انڈیا میں ایک دہائی میں بہت کچھ بدلا مگر ایک چیز

انڈیا میں ایک دہائی میں بہت کچھ بدلا مگر ایک چیز

انڈیا میں ایک دہائی میں بہت کچھ بدلا مگر ایک چیز ہے جس میں تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں

ورلڈ بینک کے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ پچھلی چند دہائیوں سے انڈیا کے دیہاتوں میں جہیز کا نظام بہت حد تک ایک سطح پر رہا ہے۔ لیکن یہ عمل بلا روک ٹوک جاری ہے۔

محققین نے 40 ہزار شادیوں کا مطالعہ کیا جو سنہ 1960 سے 2008 تک انڈیا کے دیہی علاقوں میں ہوئیں۔

انھوں نے پایا ہے کہ 95 فیصد شادیوں میں جہیز شامل تھا جبکہ انڈیا میں جہیز لینا سنہ 1961 سے ہی غیر قانونی عمل ہے۔

جہیز کو اکثر سماجی برائی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے لیکن اس کا دارودورہ ہے جس کی وجہ سے خواتین کی حیثیت کمزور ہوتی ہے اور انھیں تشدد کا سامنا کرنا ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات ان کی موت تک واقع ہو جاتی ہے۔

جہیز لینا اور دینا جنوبی ایشیا میں صدیوں سے جاری رواج ہے جس کے تحت دلہن کے اہل خانہ دولھے یا ان کے اہل خانہ کو نقد رقم، کپڑے، زیورات وغیرہ دیتے ہیں۔

یہ تحقیق انڈیا کی 17 ریاستوں پر مبنی ہے جہاں ملک کی آبادی 96 فیصد آبادی بستی ہے۔ اس کی بنیاد انڈیا کے دیہاتوں پر ہے جہان آج بھی ملک کی اکثریت آبادی رہتی ہے۔

ماہرین معاشیات ایس انوکریتی، نیشیتھ پرکاش اور سنگھوہ کوون نے جہیز میں دی جانے والی رقم اور سامان کی قدر کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں، جو شادی کے دوران دی گئیں یا موصول ہوئیں۔ انھوں نے اس بات کا بھی تجزیہ کیا کہ دلھن کی جانب سے دولھے کو دیے جانے والے تحائف اور دولھے کی جانب سے دلھن کو دیے جانے والے تحائف کی قدرو قیمت میں کتنا فرق رہا ہے۔

شادی

جہیز 1975 سے 2000 کے درمیان مستحکم رہا

انھوں نے پایا کہ سنہ 1975 سے پہلے اور سنہ 2000 کے بعد افراط زر کی وجہ سے جہیز کی قدروقیمت میں فرق تھا لیکن اس مدت کے دوران مجموعی طور پر اوسط ‘غیر معمولی طور مستحکم’ رہا ہے۔

محققین نے پایا ہے کہ دولھے کے اہل خانہ نے دلہن کے کنبے کے لیے تحائف پر اوسطاً پانچ ہزار روپے خرچ کیے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ دلہن کے لواحقین نے دولھے کے اہل خانہ کو تحائف کی رقم 32 ہزار روپے یعنی سات گنا زیادہ دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اوسطاً جہیز 27 ہزار روپے کے قریب تھا۔

جہیز میں خاندان کی بچت اور آمدنی کا ایک بڑا حصہ چلا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2007 میں دیہی انڈیا میں جہیز کی رقم سالانہ گھریلو آمدنی کا 14 فیصد تھی۔

ورلڈ بینک ریسرچ گروپ کے ماہر معاشیات ڈاکٹر انوکریتی کا کہنا ہے کہ ‘دیہی انڈیا میں اوسطا آمدنی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ہی جہیز کے فیصد میں کمی آئی ہے۔’

وہ کہتی ہیں: ‘لیکن یہ صرف ایک اوسط ہے جب کہ جہیز کا فیصد کتنا ہے اس کا اندازہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہر خاندان کی انفرادی آمدنی اور اخراجات کے اعدادوشمار ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس اس طرح کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔’

شادی

انڈیا میں شادیاں

  • انڈیا میں تقریباً تمام شادیاں ایک عورت سے ہوتی ہیں۔
  • ایک فیصد سے بھی کم معاملات میں طلاق واقع ہوتی ہے۔
  • دولھا/ دلہن کے انتخاب میں والدین اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سنہ 1960 سے 2005 کے درمیان 90 فیصد سے زیادہ شادیوں میں والدین نے اپنے بچوں کے لیے شریک حیات کا انتخاب کیا ہے۔
  • 90 فیصد سے زیادہ جوڑے شادی کے بعد شوہر کے اہل خانہ کے ساتھ رہتے ہیں۔
  • جبکہ 85 فیصد سے زیادہ خواتین کی اپنے گاؤں سے باہر کسی سے شادی ہوتی۔
  • 3۔78 فیصد شادیاں ایک ہی ضلعے کے اندر ہوتی ہیں۔

ماخذ: میرج مارکیٹ اینڈ رائز آف ڈاؤری ان انڈیا

سنہ 2008 کے بعد سے انڈیا میں بہت کچھ بدلا ہے۔ لیکن محققین کا کہنا ہے کہ جہیز کے معاملے میں کسی تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے۔ کیونکہ آج بھی شادی کے بازار کو متاثر کرنے والے عوامل میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

تمام مذاہب میں جہیز کا نظام رائج ہے

اس تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ انڈیا میں تمام بڑے مذاہب میں جہیز کا نظام رائج ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عیسائیوں اور سکھ برادریوں میں ‘جہیز میں زبردست اضافہ’ دیکھا گیا ہے۔ ان برادریوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مقابلے میں اوسط جہیز میں اضافہ ہوا ہے۔

ایک اور دلچسپ بات یہ سامنے آئی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مختلف ریاستوں میں بہت فرق رونما ہوا ہے۔

اس تحقیق میں پتا چلا ہے کہ سنہ 1970 کی دہائی کے بعد سے جنوبی ریاست کیرالہ میں ‘جہیز’ میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور حالیہ برسوں میں اس کی اوسط بھی سب سے زیادہ ہے۔

دارالحکومت دہلی سے ملحق ہریانہ، پنجاب اور گجرات جیسی دیگر ریاستوں میں بھی جہیز میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اوڈیشہ (اڑیسہ)، مغربی بنگال، تمل ناڈو اور مہاراشٹر کی ریاستوں میں اوسط جہیز میں کمی آئی ہے۔

جہیز

سنہ 1975 کے بعد جہیز میں کمی

ڈاکٹر انوکریتی نے بتایا: ‘ہمارے پاس ان ریاستوں میں نظر آنے والے فرق کے بارے میں قطعی کوئی جواب نہیں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آئندہ کی تحقیق میں اس سوال کا جواب تلاش کریں گے۔’

جنوری میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں ماہرین معاشیات گورو چپلونکر اور جیفری ویور نے گذشتہ ایک صدی کے دوران انڈیا میں 74 ہزار سے زیادہ شادیوں کے اعداد و شمار کا استعمال کیا تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ وقت کے ساتھ جہیز کے نظام میں کس طرح کی تبدیلی آئی ہے۔

محققین نے پایا کہ شادیوں اور جہیز کی ادائیگی میں سنہ 1930 سے 1975 کے درمیان دوگنا اضافہ ہوا تھا، اور جہیز کی اوسط حقیقی قیمت میں تین گنا اضافہ ہوا۔ لیکن سنہ 1975 کے بعد اوسط جہیز میں کمی آئی ہے۔

انھوں نے اندازہ لگایا کہ سنہ 1950 اور 1999 کے درمیان انڈیا میں جہیز کی ادائیگیوں کی کل مالیت تقریباً ایک چوتھائی ٹریلین ڈالر تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *