الیکشن 2024 وہ امیدوار جنھوں نے ’خیرات کی نشست

الیکشن 2024 وہ امیدوار جنھوں نے ’خیرات کی نشست

الیکشن 2024 وہ امیدوار جنھوں نے ’خیرات کی نشست‘ ٹھکرائی اور کھلے دل سے شکست تسلیم کی

آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد پاکستان میں حکومت سازی کے لیے سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے جس دوران مبینہ دھاندلی کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔ مگر بعض ایسے امیدوار بھی ہیں جنھوں نے کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کی، اس بات سے بھی قطع نظر کہ وہ ووٹوں کی گنتی میں جیتے یا ہارے۔

جیسے جب جماعت اسلامی کے کراچی کے امیر حافظ نعیم سندھ اسمبلی کی صوبائی نشست پی ایس 129 پر جیتے تو انھوں نے خود ہی اس فتح کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ’ہمیں خیرات کی سیٹ نہیں چاہیے۔‘

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما معاذ مقدم کے 20608 ووٹوں کے مقابلے حافظ نعیم الرحمان 26269 ووٹ لے کر یہ الیکشن قریب ساڑھے پانچ ہزار کے مارجن سے جیت چکے تھے۔ مگر انھیں یہ قابل قبول نہیں تھا۔

12 فروری کو کی جانے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران حافظ نعیم نے الزام لگایا کہ اس حلقے میں ’بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی‘ جبکہ الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو ’لیول پلینگ فیلڈ ہی نہیں دی۔‘

ان کا دعویٰ تھا کہ انھیں 26 ہزار نہیں بلکہ 30464 ووٹ ملے تھے۔ ’لیکن مجھ سے بھی زیادہ ووٹ تحریک انصاف کے آزاد امیدوار (سیف باری) کو ملے ہیں۔ میں اتنا ظرف رکھتا ہوں کہ میں اعلان کرتا ہوں کہ وہاں پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار جیتے ہیں۔‘

اگرچہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی دھاندلی کی دعوؤں کی تردید کی گئی ہے تاہم حافظ نعیم اور ان سمیت کئی دوسرے امیدوار یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ کئی حلقوں میں جبری طور پر نتائج تبدیل کیے گئے۔

خیال رہے کہ کمیشن نے انتخابات کے روز انتخابی نتائج میں تاخیر کی وجہ موبائل سروس اور موبائل انٹرنیٹ سروس کی معطلی کو قرار دیا تھا۔

ادھر حافظ نعیم کے الزامات کی تريد کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے ان کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

تحریک انصاف

’یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ پی ٹی آئی کو سیٹ ہرا دی گئی‘

کچھ رہنماؤں نے اپنی شکست کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے انتخابات کے نتائج میں رد و بدل کے الزام لگائے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سابق رہنما اور این اے 47 سے آزاد امیدوار مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا کہ ’مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں۔‘

مگر ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار علی بخاری کو حلقہ 48 این اے اسلام آباد کی سیٹ ہرا دی گئی ہے جبکہ وہ واضح جیتے ہوئے تھے۔ جن موصوف کو نتیجہ بدل کر جتایا گیا ہے وہ دوڑ میں کہیں بھی نہ تھے۔‘

انھوں نے مزید یہ دعویٰ کیا کہ ’شعیب شاہین بھی حلقہ 47 سے واضح برتری کے ساتھ جیت چکے ہیں لیکن نتائج ان کے بھی حوالے نہیں کیے جا رہے۔ یہ بدترین دھاندلی آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔‘

اسی طرح سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر نے بذریعہ ایکس یہ پیغام لکھا ’میں نے این اے 241 پر مہم بھی نہیں چلائی، میں نے صرف این اے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔۔۔ صرف پی ایس 110 کے لیے انتخابی مہم چلائی اور پھر بھی ووٹرز نے ہمیں این اے کی نشست پر 1027 ووٹ دیے جبکہ ایم کیو ایم کے فاروق ستار کو انتخابی مہم چلانے کے باوجود صرف 494 ووٹ ملے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی موجودہ مقبولیت کی یہی حقیقت ہے۔ پی پی پی دوڑ میں کہیں بھی قریب نہیں تھی اور انھیں فاتح قرار دینا اور پی ٹی آئی کو دوسرے نمبر پر رکھنا ایک مذاق ہے۔‘

’میرے حلقے کے ووٹرز کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ ہمارے لیگل ایڈ سیل کے اراکین خوش دلی سے این اے 241 کے لیے خرم شیر زمان کی نمائندگی کریں گے۔‘

الیکشن کمیشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ’انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتا ہے تاہم اُکا دُکا واقعات سے انکار نہیں جس کے تدارک کے لیے متعلقہ فورمز موجود ہیں اور الیکشن کمیشن ان دنوں میں بھی دفتری اوقات اور دفتری کے بعد بھی دیر تک ایسی شکایات کو وصول کر رہا ہے اور ان پر فوری فیصلے بھی کیے جا رہے ہیں۔‘

 

پولنگ

’جو ہارا ہے اسے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنا چاہیے‘

ادھر سیاسی میدان میں ایسے امیدوار بھی ہیں جنھوں نے الیکشن میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے حریف رہنما کو مبارکباد پیش کر دی۔

مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے محسن شاہنواز رانجھا کا بیان بھی سوشل میڈیا کی زینت بنا جس میں انھوں نے کہا ’فارم 45 اکٹھے کرتے ہوئے مجھے آزاد امیدوار مضبوط نظر آ رہا تھا۔ میں نے اپنا رزلٹ قبول کیا ہے۔ دوسروں کو بھی چاہیے کہ اپنی ہار تسلیم کریں۔‘

بی بی سی نے محسن رانجھا سے پوچھا کہ اپنے سیاسی حریفوں کے حق میں بیان دینے کے لیے آپ کو کس چیز نے محرک کیا؟

اس پر انھوں نے کہا کہ ’2018 میں میرے ساتھ بالکل یہی ہوا تھا۔ عوام کی جانب سے مجھے ملنے والا مینڈیٹ چھینا گیا تھا، جس کا مجھے انتہائی دُکھ تھا۔ جب اس مرتبہ میرے سیاسی حریف کے ساتھ وہی ہوا جو میرے ساتھ ماضی میں ہوا تھا تو مجھے وہ مناسب نہیں لگا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ عوام کے مینڈیٹ کی عزت ضروری ہے اور پاکستان کے لیے بھی یہی ٹھیک ہے۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ کی جماعت پر یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ اس کی سوچ تو بظاہر موجودہ حالات میں ان کے موقف کے برعکس دکھائی دے رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے نزدیک یہ نہیں ہونا چاہیے۔ جو ہارا ہے اسے کھلے دل سے عوام کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔ یہ میرا ذاتی موقف ہے پارٹی کا بیانیہ نہیں۔‘

حافظ نعیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اصول کی بات یہی ہے کہ دھاندلی کرنے کے بجائے عوام کا مینڈیٹ قبول کیا جائے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میری پارٹی کی تربیت یہ ہے کہ انسان کا کردار سب سے پہلے ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم بھی سودے بازی کرتے اور سیٹیں جیت جاتے۔ کیونکہ ہم اصول کی سیاست کرتے ہیں اس لیے میں نے یہ گوارا نہیں سمجھا کہ میں خیراتی سیٹ قبول کروں۔‘

بی بی سی سے گفتگو کے دوران جبران ناصر نے کہا کہ ’اگر ہم یہ کہیں کہ اخلاقیات کی وجہ سے لوگ سامنے آکر اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ ہم نے کسی ایسی بڑی جماعت کی طرف سے یہ ٹرینڈ نہیں دیکھا۔

’نہ تو پیپلز پارٹی کا کوئی بڑا نام سامنے آیا اور نہ ہی مسلم لیگ ن کی طرف سے ایسا کوئی بیان سامنے آیا۔ میرے خیال میں جن لوگوں کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آئے ہیں وہ ان کا انفرادی فیصلہ ہو سکتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔‘

تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ویسے تو تاریخ میں ایسی مثالیں نہیں ملتی ہیں۔ اس لیے یہ ٹرینڈ پہلی مرتبہ ہی سامنے آیا ہے۔ لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ اصولوں کی وجہ سے یہ لوگ سامنے آکر ایسے بیانات دے رہے ہیں تو یہ غلط ہوگا۔‘

ان کی رائے میں ’سیاسی لوگ ہمیشہ اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہیں۔ لیکن ایک چیز جو اس مرتبہ زیادہ حیران کن ہے وہ یہ کہ وہ پارٹیاں جو پہلے فوج کی اتحادی ہوا کرتی تھیں جیسا کہ پیر پگاڑا، جماعت اسلامی انھیں بھی اس بار شکوہ ہے۔ سیاست مفادات کی گیم ہے جو اخلاقیات سے بالاتر ہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *