امریکی ریگولیٹر کی تنبیہ ٹوئٹر باس ایلون مسک ’قانون سے بالا تر نہیں ہیں‘
امریکہ میں کاروبار کے نگراں ادارے کا کہنا ہے کہ وہ ٹوئٹر میں ہونے والی پیش رفت کو ‘گہری تشویش’ کی نظر سے دیکھ رہا ہے کیونکہ پلیٹ فارم کے ٰ پرائیویسی اور کمپلائنس سے متعلق اعلی افسران نے مبینہ طور پر استعفیٰ دے دیا ہے۔
فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) کا کہنا ہے کہ نئے چیف ایگزیکٹو ایلون مسک ’قانون سے بالاتر‘ نہیں ہیں۔
دنیا کی سب سے امیر شخصیت اور برقی کاریں بنانے والی کمپنی ٹیسلا کے مالک ایلون مسک نے حال ہی میں 44 ارب ڈالر میں ٹوئٹر کا سودا کیا تھا۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایلون مسک نے ملازمین کو بتایا کہ ٹوئٹر کے دیوالیہ ہو جانے کا خدشہ بھی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہزاروں ملازمین کے برطرف کیے جانے کے بعد سے سے کمپنی انتشار کا شکار ہے۔
صارفین کو اپنے اکاؤنٹ کی تصدیق کروانے کے لیے ایک نئی سبسکرپشن متعارف کروائی گئی ہے جس نے ان خدشات کو جنم دیا کہ اس طرح ٹوئٹر پر جعلی اکاؤنٹس کی بھر مار ہو جائے گی۔
گزشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ایلون مسک کے بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات پر ’نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔‘
یہ بات انھوں نے اس سوال کے جب میں کہی تھی جس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ایلون مسک قومی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث ہیں اور کیا ٹوئٹر کو خریدنے میں سعودی عرب کی مدد کی تحقیقات کی جانی چاہییں۔
سعودی عرب کے شہزادہ الولید بن طلال نے ٹوئٹر پر 1.89 ارب ڈالرکے حصص ایلون مسک کے تصرف میں دیدیے تھے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ایلون مسک کے دوسرے ملکوں کے ساتھ کاروباری روابط کے بارے میں وہ کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے، البتہ ان کے خیال میں ان پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔
جمعرات کوٹوئٹر میں ٹرسٹ اینڈ سیفٹی کے سربراہ یوئل روتھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنے پروفائل کو اپ ڈیٹ کیا تھا جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ اب اس منصب پر نہیں ہیں۔
رپورٹس کے مطابق چیف پرائیویسی آفیسر ڈیمین کیرن اور چیف کمپلائنس آفیسر ماریان فوگارٹی نے استعفیٰ دے دیا ہے اور کمپنی کی چیف سیکیورٹی آفیسر لیا کسنر نے بھی استعفیٰ دے دیا۔
ان استعفوں کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ضابطوں کی خلاف ورزی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ گزشتہ مئی میں صارفین کا ڈیٹا فروخت کرنے پر ٹوئٹر پر 150 ملین ڈالر جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔
ایف ٹی سی کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر ڈگلس فرّار نے کہا کہ ’ہم ٹوئٹر میں حالیہ پیش رفت پر گہری تشویش کے ساتھ نظر رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی چیف ایگزیکٹو یا کمپنی قانون سے بالاتر نہیں ہے، اور کمپنیوں کو ہمارے احکامات پر عمل کرنا ہوگا.‘