امریکہ اور برطانیہ کی فضائی کارروائیاں حوثیوں کے بحری جہازوں پر حملے روکنے میں ناکام کیوں؟
بی بی سی ویریفائی ٹیم کو معلوم ہوا ہے کہ یمن میں امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے حوثیوں کے خلاف فضائی حملوں کے باوجود خطے میں بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملے کم نہیں ہوئے ہیں۔
گذشتہ تین ہفتوں میں بحری جہازوں پر نو حملے ہو چکے ہیں جبکہ اس سے پہلے کے تین ہفتوں میں صرف چھ حملے ہوئے تھے۔
11 جنوری کو امریکہ کی سربراہی میں شروع ہونے والے حملوں کے بعد بحیرۂ احمر کے اہم تجارتی راستے کا استعمال کرنے والے جہازوں میں 29 فیصد کمی آئی ہے۔
یہ نومبر میں حوثیوں کی جانب سے حملوں کی ابتدا اور امریکی قیادت میں کی جانے والی کارروائیوں کے آغاز کے درمیان ہونے والی کمی کی ایک بڑی شرح ہے۔
حکمت عملی میں تبدیلی
حوثیوں نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ وہ اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں پر حملے کر رہے ہیں۔ یعنی وہ ان جہازوں پر حملہ کر رہے ہیں جو یا تو اسرائیل سے آ رہے ہیں یا وہاں جا رہے ہیں۔ لیکن جنوری میں شروع ہونے والے فضائی حملوں کے بعد سے انھوں نے زیادہ تر ان جہازوں کو نشانہ بنایا جو برطانیہ یا امریکہ میں مقیم مالکان یا آپریٹرز سے منسلک ہیں۔
نومبر میں شروع ہونے والے حوثیوں کے حملوں کے بعد سے اب تک 28 جہازوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ان میں سے سات جہازوں کا تعلق اسرائیلی کمپنیوں سے ہے یا وہاں کے افراد سے، یا وہ وہاں جا رہے تھے۔
بی بی سی ویریفائی نے ممکنہ حد تک ان جہازوں کے مالکانہ روابط کو قائم کرنے کے لیے جہاز رانی کے شعبے سے باخبر رہنے والے اداروں کے ڈیٹا اور سرکاری کمپنی کے ریکارڈ کا استعمال کیا ہے۔ تاہم جہاز کی مالکانہ وابستگی کی نشاندہی کرنا کوئی سیدھا اور آسان کام نہیں ہے کیونکہ کمپنی کی ملکیت جاننے کے لیے متعدد سطحوں کو جانچنا پڑتا ہے جو کہ مشکل ہو سکتا ہے۔
امریکی اور برطانوی فضائی حملے شروع ہونے کے بعد سے جن نو بحری جہازوں پر حملہ کیا گیا ہے ان میں سے پانچ کا تعلق امریکی یا برطانوی لوگوں سے تھا اور ان سے کوئی بھی قابل شناخت اسرائیلی روابط نہیں ملے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی اور برطانوی حملے کے بعد حوثیوں کے اہداف کے ساتھ ساتھ ان کی حکمت عملی بھی بدل گئی ہے۔
نومبر اور دسمبر میں ان کے حملے بحیرۂ احمر کے جنوبی سرے پر تنگ آبنائے باب المندب کے قریب مرکوز تھے جہاں بحری جہاز حوثیوں کے زیر کنٹرول یمنی علاقے کے ساحل کے بہت قریب سے گزرنے پر مجبور رہتے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں انھوں نے بنیادی طور پر خلیج عدن میں جنوب کی طرف مزید حملے کیے ہیں۔
حوثیوں نے اپنے حملوں کی حکمت عملی میں بھی تبدیلی کی ہے۔ ابتدائی طور پر انھوں نے دھماکہ خیز مواد لے جانے والے میزائل اور ڈرونز دونوں کا استعمال کیا۔ لیکن حالیہ حملوں میں یمن سے داغے گئے میزائلوں کا استعمال کیا گیا ہے۔
بحیرۂ احمر ایک اہم شِپنگ راہداری ہے اور ایشیا اور یورپ کے درمیان سامان کی نقل و حمل کا سب سے موثر راستہ ہے۔
لیکن جہازوں کی نقل وحرکت کو ٹریک کرنے والی فرم لائیڈز لسٹ انٹیلی جنس کے مطابق حوثیوں کے حملوں کے آغاز کے بعد سے اس راستے کو استعمال کرنے والے تجارتی جہازوں کی تعداد میں 50 فیصد کی کمی آئی ہے۔
یہ اس صورتحال کے بعد ہے جب امریکہ کی زیر قیادت برطانیہ کے بحری جہاز علاقے میں تجارتی جہاز رانی کی حفاظت کر رہے ہیں۔
ایسا نہیں لگتا کہ یہ کمی موسمی ہے کیونکہ پچھلے سال اسی مدت میں ایسی کوئی کمی نہیں دیکھی گئی ہے۔
جہازوں کی آمد و رفت میں کمی کیسے آئی؟
19 نومبر کو گیلیکسی لیڈر نامی جہاز کی ہائی جیکنگ پر شپنگ کمپنیوں کی طرف سے کوئی قابل فہم ابتدائی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
