افغانستان میں ٹی وی اینکر سے امریکہ کی فیکٹری میں ملازمت تک: ’یہ کام بالکل پسند نہیں لیکن خاندان کی مدد کے لیے کرنا پڑتا ہے
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد 76 ہزار افغان شہریوں کو امریکہ بھر میں آباد ہوئے تقریباً ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن بی بی سی کے صحافی سٹیفن سٹار کے مطابق ان افغان شہریوں اور خاص طور پر اپنا وطن چھوڑنے والی خواتین صحافیوں کی کہانیاں ابھی تک ان کہی ہیں۔
صحافی بصیرہ جویا کابل سے اپنے پروگرام کی اینکر ہوا کرتی تھیں لیکن جب اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا تو سب کچھ بدل گیا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے ایک مضمون لکھا اور اسے اپنے فیس بک پیج پر پوسٹ کیا اور مجھے طالبان کی طرف سے فون کالز آنے لگیں۔ اس لیے میں روپوش ہو گئی۔‘
سترہ ماہ بعد 24 سالہ بصیرہ جویا خود کو ایک بہت ہی مختلف جگہ پر پاتی ہیں۔ سیاست دانوں سے انٹرویو کرنے اور کابل میں تازہ ترین بریکنگ نیوز سے باخبر رہنے کی زندگی جا چکی ہے۔
آج وہ امریکی ریاست اوہایئو میں اپنے گھر سے کوئی سات ہزار میل دور رہ رہی ہیں۔ اگرچہ بصیرہ جویا طالبان سے بچ گئی ہیں لیکن وہ اب بھی خود کو پھنسا ہوا محسوس کرتی ہیں۔
وہ دن میں 12 گھنٹے اور ہفتے میں چھ دن ایک مینوفیکچرنگ پلانٹ میں کام کرتی ہیں۔ ان کے مطابق کام بھی کمر توڑ دینے والا ہے۔ اگرچہ جویا کے آجر کو ان سے اتنے گھنٹے کام کرانے کی ضرورت نہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ ان کے پاس دوسرا چارہ نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے اپنے خاندان کی مدد کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ان کے والدین سمیت ان کے خاندان کے چھ لوگ شمال مشرقی افغانستان کے صوبہ تخار میں رہتے ہیں، جس پر جون سنہ 2021 میں طالبان نے قبضہ کر لیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے یہ کام بالکل پسند نہیں لیکن معاشی مسائل کی وجہ سے مجھے اپنے خاندان کو پیسے بھیجنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ افغانستان میں مجھ سے بدتر حالات میں ہیں۔ میں یہاں کما سکتی ہوں۔‘
امریکی حکومت کے اس اعلان کو ایک سال ہو گیا ہے کہ افغانستان سے افراتفری کے عالم میں فوجی انخلا کے بعد اس کی دیکھ بھال میں موجود دسیوں ہزار افغان شہریوں کو ملک بھر میں میزبان کمیونٹیز میں آباد کر دیا گیا ہے۔
اگرچہ افغانستان کی درجنوں اعلیٰ ہنر مند اور نامور خواتین صحافی، طالبان کے قبضے سے پہلے اور اس دوران ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں لیکن ان میں سے بہت کم ہی صحافیوں کے طور پر اپنا کام جاری رکھنے میں کامیاب رہیں۔
’میں یہاں آئی تو ایک مختلف تصویر دیکھی‘
کینیڈا میں مقیم افغان صحافی زہرہ نادر نے گذشتہ سال ہی آن لائن اخبار ’زن ٹائمز‘ کی بنیاد رکھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ان لوگوں کو بہت ہی تکلیف دہ طریقے سے اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔ انھوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔‘
’جب آپ نے (افغانستان میں) صحافی بننے کے لیے اتنی محنت کی ہے تو آپ کو اپنے کیے پر فخر ہوتا ہے۔ پھر اچانک وہ سب آپ سے چھین لیا جاتا ہے۔‘
زہرہ نادر نے افغانستان میں نیویارک ٹائمز کے لیے رپورٹنگ کی تھی اور سنہ 2017 میں کینیڈا منتقل ہونے کے بعد انھیں اپنے کریئر کو جاری رکھنے کی کوشش میں اسی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے ’زن ٹائمز‘ شروع کیا تو ان کے پاس جلاوطن خواتین صحافیوں کی جانب سے درخواستوں کی لائن لگ گئی۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ سب پیشہ ور ہیں اور ان کے پاس سنانے کے لیے کہانیاں بھی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس انھیں دینے کے لیے وسائل نہیں۔‘
کابل سے تعلق رکھنے والی فوٹوگرافر مریم علیمی کے پسندیدہ تجربات میں افغانستان کے لوگوں اور مقامات کی تصویر کشی کرنا تھا۔
15 سالہ کریئر کے دوران ’واشنگٹن پوسٹ‘ اور ’لندن ٹائمز‘ کے ایڈیٹوریل فوٹوگرافر کے طور پر کام کرتے ہوئے 42 سالہ فوٹو جرنلسٹ نے کہا کہ انھوں نے اپنے کیمرے کا استعمال کرتے ہوئے افغان خواتین کی کاروبار اور کھیلوں کی دنیا میں روکاٹوں کو دور کرتے ہوئے کامیابیوں کی کہانیاں ایسے وقت میں سنائیں جب وسیع تر بیانیہ افغانستان میں جاری تنازعات اور نقصانات ہوا کرتے تھے۔
انھوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کچھ حیرت انگیز تصاویر شوٹ کی تھیں، جن کے پیچھے حیرت انگیز کہانیاں تھیں۔‘
آج مریم علیمی کی زندگی کافی مختلف نظر آتی ہے۔ طالبان کے قبضے سے فرار ہونے کے بعد وہ اکتوبر سنہ 2021 میں امریکہ پہنچیں اور نیو جرسی میں رہنے کے بعد اب میری لینڈ منتقل ہو گئی ہیں او ان کا صحافتی کریئر بھی رک گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’جب میں یہاں آئی تو میں نے ایک مختلف تصویر دیکھی۔ جو نوکری حاصل کرنا چاہتی تھی وہ آسان نہیں تھا۔‘
ان دنوں وہ سینیئر رہائیشیوں کی ایک کمیونٹی میں کام کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میں اس کام سے لطف اندوز ہو رہی ہوں، لوگوں کو خوش رکھتی ہوں لیکن ظاہر ہے، اتنا نہیں جتنا میں اپنے کیمرے کے ساتھ کام کرنے میں لطف اندوز ہوتی تھی۔‘
کریئر دوبارہ شروع کرنے کی خواہش
مریم علیمی نے کہا کہ انھیں اپنے کریئر کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے اور فوٹو گرافی کی دنیا میں رابطے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کا پورا خاندان افغانستان سے منتقل ہو گیا اور اب امریکہ میں مقیم ہے لیکن اوہائیو میں بصیرہ جویا کی قسمت یقینی طور پر زیادہ مشکل دکھائی دیتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ دور سے یہ دیکھنا تکلیف دہ ہے کہ طالبان نے دسمبر میں خواتین کے یونیورسٹیوں میں جانے اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کرنے پر پابندی لگا دی۔
اس دوران وہ ہفتے میں 72 گھنٹے، فیکٹری کے فرش پر کام کرتے ہوئے اپنی اور افغانستان کے دیہی علاقوں میں اپنے خاندان کی کفالت کے لیے گزارتی ہیں۔ بصیرہ جویا ایسے وقت میں اتنا کام کر رہی ہیں جب امریکہ میں مہنگائی تقریباً اپنے ریکارڈ پر ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ان کے والد ایک پولیس افسر تھے اور حال ہی میں آنکھوں کے آپریشن کے لیے انھیں ہزاروں میل کا سفر کر کے ایران جانا پڑا۔
انھوں نے کہا کہ اس سرجری پر دو ہزار امریکی ڈالر خرچ ہوئے۔ ’اس لیے مجھے ان کی مالی مدد کرنی ہے کیونکہ ان کے پاس پیسے نہیں۔‘
بصیرہ جویا انگریزی سیکھ رہی ہیں اور اپنے صحافتی کریئر کو جاری رکھنے کے اپنے مقصد سے دستبردار نہیں ہوئی ہیں۔ انھوں نے واشنگٹن ڈی سی میں قائم کئی افغان نیوز نشریاتی اداروں سے رابطہ کیا لیکن کسی نے بھی یہ اشارہ نہیں دیا کہ ان کے لیے کوئی جگہ خالی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اب بھی میرا خواب صحافی رہنا ہے اور اب بھی میں یہی کرنا چاہتی ہوں۔‘