لیں گے۔ آپ رکشہ لے کر گھر آئیں۔ تب اس نے کہا کہ میں ندی میں کودنے جا رہی ہوں۔ اگر بچ جاؤں تو گھر لے جانا اور مر گئی تو دفنا دینا۔‘
بی بی سی گجراتی کے پاس عائشہ اور ان کے والدین کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے جس میں وہ عائشہ کو راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیاقت مکرانی کہتے ہیں ’میں نے اور میری بیوی نے عائشہ کو بہت سمجھایا اور وہ گھر واپس آنے پر راضی بھی ہو گئیں لیکن آخر میں انھوں نے وہی کیا جو وہ کرنا چاہتی تھیں۔ عائشہ کی موت کے بارے میں ہمیں پولیس نے فون کر کے بتایا۔‘