افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کس صوبے پر کس کا کنٹرول ہے اور طالبان نے اتنی تیزی سے آدھے ملک پر کیسے قبضہ کر لیا؟
افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان جنگجوؤں نے گذشتہ دو ماہ میں جتنے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اتنا وہ سنہ 2001 میں اقتدار سے علیحدہ کیے جانے کے بعد سے کبھی نہیں کر سکے تھے۔
گذشتہ 20 برس میں افغانستان کے کن علاقوں پر کس کا قبضہ ہے اس کا نقشہ مستقل تبدیل ہوتا رہا ہے۔
ذیل میں بی بی سی نے ہر روز بدلتے نقشے پر نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان جنگجو زیادہ بے خوفی سے پیش قدمی کر رہے ہیں اور انھوں نے متعدد اضلاع سے سرکاری فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔
بی بی سی کی افغان سروس کی طرف سے اکھٹی کی گئی تفصیلات کے مطابق طالبان جنگجوؤں نے ملک بھر میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے جن میں ملک کے شمالی، شمال مشرقی اور وسطی صوبے، غزنی اور میدان وردک شامل ہیں۔ طالبان اب ملک کے بڑے شہروں قندوز، ہیرات، قندہار اور لشکر گاہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
جن اضلاع میں طلبان نے قبضہ کر لیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ضلعی انتظامی مراکز، پولیس کے ضلعی ہیڈکواٹر اور دیگر ضلعی اداروں کی عماراتوں سے سرکاری اہلکاروں اور سیکیورٹی فورسز کو بے دخل کر دیا ہے۔
امریکہ اور نیٹو کی افواج نے شمالی اتحاد اور طالبان مخالف دیگر مسلح گروہوں کی مدد سے نومبر سنہ 2001 میں طالبان سے اقتدار چھین لیا تھا اور کابل کے علاوہ ملک کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
طالبان پر الزام تھا کہ وہ اوساما بن لادن سمیت القاعدہ کی مرکزی شخصیات کو پناہ دیے ہوئے ہیں جن کو گیارہ ستمبر سنہ 2001 میں امریکہ پر دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
لیکن غیر ملکی افواج کی موجودگی اور افغانستان سیکیورٹی فورسز کی تربیت اور اسلح کی فراہمی پر اربوں ڈالر خرچ کیے جانے کے باوجود طالبان کو ختم نہیں کیا جا سکا اور ملک کے دور دراز علاقوں میں ان کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ وہ ان علاقوں میں اپنے آپ کو منظم کرتے رہے اور اپنی طاقت میں اضافہ کرتے رہے۔
ملک کے جن علاقوں میں ان کی سرگرمیاں جاری رہیں اور وہ زور پکڑتے رہے ان میں جنوبی اور جنوب مغربی علاقوں کے علاوہ شمال میں ہلمند، قندہار، ارزگان اور زابل کے صوبے شامل تھے۔ جنوبی میں فریاب کی پہاڑیوں، شمال مغرب کی پہاڑیوں اور شمال مشرق میں بدخشان کے پہاڑوں میں بھی طالبان کی سرگرمیوں کو نہیں روکا جا سکا۔
سنہ 2017 میں بی بی سی کی طرف سے کرائے گئے تجزیے سے معلوم ہوا تھا کہ طالبان بہت سے اظلاع میں پوری طرح مستحکم ہیں۔ اس سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ وہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی سرگرم ہیں اور ہفتہ وار یا ہر ماہ حملے کرتے رہتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ماضی میں لگائے جانے والے اندازوں سے زیادہ منظم اور مضبوط ہیں۔
ملک کی ڈیڑھ کروڑ آبادی جو مجموعی آبادی کا نصف حصہ ہے وہ طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں رہتی ہے، جہاں طالبان کھلم کھلا موجود تھے اور مسلسل سرکاری فورسز پر حملے کرتے رہتے تھے۔
کیا طالبان قدم جمانے میں کامیاب ہیں؟
طالبان سنہ 2001 کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع علاقے پر قابص ہیں لیکن صورت حال کافی غیر یقینی ہے۔
سرکاری فورسز بہت سے ضلعی مراکز سے پسپا ہونے پر مجبور ہو گئی ہیں جہاں پر وہ طالبان کے حملوں کا سامنا نہیں کر سکتی تھیں۔ لیکن کچھ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا گیا ہے۔
جن علاقوں میں سرکاری افواج کو از سر نو منظم کر لیا گیا اور مقامی لوگوں کی حمایت حاصل کر لی گئی ہے ان میں کچھ علاقوں سے طالبان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے یا وہاں لڑائی جاری ہے۔
امریکی افواج کا انخلا گو کہ جون کے مہینے سے شروع ہو گیا تھا لیکن مٹھی بھر امریکی فوجی اب بھی کابل میں موجود ہیں اور امریکی فضائیہ نے گزشتہ چند دنوں میں طالبان کے ٹھکانوںں کو نشانہ بنایا ہے۔
افغانستان کی سرکاری افواج زیادہ تر ان شہروں اور اضلاع میں اب تک اپنے قدم جمائے ہوئے ہیں جو میدانی علاقوں میں ہیں یا دریاوں کے ساتھ ترائی اور وادیوں میں واقع ہیں۔ ان ہی علاقوں میں ملک کی زیادہ تر آبادی ہے۔ طالبان کا ان علاقوں پر قبضہ ہے جہاں آبادی کم ہے اور کئی جگہوں پر فی کلو میٹر علاقے میں پچاس سے بھی کم افراد ملتےہیں۔
حکومت کا کہناہے کہ اس نے بڑے شہروں جو طالبان کی پیش قدمی کی زد میں ہیں وہاں فوجی کمک بھیج دی ہے اور تقریباً ملک بھر میں رات کے وقت کا کرفیو نافذ کر دیا گیا تاکہ طالبان کے حملوں کو روکا جا سکا۔
طالبان ہیرات اور قندہار جیسے شہروں کے قریب آتے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک وہ ان پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔
اپنے زیر قبضہ علاقوں کو توسیع دینے سے طالبان کی مذاکرات کی میز پر پوزیشن مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ ان علاقوں سے ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں۔
اس سال کے پہلے حصے میں ملک میں ریکارڈ تعداد میں شہری ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ اس سال ملک میں 1600 شہریوں کی زیادہ تر ہلاکتوں کا ذمہ دار طالبان اور حکومت مخالف عناصر کو قرار دیتی ہے۔
ملک میں جاری خانہ جنگی سے بچنے کے لیے بہت سے علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر گئے ہیں اور اس سال کے آغاز سے 3 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کے مطابق بدخشان، قندوز، بلخ، بغلان اور تخار کے وسیع علاقوں پر طالبان کے قبضے کی وجہ سے اندرون ملک مہاجرین کی ایک نئی لہر آ گئی ہے۔
کچھ لوگ عارضی طور پر اپنے گھروں کو چھوڑ کر قریبی دیہاتوں یا اظلاع میں چلے گئے تھے لیکن بعد میں واپس آ گئے لیکن بہت سے لوگ کافی دنوں سے بے گھر ہیں۔ فرانسیسی خبررساں ادارے نے خبر دی ہے کہ طالبان کے حملوں سے بچنے کے لیے بہت سے سرکاری فوجی اور مہاجرین سرحد پار کر کے تاجکستان چلے گئے تھے۔
طالبان نے ملک کے کئی داخلی راستوں پر تسلط حاصل کر لیا ہے جن میں سپن بولدک کی اہم سرحدی گزر گاہ بھی شامل ہے جو پاکستان کی سرحد سے ملتی ہے۔
ان سرحدی چوکیوں سے گزرنے والے تجارتی مال پر طالبان کسٹم اور دیگر محصولات بھی وصول کر رہے ہیں لیکن ان کو ان تجارتی راستوں سے کتنی رقم حاصل ہو رہی ہے اس کا تعین کرنا ممکن نہیں ہے اور لڑائی کی وجہ سے تجارت کا حجم بھی کم ہو گیا ہے۔
ہسمایہ ملک ایران کے ساتھ سرحدی گزر گاہ اسلام قعلہ سے ہر ماہ دو کروڑ ڈالر کے محصولات حاصل ہوتے ہیں۔ درآمدات اور برآمدات میں خلل پڑے سے ملک کے اندر منڈیوں میں خوارک اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