لیکن جہازرانی کے شعبے کے باخبر اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ یہ رجحان 15 دسمبر کے بعد اس وقت سے تبدیل ہوا ہے جب جہاز چلانے والوں نے افریقہ کے کیپ آف گڈ ہوپ کے گرد اپنے کارگو کو بھیجنے کا فیصلہ کرنا شروع کر دیا۔
بحیرہ احمر کو استعمال کرنے والے بحری جہازوں میں کمی اس کے بعد کے ہفتوں سے جاری ہے حالانکہ متبادل راستے کے استعمال کے لیے کافی زیادہ ایندھن کی ضرورت کے ساتھ ساتھ عملے کی زیادہ اجرت اور انشورنس کے اخراجات بھی شامل ہیں۔
مثال کے طور پر چین کے شہر شنگھائی سے نیدرلینڈ کے شہر روٹرڈیم تک معیاری 40 فٹ کنٹینر کی نقل و حمل کی لاگت نومبر کے وسط میں تقریباً 1,200 امریکی ڈالر سے بڑھ کر جنوری کے آخر میں تقریباً 5,000 امریکی ڈالر ہوگئی ہے۔
جیسے جیسے سامان کو ڈھونے کے کرايے میں اضافہ ہوگا اس کا ناگزیر طور پر ایندھن سے لے کر کھانے پینے تک کی تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر اثر پڑے گا۔
قیمتوں کا تخمینہ لگانے والی کمپنی آرگس میڈیا کے مطابق نہر سوئز کے بجائے مشرق وسطیٰ سے یورپ تک افریقہ کے نیچے سے سفر کرنے سے سفر کے وقت میں تین ہفتے کے اضافے کے ساتھ اس کی لاگت میں 20 لاکھ امریکی ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
مندرجہ ذیل نقشہ مصنوعی ذہانت کی بحری کمپنی ونڈوارڈ کے ڈیٹا پر مبنی ہے جس میں گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے جنوری 2024 میں افریقہ کے ارد گرد نمایاں طور پر زیادہ ٹریفک نظر آتی ہے۔
اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سوئز سے اب کم بحری جہاز گزر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ نہر کی گورننگ باڈی کا کہنا ہے کہ جنوری میں اس کی آمدنی 2023 کے اسی مہینے کے مقابلے میں 44 فیصد کم ہوئی ہے۔
اس مفروضے کے تحت یہ توقع بھی کی جا رہی ہے رواں سال آمدنی میں 40 فیصد کمی ہو کر چھ ارب ڈالر ہو جائے گی۔
لایڈ لسٹ انٹلیجنس کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خاص طور پر کنٹینر بحری جہازوں کی قسم جیسے جہازوں کے بارے میں درست ہے، میئرسک کی طرح بہت بڑی کمپنیاں بحری جہازوں کی عالمی تعداد کے بڑے حصے کو کنٹرول کرتی ہیں۔
گذشتہ دو سالوں میں سویز نہر کا استعمال کرنے والے آئل ٹینکرز کی تعداد تقریباً دوگنی ہو گئی ہے کیونکہ روسی توانائی کے خلاف پابندیوں نے یورپی ممالک کو ایشیا سے تیل اور گیس کے حصول پر مجبور کیا ہے۔
حوثیوں کے حملے شروع ہونے کے بعد سے اس میں کمی آئی ہے۔ حالانکہ یہ کمی کنٹینر شپنگ میں آنے والی ڈرامائی کمی کی طرح نہیں ہے۔
خطرات کو کم کرنا
بحیرۂ احمر کے راستے کے خطرات کا انتخاب کرنے والے جہاز چلانے والوں نے حملے کے امکان کو کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔
کچھ کمپنیاں ہائی جیکنگ کی کسی بھی کوشش کو پسپا کرنے کے لیے اپنے جہازوں پر مسلح سکیورٹی ٹیموں کو رکھنے پر خرچ کر رہی ہیں۔
دوسروں نے اپنی آن بورڈ اے آئی ایس ٹریکنگ کو غیر فعال کر دیا ہے۔ اے آئی ایس وہ نظام ہے جو تمام تجارتی جہازوں کو اپنی پوزیشن اور اعلان کردہ راستے کی نگرانی کی اجازت دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے غیر فعال ہونے نے حوثی فورسز کے لیے انھیں تلاش کرنا مشکل بنا دیا ہے۔
کچھ نے اپنے محل وقوع کے ساز و سامان پر ’اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں‘ کا اعلان کیا ہے یا ’مسلح گارڈز‘ رکھے ہیں یا پھر ان کے ’تمام چینی عملے‘ ہیں۔
کچھ چینی کمپنیوں نے حوثیوں کی طرف سے محفوظ گزرنے کی یقین دہانیوں کا فائدہ اٹھایا ہے اور لایڈز لسٹ انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ نومبر کے آخر سے بحیرہ احمر سے گزرنے والے تمام جہازوں میں چینیوں سے منسلک شپنگ کا تناسب 13فیصد سے بڑھ کر 28 فیصد ہو گیا ہے۔