اندراب افغانستان کی وہ وادی جہاں طالبان کے خلاف مزاحمتی تحریک پنپ رہی ہے
کابل کے شمال میں واقع خوبصورت وادی اندراب میں سفر کرتے ہوئے ہمیں جنگ کے کوئی واضح آثار نظر نہیں آئے۔
مگر جہاں طالبان اب یہاں اور پڑوسی صوبے پنجشیر میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر اسلحے کے حامل اور طاقتور ہیں وہیں افغانستان میں اُن کی حکومت کو اب ایک مسلح مزاحمت کا سامنا ہے۔
سابق افغان فوج کے سپاہیوں کے زیرِ قیادت چھوٹے گوریلا گروہ پہاڑوں میں چھپ کر طالبان پر حملے کر رہے ہیں۔
زرخیز اور سبز میدانوں سے گزرتے ہوئے طالبان ہر وقت ہمارے ساتھ موجود تھے اور اُن کی نگرانی میں ہم سے بات کرتے ہوئے مقامی افراد نے اُن کے دور میں بہتر احساسِ تحفظ کا اظہار کیا اور باغیوں کی مذمت کی۔
کچھ تعریف واقعی حقیقی محسوس ہوئی مگر ایک بازار کی پچھلی گلی میں ایک شخص نے ہم سے کہا کہ ’میں آپ کو سچ نہیں بتا سکتا۔ اگر میں نے بتایا تو میں مارا جاؤں گا۔‘
جنگ کی حقیقی شدت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ مزاحمتی فورسز کا اپنی قوّت بڑھا چڑھا کر پیش کرنا عام ہے جبکہ طالبان ان کی موجودگی سے صاف انکار کرتے ہیں مگر پنجشیر میں طالبان مخالف جنگجوؤں نے حال ہی میں ایک فوجی ہیلی کاپٹر مار گرایا اور اس میں موجود افراد کو گرفتار کر لیا۔
دوسری طرف بغلان صوبے میں باغیوں نے حال ہی میں ایک ویڈیو نشر کی ہے جس میں اُنھیں ایک فوجی چوکی سے طالبان کا پرچم اتارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
مگر جب بی بی سی نے جون میں وادی اندراب کا دورہ کیا تو بظاہر طالبان کی اس علاقے پر گرفت مضبوط نظر آئی۔
ہم نے قیس تراچ گاؤں کا دورہ کیا اور وہاں کے مقامی فوجی کمانڈر نے یقین دلایا کہ ’یہاں کوئی مسئلہ نہیں۔‘
طالبان کی سپیشل ’عمری فورس‘ کی ایک بٹالین کے کمانڈر قاری جمعہ دین بدری نے پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے مجھے بتایا ’آپ خود دیکھ سکتے ہیں، یہاں ہمارے بہت ہی کم فوجی موجود ہیں۔‘
لیکن ہمیں قابل اعتماد ذرائع سے بتایا گیا ہے کہ مئی میں یہاں سے قریب ہی طالبان کی ایک گاڑی پر مزاحمتی فورسز نے گھات لگا کر حملہ کیا تھا، جس میں طالبان کے دو اہلکار مارے گئے تھے۔
بدری کہتے ہیں کہ ’یہ بہت عرصے پہلے کی بات ہے۔ ہم نے پہاڑوں میں کچھ آپریشن شروع کیے تھے اور اب یہاں کچھ نہیں۔‘
پنجشیر میں طالبان فورسز کے طویل قافلوں کی ویڈیوز سامنے آئی ہیں لیکن وہاں بھی طالبان حکام نے مستقل جھڑپوں کی خبروں کی تردید کی ہے۔
اندراب طالبان مخالف جذبات کا دوسرا گڑھ ہے لیکن وہاں فوجیوں کی موجودگی زیادہ نہیں۔ تاہم مقامی باشندوں سے خفیہ بات چیت کے ذریعے ہمیں طالبان کی طرف سے مزاحمتی تحریک کو ختم کرنے کی کوشش میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین الزامات کے بارے میں بتایا گیا۔
عبدالہاشم نامی دیہاتی کے ایک رشتے دار نے ہمیں بتایا کہ قیس تراچ میں طالبان فورسز پر حملے کے بعد طالبان نے عبدالہاشم کے علاوہ تین افراد کو حملے میں ملوث ہونے کے غلط الزام پر حراست میں لے لیا اور پھر انھیں قتل کر دیا گیا۔
عبدالہاشم کے رشتے دار نے بتایا کہ پہلے اس کے ہاتھ بندھے گئے اور پھر اس کے سر اور سینے میں گولیاں ماری گئی تھیں۔
انھوں نے عبدالہاشم کی لاش کی تصاویر شیئر کیں اور کہا کہ اُن کا بہنوئی نور اللہ بھی اس واقعے میں مارے گئے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان نے مردوں کو عبدالہاشم کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور صرف خواتین کو انھیں دفن کرنے کی اجازت تھی۔
ایک اور رہائشی نے، جسے طالبان کی گاڑی پر حملے کے بعد سرچ آپریشن کے دوران کئی دوسرے مردوں کے ساتھ حراست میں لیا گیا تھا، بی بی سی کو بتایا کہ طالبان ان کے گاؤں سے تقریباً 20 افراد کو اس مقام پر لےگئے جہاں ان کی گاڑی پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا تھا جہاں انھیں لوہے کی سلاخوں اور ڈنڈوں سے مارا پیٹا گیا۔
انھوں نے مجھے ایک پک اپ ٹرک کے پیچھے والے حصے میں بٹھایا، کسی نے ہمارے سروں کو نیچے دبا کر رکھا۔ نور اللہ اور عبدالہاشم ایک دوسرے ٹرک میں تھے۔ وہ انھیں نیچے لے گئے اور ایک چھوٹی سی ندی کے قریب گولی مار دی۔ انھوں نے کہا اسی روز ان کے گاؤں کے دو اور افراد بھی مارے گئے تھے۔
اس کے علاوہ اور بھی پریشان کن الزامات سامنے آئے ہیں۔ چار آدمیوں کا ایک گروہ جو مزاحمتی سرگرمیوں کے ایک مرکز گاؤں تغرک کی طرف سفر کر رہا تھا، کو طالبان نے جون میں روکا، پوچھ گچھ کی، اور پھر مبینہ طور پر انھیں ہلاک کر دیا گیا۔
پچھلے سال، اگست میں کابل پر طالبان کے قبضے کے فوراً بعد، اندراب میں مزاحمتی جنگجوؤں نے کہا تھا کہ انھوں نے مختصر وقت کے لیے متعدد اضلاع کو ’آزاد‘ کروا لیا تھا۔
ان اضلاع پر طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد، زین الدین نامی ایک ڈاکٹر کو بچوں سمیت پانچ رشتے داروں کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر زین الدین کے ایک رشتے دار نے الزام لگایا کہ انھیں مزاحمت کاروں کا علاج کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔
رشتے دار نے غصے سے کہا کہ ’بطور ڈاکٹر ان کا فرض تھا کہ وہ سب کا علاج کریں۔‘
اس سال فروری میں دیہ صالح ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک اور ڈاکٹر خورامی کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے ایک رشتے دار نے الزام لگایا کہ انھیں پہلے طالبان کی طرف سے دھمکیاں موصول ہوئی تھیں جس میں تنبیہ دی گئی تھی کہ وہ مزاحمت سے منسلک افراد کا علاج کرنا بند کر دیں۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ ایک تیسرے ڈاکٹر زیر حراست ہیں جبکہ ایسے متعدد خاندان جن پر مزاحمت کاروں سے تعلق کا الزام ہے، کو کہا گیا ہے کہ وہ گاؤں چھوڑ کر چلے جائیں۔
صوبہ بغلان جہاں اندراب واقع ہے، وہاں طالبان کے شعبہ اطلاعات کے سربراہ اسد اللہ ہاشمی نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔
انھوں نے اس علاقے میں ایک ڈاکٹر کے قتل ہونے کا اعتراف کیا لیکن اسے ’ذاتی دشمنی‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔
اسد اللہ ہاشمی نے ماورائے عدالت قتل کے الزامات کی تردید کی کہ کسی بھی قیدی کو ہلاک کیا گیا تھا۔ البتہ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی آپریشن کے دوران ’سرکاری فورسز کے خلاف پرتشدد مزاحمت کرتا ہے‘ تو اسے قتل یا گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ دنیا میں ہر جگہ ہوتا ہے۔‘
اسد اللہ ہاشمی نے علاقے میں مزاحمتی قوتوں کی موجودگی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا لیکن ’دہشت گردوں‘ کی ایک چھوٹی سی تعداد کا ذکر کیا، جن کی اس علاقے میں طالبان مخالفت کی ایک طویل تاریخ ہے۔
اندراب اور پنجشیر دونوں پر فارسی بولنے والی تاجک برادری کا غلبہ ہے جبکہ طالبان زیادہ تر پشتون ہیں۔
طالبان 1990 کی دہائی میں اپنی سابقہ حکومت کے برعکس کچھ مقامی لوگوں کو اپنی صفوں میں کامیابی سے بھرتی کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
طالبان کے مقامی انٹیلیجنس اور پولیس سربراہان کی ایک بڑی تعداد تاجک یا فارسی بولنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ مقامی فوجی بھی ہیں جنھیں اندراب میں تعینات کیا گیا ہے تاہم زیادہ تر پشتون ہیں۔
اندراب میں بہت سے لوگ جو سابقہ افغان حکومت کی سکیورٹی اداروں کا حصہ تھے وہ طالبان کی سخت مخالفت کرتے ہیں اور انھیں اجنبی گردانتے ہیں۔
تاہم ماورائے عدالت قتل کیے جانے والے افراد کے کچھ لواحقین نے مزاحمتی فورسز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کی گوریلا حکمت عملی نے عام شہریوں کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں جو طالبان کی انتقامی کارروائیوں کا شکار ہو رہےہیں۔
بی بی سی اندراب میں ایک مزاحمتی جنگجو کمانڈر شجاع سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔
پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغام میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ہماری لڑائی انصاف، بھائی چارے، مساوات اور حقیقی اسلام کے لیے ہے۔ طالبان کے اسلام کے لیے نہیں جو مذہب کو بدنام رتا ہے۔
’ہماری لڑائی اپنی بہنوں کے حقوق کے لیے ہے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ تعلیم مرد اور عورت دونوں کے لیے لازمی ہے۔‘
اندراب اور پنجشیر میں تشدد مقامی نوعیت کا ہے اور یہ ابھی تک ملک پر طالبان کے مجموعی کنٹرول کے لیے کسی سنگین خطرے کی نمائندگی نہیں کرتا لیکن وہ اپنے پرانے مخالفین جیسی غلطیوں کو دہرانے کے خطرے میں نظر آتے ہیں۔
پچھلی دو دہائیوں کے دوران، افغان اور بین الاقوامی افواج کی طرف سے بے گناہ شہریوں کی ہلاکت اور گھروں پر چھاپوں کے الزامات نے ملک کے ان حصوں میں طالبان کی مقبولیت کو بڑھانے میں مدد کی تھی، جہاں ان کی پہلے سے موجودگی اور حمایت تھی۔
اب طالبان پر یہی الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ بغاوت کے خطرے سے نمٹنے کے لیے وہی حربے استعمال کر رہے ہیں اور انھیں احتساب کا کوئی احساس بھی نہیں۔
طالبان کے ہاتھوں مبینہ طور پر حراست میں لیے گئے اور مارے جانے والے عبدالہاشم کے رشتہ دار نے غصے سے بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’طالبان اپنی حکومت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس لیے انھیں کسی کو فوراً ہلاک کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کرنی چاہیے۔‘