انڈیا، ترکی تعلقات انڈین مخالفت کے باوجود بین الاقوامی فورمز پر صدر اردوغان ہمیشہ کشمیر کی بات کیوں کرتے ہیں؟
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے منگل کو اقوام متحدہ کی 77ویں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر کشمیر کے مسئلے پر بات کی ہے۔ ترک صدر اردوغان نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ کشمیر میں ’منصفانہ اور دیرپا امن‘ کی امید رکھتے ہیں۔
ترک صدر نے کہا کہ 75 سال پہلے انڈیا اور پاکستان دو خودمختار ملک بنے لیکن دونوں ممالک کے درمیان امن اور اتحاد قائم نہیں ہو سکا۔ ’یہ انتہائی افسوسناک ہے، ہم امید اور دُعا کرتے ہیں کہ کشمیر میں منصفانہ اور دیرپا امن قائم ہو۔‘
یاد رہے کہ صدر اردوغان بین الاقوامی فورمز پر پہلے بھی کشمیر کے معاملے پر بات کر چکے ہیں اور ان کی جانب سے اس نوعیت کا بیان آنے کے بعد انڈیا ہمیشہ اس کی مذمت کرتا ہے اور قرار دیتا ہے کہ یہ اس کا ’اندرونی معاملہ‘ ہے۔
اس بیان سے لگ بھگ ایک ہفتہ قبل ازبکستان کے شہر سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے موقع پر انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے ترک صدر اردوغان سے ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
پانچ اگست 2019 کو انڈین وزیر اعظم مودی کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا تھا اور اس کے بعد سے صدر اردوغان عالمی فورمز پر کشمیر کا مسئلہ اٹھا رہے ہیں، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔
مسئلہ کشمیر پر اردوغان کا موقف
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر پر اردوغان کے پہلے بیانات کے جواب میں انڈیا کہتا رہا ہے کہ یہ مکمل طور پر ’ناقابل قبول‘ ہیں اور یہ کہ کشمیر کا مسئلہ انڈیا کا ’اندرونی معاملہ‘ ہے۔ انڈیا ماضی میں یہ بھی کہہ چکا ہے کہ ’ترکی کو دوسرے ممالک کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے۔‘
اگست 2019 میں انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے صدر اردوغان ہر بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مسئلہ اٹھاتے رہے ہیں۔
لیکن اس بار ان کی تقریر کا لہجہ نرم بتایا جا رہا ہے۔ اس سے قبل وہ انڈیا پر کشمیر کے مسئلے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
سنہ 2019 میں ترک صدر اردوغان نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں ناکہ بندی جیسی صورتحال ہے۔ 2020 میں انھوں نے کہا کہ ’کشمیر ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے اور آرٹیکل 370 کے تحت اس کی آئینی حیثیت ختم کرنے نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔‘
سنہ 2021 میں انھوں نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں مستقل امن قائم ہونا چاہیے۔
تاہم اب سنہ 2022 میں ترک صدر اردوغان نے کشمیر کے مسئلے کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ معاملے کے طور پر بیان کرنا شروع کر دیا ہے۔
اور اس بار اس معاملے پر اُن کے موقف کو سرد ترین سمجھا جا رہا ہے۔
صدر اردوغان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کی ویڈیو کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے، بروکنگز انسٹیٹیوٹ کی سینیئر فیلو تنوی مدن نے لکھا کہ ’دراصل، اردوغان گذشتہ سال ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر پر نرم پڑ گئے تھے۔ اس کے علاوہ جون میں وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں اردوغان نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔‘
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انڈین وزیر اعظم مودی سے ملاقات کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ترک صدر کا کشمیر کے معاملے پر موقف نرم ہو گیا ہے۔
مودی حکومت اور ترکی
انڈیا اور ترکی کے تعلقات حالیہ برسوں میں خراب ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے بعد نریندر مودی مشرق وسطیٰ کے تقریباً تمام اہم ممالک کے دورے پر گئے لیکن ترکی نہیں گئے۔
20 اکتوبر 2019 کو انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ مودی 2019 کے آخری مہینوں میں ترکی کا دورہ کرنے والے تھے لیکن اردوغان کا کشمیر کے مسئلے پر موقف پاکستان کے حق میں ہونے کی وجہ سے یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔
اس کے بعد اس وقت انڈیا میں ترکی کے سفیر ساکر اوزکان نے دی ہندو کو بتایا تھا کہ ’ہماری حکومت کو توقع تھی کہ وزیر اعظم مودی انقرہ آئیں گے۔ اس کی نہ صرف توقع کی جا رہی تھی بلکہ حال ہی میں اس پر بات بھی کی گئی تھی۔ اب ہم کسی اور تاریخ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آنے والے مہینوں میں وزیر اعظم مودی کے شیڈول کے مطابق نئی تاریخ کا فیصلہ ہونے کا انتظار ہے۔ انڈین حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے لیکن یقیناً اس پر بحث ہوئی تھی۔‘
ترک سفیر نے یہ بھی کہا تھا کہ چین نے بھی مسئلہ کشمیر پر انڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن چینی صدر شی جن پنگ نے انڈیا کا دورہ کیا۔ ترکی کی طرف سے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی حمایت اور ایف اے ٹی ایف دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی کی بڑی وجہ ہیں۔
جب ترکی نے شمالی شام میں کردوں پر حملوں کا آغاز کیا تھا تو انڈیا نے بھی اس پر ترکی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا تھا کہ شام کی خودمختاری کا احترام کیا جانا چاہیے۔
انڈیا نے ترکی کی انادولو بندرگاہ سے انڈیا میں نیوی سپورٹ شپ بنانے کا معاہدہ بھی منسوخ کر دیا تھا۔ انڈیا نے یہ قدم کشمیر اور ایف اے ٹی ایف پر پاکستان کے ساتھ ترکی کے موقف کے جواب میں اٹھایا گیا تھا۔
پاکستان اور ترکی کی دوستی
پاکستان اور ترکی کے تعلقات انڈیا کی نسبت بہت بہتر رہے ہیں۔ صدر اردوغان کے پاکستان کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں۔
جولائی 2016 میں ترکی میں اردوغان کے خلاف فوجی بغاوت ناکام ہوئی تو پاکستان نے کُھل کر صدر اردوغان کی حمایت کی تھی۔ پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے صدر اردوغان کو فون کر کے اپنی حمایت کا اعادہ کیا تھا۔ اس کے بعد نواز شریف ترکی بھی گئے جس کے بعد ترکی اور پاکستان کے تعلقات میں مزید بہتری آئی ہے۔
ترکی نے 2017 سے اب تک پاکستان میں کثیر سرمایہ کاری کی ہے۔ ترکی پاکستان میں کئی منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ وہ پاکستان کو میٹروبس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم بھی فراہم کرتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مجوزہ آزاد تجارتی معاہدے کے حوالے سے ابھی کام جاری ہے۔
پاکستان کے سابق صدر اور فوجی سربراہ پرویز مشرف ترک رہنما پاشا کی سیکولر اصلاحات اور سخت طرز حکمرانی کی تعریف کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان بھی اردوغان کی تعریف کرتے رہے ہیں۔
عمران خان نے 2016 میں ترکی میں ناکام بغاوت پر اردوغان کو ’قومی ہیرو‘ قرار دیا۔
گذشتہ برس 14 فروری کو پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں پاکستان، ترکی بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ترک صدر اردوغان پاکستان میں الیکشن لڑیں تو وہ جیت جائیں گے۔