الجزیرہ کے سٹاف کے خلاف ڈرانے دھمکانے اور ہراس کے الزامات کو نظر انداز کیا جاتا رہا، بی بی سی کی تحقیق
تجربہ کار ٹیلی ویژن صحافی کماہل سانتاماریا کو نیوزی لینڈ کے اعلیٰ نشریاتی ادارے ٹی وی این زیڈ میں ابھی اپنی ملازمت کے صرف 32 دن ہوئے تھے کہ انھوں نے وہاں سے استعفی دے دیا۔
نیوز روم میں ان کے نامناسب رویے کے بارے میں الزامات سامنے آنے پر جہاں لوگوں کو حیرت ہوئی وہیں ایک قسم کا صدمہ بھی نظر آیا۔ اس کے بعد الجزیرہ میں کماہل سانتاماریا کے سابق ساتھیوں نے بھی ان کے بارے میں بولنا شروع کر دیا جہاں اس سے قبل انھوں نے 16 سال کام کیا تھا۔
بی بی سی کی تحقیقات میں الجزیرہ کے کئی موجودہ اور سابق ملازمین سے بات چیت کی گئی جس میں نامناسب پیغامات اور عملے کی شکایات کے دستاویزی شواہد ملے۔ ان میں سے بعض میں ادارے کے دوحہ نیوز روم میں مسٹر سانتاماریا کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے کئی الزامات شامل ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسے واحد شخص نہیں ہیں۔
وہ کمپنی پر زہریلے کام کے کلچر کو فروغ دینے کا الزام بھی لگاتے ہیں جہاں ہراساں کرنے، سیکسزم یا جنسی تعصب، غنڈہ گردی اور نسل پرستی کی شکایات کا زیادہ تر ازالہ نہیں کیا جاتا ہے۔ بی بی سی سے بات کرنے والوں نے نام نہ ظاہر کیے جانے کی خواہش ظاہر کی کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ اس سے ان کے کریئر متاثر ہوں گے۔ یہاں ان کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
مسٹر سانتاماریا نے بی بی سی کو براہ راست جواب نہیں دیا۔ لیکن انھوں نے ایک عوامی بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے پہلے سے لگائے گئے الزامات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ‘سچ ہیں، کچھ سیاق و سباق سے عاری ہیں، کچھ سراسر جھوٹ اور تاریخ کو دوبارہ تحریر’ کرنے کی کوشش ہیں۔
بی بی سی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے جواب میں انھوں نے اعتراف کیا اور اپنے ‘اس رویے کے لیے معافی مانگی جس سے کسی کو تکلیف ہوئی ہو’ اور جسے وہ پہلے ‘چھیڑ چھاڑ، حد سے زیادہ دوستانہ، ‘بس تھوڑا سا مذاق’، یا نیوز روم کے مروجہ کلچر میں قابل قبول حد کے اندر سمجھتے تھے درحقیقت وہ ان حدود کے اندر ‘نہیں’ تھے۔
بی بی سی نے الجزیرہ کو ان 22 الزامات کی ایک تفصیلی فہرست بھیجی جو تحقیقات کے دوران ملی تھیں۔ لیکن ادارے نے ہر الزام پر علحیدہ سے بات نہیں کی بلکہ مجموعی طور پر یہ کہا کہ ادارہ ‘دنیا بھر میں اپنے عملے کو کمپنی کی ریڑھ کی ہڈی اور بنیاد سمجھتا ہے، ان کی حفاظت اور تندرستی (ان کے لیے) انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔’ اس نے مزید کہا کہ ’95 سے زیادہ قومیتوں کے ساتھ کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم کے طور پر ہم سب کے لیے ایک صحت مند اور تعمیری کام کا ماحول بنانے کی مسلسل کوشش کرتے ہیں۔’
ملازمین نے بی بی سی کو یہ بھی بتایا کہ وہ خلیج کے قلب میں واقع گیس سے مالا مال چھوٹی ریاست قطر میں اپنے مسائل اٹھانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ قطر کو انسانی حقوق اور صنفی مساوات کے ریکارڈ کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بہت سے لوگوں نے الجزیرہ سے مسٹر سانتاماریا کی رخصتی اور ٹی وی این زیڈ سے ان کے استعفی کے درمیان تضاد کی طرف اشارہ کیا۔ ایک میں ایک قابل فخر ٹویٹ کا ذکر ہے جس میں ان کے 16 سالہ کامیاب دور کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے میں انھیں الزامات کی بوچھار کے درمیان جلدی ہی مستعفی ہونا پڑتا ہے۔
‘مجھے اپنے چہرے سے اس کا لعاب صاف کرنا پڑا’
نیوزی لینڈ میں ایک ٹی وی رپورٹر کے طور پر اپنے کریئر کا آغاز کرنے والے مسٹر سانتاماریا کو الجزیرہ نے سنہ 2005 میں دوحہ میں اپنی انگریزی زبان کے چینل پر بطور پریزینٹر رکھا تھا۔
ان کے عہدوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا اور وہ سنہ 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات سمیت دیگر فلیگ شپ پروگراموں کے تحت دنیا بھر سے بڑی کہانیوں کو ایک اینکلر کے طور پر پیش کرتے رہے۔
جو لوگ انھیں جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ خرچیلے، باتونی اور ‘غیر معمولی براڈکاسٹر’ تھے۔
ٹوری کہتی ہیں کہ جب وہ الجزیرہ میں ایک نوجوان پروڈیوسر تھیں جب تو سانتاماریا ان پر غیر ضروری توجہ دینا شروع کر دی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اسے ٹوئٹر پر پیغام دیتے کہ وہ گلے ملنے کے لیے دستیاب ہیں اور پوچھتے کہ انھوں نے انھیں اپنی چھٹی پر کیوں نہیں بلایا۔ بی بی سی نے ان نامناسب پیغامات کے شواہد دیکھے ہیں جو مسٹر سانتاماریا نے ٹوئٹر، واٹس ایپ اور الجزیرہ کی اندرونی ای میل پر اپنے ساتھیوں کو بھیجے تھے۔
ٹوری نے کہا کہ ‘اس کے بعد دفتر میں چھونے اور پکڑنے والی باتیں ہونے لگیں۔ کندھے پر ہاتھ رکھنا، عجیب طرح سے گلے لگانا، اور سب سے برا گال پر بوسہ لینا، ایک سے زیادہ مواقع پر تو مجھے اپنے چہرے سے کماہل کا تھوک صاف کرنے کے لیے باتھ روم جانا پڑا۔’
ٹوری کا کہنا ہے کہ انھوں نے کم از کم ایک ساتھی اور درمیانی درجے کے مینیجر کے ساتھ مسٹر سانتاماریا کے رویے پر بات کی دونوں نے بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں تصدیق کی کہ یہ بات چیت ہوئی تھی۔
ٹوری کا کہنا ہے کہ ‘ایک سنجیدہ نیوز روم میں ایک پیشہ ور آدمی کو ایک سے زیادہ یہ نہیں بتایا جانا چاہیے کہ وہ اپنے ساتھی کو یہ پیغام دے کہ وہ کتنی ہاٹ نظر آتی ہیں یا اس کی ‘چھاتی’ کا حوالہ دینا یا اسے گلے لگانے کے لیے مدعو کرنا چاہے وہ اسے اپنا دوست ہی کیوں نہ سمجھتے ہوں۔’ ایک سے زیادہ لوگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مسٹر سانتاماریا اپنی شریک میزبان کی چھاتیوں کے بارے میں تبصرے کیے ہیں۔
کئی موجودہ اور سابق ساتھیوں نے الزام لگایا کہ وہ مسٹر سانتاماریا کے ایسے رویے کے ایک سے زیادہ مواقع پر گواہ رہے ہیں۔
الجزیرہ میں کام کرنے والے ایک مرد ملازم نے بتایا کہ مسٹر سانتاماریا نے کس طرح نیوز روم میں بغیر اجازت ان کے منہ پر بوسہ دیا۔ چینل میں ایک نیوز ایڈیٹر جو اب ایک سینیئر لیڈر ہیں وہ مبینہ طور پر اس کے گواہ ہیں۔
ایک اور سابق جونیئر پروڈیوسر نے کہا کہ مسٹر سانتاماریا نے کام کے دوران کئی لوگوں کے سامنے ان کی گردن پر بوسہ دیا۔ انھوں نے کہا: ‘میں بہت شرمندہ اور افسردہ تھی اور واقعی پریشان تھی کہ لوگ کیا سوچیں گے کہ میں اس کے ساتھ ہوں یا ان کے ساتھ ہونے کی کوشش کر رہی ہوں۔ میں اس وقت ابھی دوست بنا ہی رہی تھی، انتظامیہ میں کوئی ایسا نہیں تھا جس سے میں اس کے بارے میں بات کر سکتی تھی۔’
ان میں سے بہت سے لوگوں نے مسٹر سانتاماریا کے رویے کو ڈھٹائی قرار دیا، لیکن کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی اسے رپورٹ نہیں کیا کیونکہ انھوں نے انھیں نیٹ ورک کے ایک سٹار کے طور پر دیکھا، جبکہ ابھی وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے کریئر کی ابتدا میں تھے۔’
فیونا نے الجزیرہ کے ساتھ چار سال تک فری لانس کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسٹر سانتاماریا نے نیوز روم میں انھیں گلے لگانے کی کوشش کی، جنسی تبصرے کرنے اور نامناسب ٹیکسٹ پیغام بھیجے جسے وہ ‘ٹیکسٹ بک گرومنگ’ کہتی ہیں۔
انھوں نے باضابطہ طور پر شکایت نہیں کی، لیکن وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کی اطلاع ایک درمیانے درجے کے مینیجر کو دی جنھوں نے کہا: ‘کیا وہ اب بھی ایسا کر رہا ہے؟’ ان سے کہا گیا کہ کیا وہ ایچ آر سے رجوع کرنا چاہتی ہیں لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ مختصر مدت کے معاہدے پر تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد انھیں مسٹر سانتاماریا کو نظر انداز کرنے کا مشورہ دیا گیا۔
اس کے بعد مسٹر سانتاماریا نے ان سے بات کرنا چھوڑ دیا۔ وہ مزید کہتی ہیں لیکن انھوں نے نئے ملازمین کو اس کے بارے میں خبردار ضرور کیا۔
جب رواں سال کے شروع میں یہ الزامات منظر عام پر آئے تو وہ کہتی ہیں کہ انھیں گھبراہٹ کا دورہ پڑا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘میں نے ان کے بارے میں چھ سال پہلے اطلاع دی تھی، اور کچھ نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد اس نے نہ جانے کتنے اور لوگوں کے ساتھ ایسا کیا ہو گا؟’
‘میں اپنے کریئر کے بارے متفکر تھی’
فیونا اور دیگر پوچھ رہے ہیں کہ مسٹر سانتاماریا کے خلاف ان کی شکایات پر انکوائری کیوں نہیں ہوئی جیسا کہ ٹی وی این زیڈ میں الزامات سامنے آتے ہی آزادانہ طور پر ان کے متعلق اور ان کی تقرری کے متعلق جانچ کی گئی۔ انھیں معلوم ہوا کہ ‘اہم پریزینٹر’ کی خدمات حاصل کرنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ ناکافی تھا اور مسٹر سنتاماریا کی خدمات حاصل کرنے والے خبروں کے سربراہ نے استعفیٰ دے دیا۔
ایسا لگتا ہے کہ اب الجزیرہ میں ایک حساب کتاب کا عمل جاری ہے۔ بی بی سی کو معلوم ہوا ہے وہاں کہ الزامات مسٹر سانتاماریا اور نیوز روم سے آگے بھی جاتے ہیں۔
ایک سابق پروڈیوسر اور نامہ نگار کا کہنا ہے کہ مسٹر سانتاماریا کے علاوہ کم از کم دو دوسرے مردوں نے انھیں ہراساں کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان میں سے ایک مینیجر تھا جو انھیں اس وقت اپنے گھر آنے کے لیے کہتا تھا جب ان کی بیوی گھر پر نہیں ہوتی تھی، اور دوسرا ان کا لائن مینیجر تھا۔
انھوں نے کہا: ‘میں بہت خوفزدہ تھی کہ اگر میں نے اس کی پیش قدمی کو شدومد سے روکنے کی کوشش کی تو وہ میرا کریئر خراب کر دے گا۔’
الجزیرہ کے دوسرے شعبے میں متعدد خواتین اور مردوں نے بھی درمیانی درجے کے مینیجر کے خلاف ہراساں کرنے کا الزام لگایا ہے۔
ایک خاتون نے بتایا کہ ‘اس نے سب سے زیادہ نامناسب بات کہی ہے، وہ مرد ملازمین سے پوچھتا ہے کہ وہ دوسری شادی کب کر رہے ہیں یا وہ ابھی تک اپنا کنوارہ پن کھویا ہے کہ نہیں۔ وہ رمضان کے دوران سیکس کے بارے میں بات کرتا اور حجاب پہننے والی خواتین سے پوچھتا ہے کہ ان کے بالوں کا رنگ کیا ہے۔’
انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے ان کی ایک ساتھی نے استعفیٰ تک دے دیا ہے۔ بی بی سی نے عملے کے ایک اور رکن سے بات کی جس نے تصدیق کی کہ انھیں اس شخص نے ہراساں کیا تھا۔
اس کے محکمے کے اراکین کے مطابق اس شخص نے الزامات کے سامنے آنے کے کئی ماہ بعد اب الجزیرہ چھوڑ دیا ہے۔
‘ہم سب بے حس ہیں’
ایک سابق ملازم کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہراساں کیے جانے کی وجہ سے استعفیٰ دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ‘لوگ مختلف قسم کی چیزوں پر ناراض ہیں اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ الجزیرہ اور قطر میں اپنی بات اٹھا سکتے ہیں۔’
ان کا کہنا ہے کہ ان کی اور دوسروں کی سب کے سامنے تذلیل کی گئی۔ جسے انھوں نے ‘دشمنانہ لبادے کے تحت’ ایک ہی ساتھی کے ہاتھوں متعدد بار ذلیل کیا جانا قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین بھی ان کی ‘تذلیل’ کرتیں اور ان کے سینیئر ساتھی ان کا میٹنگز میں ‘مذاق اڑاتے’۔
ڈیوڈ کے مطابق ان کے ‘دبنگ’ اور ‘بدتمیز’ انداز کی وجہ سے ٹیم میں ہر کوئی بشمول سینیئر پروڈیوسر ان سے ‘خوفزدہ’ رہتے تھے۔ لیکن، وہ مزید کہتے ہیں کہ کسی نے بھی ان کے بارے میں شکایت نہ کی کیونکہ وہ ایک اعلیٰ مینیجر کے قریب تھیں۔
ایک اور موجودہ ملازم نے کہا کہ ‘ہم سب بے حس ہیں۔ اجتماعی صدمے جیسے الفاظ سابق اور موجودہ عملے کے ذریعے اچھالے جاتے ہیں۔’
دوحہ نیوز روم میں کام کرنے والے لیام کے مطابق کئی ملازمین کو ‘سالہا سال تک’ ہراساں کیا گیا ہے۔
بی بی سی کو الجزیرہ کے لندن نیوز روم میں بھی مبینہ ہراس کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ اور کم از کم دو لوگوں نے ایک اور بیورو میں ہونے والے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے جس میں ایک مرد بیورو چیف نے ایک نوجوان خاتون نامہ نگار کو دھکا دیا جس سے وہ گر گئیں۔
ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ ‘کمال ترغیب دینے والے تھے۔’
موجودہ ملازمین کا کہنا ہے کہ جب سے ٹی وی این زیڈ کے الزامات سامنے آئے ہیں انتظامیہ نے ایچ آر کے ساتھ میٹنگیں کی ہیں لیکن لیام نے انھیں ‘مذاق’ قرار دیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ابھی تک تحقیقات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
بی بی سی نے جن سے بھی بات کی انھوں نے کہا کہ وہ بولنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان کی زندگی کا ہر پہلو ان کی ملازمتوں سے جڑا ہوا ہے۔
سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایک سینیئر فیلو مارٹی فلیکس نے کہا کہ قطر میں ملازمتوں کا نظام ورک ویزا، بچوں کے سکول، رہائش اور دیگر فوائد کو ایک مخصوص کمپنی سے جوڑتا ہے۔ اس لیے کارکنان بدسلوکی والی ملازمتیں چھوڑنے میں بھی پس و پیش کرتے ہیں۔
مارٹی فلیکس نے مزید کہا کہ وہ بدسلوکی اور نامناسب رویے کی اطلاع دینے سے بھی گریزاں رہتے ہیں کیونکہ انھیں ‘معاوضہ جیسے مؤثر تدارک کے حصول میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔’
جبکہ الجزیرہ کا کہنا ہے کہ یہ خود مختار ادارہ، اسے قطر کے امیر کی طرف سے مالی امداد فراہم کی جاتی ہے اور اس کے صحافی ریاست کے ہر پہلو کی رپورٹنگ نہیں کرتے۔ مقامی قوانین بھی آزادی اظہار پر پابندی لگاتے ہیں۔
‘کامہل کے بارے میں سب جانتے تھے’
ملازمین کا کہنا ہے کہ انھیں بہت کم اعتماد ہے کہ ان پر لگنے والے الزامات الجزیرہ میں تبدیلی کا باعث بنیں گے کیونکہ ان کے خیال میں مینیجرز برسوں سے اس طرح کی چیزوں کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔
دوحہ میں الجزیرہ کی سابق نیوز ایڈیٹر، کیٹی ٹرنر نے کہا: ‘انتظامیہ اور ایچ آر یقینی طور پر کامہل سانتاماریا کے بارے میں جانتے تھے۔ انھیں کبھی نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن انھوں نے الجزیرہ میں جو کچھ دیکھا اس کے بارے میں انھوں نے آواز اٹھائی۔
ان کا کہنا ہے کہ الجزیرہ ایچ آر کو نیوز روم میں ہراساں کیے جانے کی شکایات موصول ہوئی تھیں۔ اپنے الوداعی انٹرویو کے دوران جب وہ مسٹر سانتاماریا کا نام لینے سے پہلے ہچکچائیں تو ایچ آر مینیجر نے پوچھا کہ کیا وہ کوئی اور سینیئر لیڈر ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘اس وقت انھیں یہ احساس ہوا کہ یہ ایک وسیع مسئلہ ہے۔’
بی بی سی نے سنہ 2016 کی ایک ای میل دیکھی ہے جس میں جنسی ہراسانی، بلیئنگ، اقربا پروری اور زہریلے رویے کی نشاندہی کی گئی تھی۔ یہ ای میل ایک نیوز ایڈیٹر کو بھیجا گیا تھا، جو اب سینیئر مینیجر ہیں۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ وہ اسے آگے لے جائیں گے۔ اس میں انھوں نے مزید کہا کہ ‘مجھے امید ہے کہ یہ شیخ تک پہنچ جائے گا’ جو کہ سینیئر قیادت کی جانب اشارہ تھا۔ لیکن کم از کم 10 ملازمین نے بی بی سی کو بتایا کہ خبروں کے ڈائریکٹر کو معلوم تھا اس کے باوجود وہ مسٹر سانتاماریا کو آن ایئر مواقع فراہم کرتے رہے۔
بی بی سی نے جن ملازمین سے بات کی انھوں نے بتایا کہ سینیئر مینیجر بلیئنگ اور ہراساں کرنے سے نمٹنے کے لیے پوری طرح لیس نہیں تھے، اور یہ کہ ایچ آر پالیسی غیر واضح تھی۔
ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے نیوز روم میں بلیئنگ اور ہراساں کیے جانے کی شکایت کی تو انھیں بتایا گیا کہ انتظامیہ نے اس کی شکایت کا جائزہ لیا ہے اور اس کے بعد اس کے ذمہ دار افراد کو ملزم پائے جانے کے باوجود ایک مختلف محکمے میں منتقل کر دیا گیا۔
ڈیوڈ نے کہا کہ ‘یہ اس وقت مجھے محسوس ہوا جب میں نے استعفیٰ دیا اور الوداعی انٹرویو کیا کہ ایچ آر اس عمل میں بالکل شامل نہیں تھا۔’
بی بی سی کی درخواست پر ایک سوال کے جواب میں الجزیرہ نے کہا: ‘ہماری ہراساں کرنے کے خلاف پالیسیاں واضح، جامع اور تمام ملازمین کے لیے دستیاب ہیں۔ جیسا کہ کئی حالیہ معاملات میں واضح ہے، ہمارے عملے کی ہر رسمی شکایت کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ کیے جانے والے دعووں کی مکمل چھان بین کے بعد مناسب تدارک کی کارروائی کی جاتی ہے۔’
متاثرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2022 میں بھی پالیسی کو نظر انداز کرنا، ‘معاف کرنے والے رویے کا کلچر’ اور ‘قانون سے بالاتر سمجھے جانے والے’ لوگوں کا تحفظ خاص طور پر مایوس کن ہے، خاص طور پر الجزیرہ جیسے عالمی نیوز روم میں، اور خاص طور پر ‘می ٹو’ ہیش ٹیگ کے تناظر میں جس پر اس نیٹ ورک نے بڑے پیمانے پر خبریں نشر کی ہیں۔
ایک موجودہ ملازم نے کہا کہ ‘2022 میں سینیئر مینیجرز کے لیے بھی ایک حد ہوتی ہے کہ وہ کہاں تک بچ سکتے ہیں۔ لیکن الجزیرہ میں کوئی حد نہیں ہے۔’