انڈیا انٹرنیشل تعلیمی کانفرنسز کے لیے وزارتِ خارجہ

انڈیا انٹرنیشل تعلیمی کانفرنسز کے لیے وزارتِ خارجہ

انڈیا انٹرنیشل تعلیمی کانفرنسز کے لیے وزارتِ خارجہ سے اجازت کی شرط سے ’تعلیمی آزادی خطرے میں

انڈیا کی حکومت کی طرف سے گزشتہ ماہ ایک ترمیم شدہ ہدایت نامہ جاری کیا گیا جس کے بارے میں ماہرین تعلیم، محققین اور سکالرز کے درمیان بحث شروع ہوئی ہے اور اس کی باز گشت بیرون ملک بھی سنی جا رہی ہے۔

حکومت کی اس نئی ہدایت کے مطابق سرکاری یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بین الاقوامی سکالرز کو آن لائن ویبنرز، آن لائن سیمینارز اور انڈیا کی سلامتی سے متعلق موضوعات پر کانفرنسز کے لیے پہلے وزارت خارجہ سے منظوری لینا پڑے گی۔

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ کام ملک کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔

ہدایات کے مطابق ہر اس موضوع پر سیمینار کرنے سے پہلے اجازت لینا ہوگی جو حکومت کی نظر میں ‘ملک کی سلامتی اور دیگر حساس داخلی امور’ سے متعلق ہے۔

سیاسی معاملات پر کسی بھی پروگرام کے انعقاد سے پہلے اجازت لینے کا نظام پہلے ہی موجود ہے لیکن تعلیمی شعبے میں یہ پہلی بار ہوا ہے۔

ان ہدایات کو گذشتہ ماہ نافذ کر دیا گیا ہے۔ غیر ملکی اداروں میں تحقیق کرنے والے افراد، علمائے اکرام اور پروفیسرز حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نے تعلیمی آزادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی شبیہہ کو بچانے کے لیے کیے گئے اس اقدام کا دراصل ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے بیرون ملک انڈیا کی ساکھ پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔

امریکہ کی روٹگرز یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر آندرے ٹروشکے انڈین تاریخ کے ماہر ہیں اور اپنی 2017 کی کتاب اورنگ زیب کے بعد سے انڈیا کے علمی حلقوں میں ایک مشہور شخصیت بن چکے ہیں۔

انڈیا

انھوں نے حکومت کے اس اقدام پر شدید تنقید کی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ‘ورچوئل تعلیمی تقریبات پر نئی پابندیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ انڈیا کی حکومت کمزور، خوفزدہ اور آمرانہ ہے۔ ایک وقت تھا جب آزاد دنیا نے محسوس کیا تھا کہ بہت ساری جمہوری اقدار کے لحاظ سے انڈیا ان کے جیسا ملک ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ بہت سے لوگ اب اس پر دوبارہ غور کر رہے ہیں’۔

وزارت خارجہ کے مشورے سے وزارتِ تعلیم نے 15 جنوری کو ترمیم شدہ ہدایات جاری کی تھیں اور وہ فوراً نافذ العمل ہوگئی تھیں۔

انڈیا میں بھی تعلیم کے شعبے سے منسلک برادری کے اندر بھی مایوسی کے آثار نمایاں ہیں، بہت سارے سکالرز اسے سرکاری سنسرشپ کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں

تھنک ٹینک ‘انڈیا فاؤنڈیشن’ کے ڈائریکٹر الوک بنسل کا کہنا ہے کہ سیاسی امور سے متعلق یہ ہدایات سرکاری اداروں پر ہمیشہ سے نافذ ہوتی رہی ہیں اور اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔

الوک بنسل ہدایت نامے میں ترمیم سے پوری طرح واقف نہیں تھے لیکن ان کا خیال ہے کہ ‘اس کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کیونکہ بعض اوقات، انڈیا مخالف ایجنڈوں والے لوگ کنونشنوں میں شرکت کرتے ہیں۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو کشمیر جیسے موضوع کو اس طرح کے بین الاقوامی سمینارز میں اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

بنسل کا کہنا ہے ‘بہت سے پروفیسر ایسے ہیں جو حساس معاملات پر انڈیا مخالف ماحول پیدا کرتے ہیں۔ مفاد پرستانہ انداز میں انڈیا کی تنقید کرنے والے ان لوگوں کی فنڈِنگ ایسے ممالک اور اداروں کے ذریعے ہوتی ہے جو انڈیا کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔’

’ان ہدایات کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگ انڈین تعلیمی اداروں پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔’

ان ہدایات کے مطابق آن لائن پروگراموں کو چلانے کی اجازت دیتے ہوئے حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ان کے موضوع کا ملک کی شمال مشرقی ریاستوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جو انتہا پسندی کی طویل تاریخ کی وجہ سے حساس سمجھی جاتی ہیں اور ان کا موضوع انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر یا لداخ خطے سے وابستہ نہ ہو جہاں گذشتہ سال انڈیا اور چینی فوجیوں کے مابین تصادم ہوا تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *