افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور امریکہ کا انخلا وہ

افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور امریکہ کا انخلا وہ

افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور امریکہ کا انخلا وہ سات ملک جو افغانستان میں طالبان کی ‘واپسی’ سے پریشان ہیں

شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرا خارجہ 13 سے 14 جولائی کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں مل رہے ہیں اور ان سب ملکوں کی توجہ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی پر مرکوز ہے۔

ملاقات کے دوسرے روز شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے نمائندے افغان حکومت کے ساتھ ملاقات کریں گے جہاں ملک کی صورتحال اور طالبان کی جانب سے مکمل قبضے کے خدشات پر بات چیت ہو گی۔

ایس سی او میں افغانستان رابطہ گروپ 2018 میں تشکیل دیا گیا تھا جس کا مقصد افغانستان میں امن، استحکام، اقتصادی ترقی اور دہشتگردی کا خاتمہ جیسے اہداف کا حصول ہے۔

ایس سی او کے رکن ممالک کو کیا خدشات ہیں؟

چین کا وسائل سے مالا مال صوبہ سنکیانگ اور افغانستان کے بیچ آٹھ کلو میٹر طویل سرحد ہے۔ افغان صورتحال کے پیش نظر چین کو خدشہ ہے کہ اگر طالبان اقتدار میں آئے تو اس سے سنکیانگ میں علیحدگی پسند ایسٹ ترکستان اسلامی تحریک کو پناہ اور مدد مل سکتی ہے۔

یہ ایک چھوٹا علیحدگی پسند گروہ ہے جو مغربی چین کے سنکیانگ صوبے میں متحرک ہے۔ یہ ایک آزاد مشرقی ترکستان قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سنکیانگ صوبے میں چین کی ایک نسلی مسلم اقلیت اویغور آباد ہے۔

امریکی دفتر خارجہ نے 2006 میں اس گروہ کو اویغوروں کا ایک خطرناک علیحدگی پسند گروہ قرار دیا تھا اور اسے دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ مگر گذشتہ سال نومبر میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے یہ پابندی ہٹا دی تھی۔

چین افغانستان کو بھی اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل کرنا چاہتا ہے اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے امکانات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

طالبان ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ وہ چین کو افغانستان کا دوست مانتے ہیں اور انھیں امید ہے کہ جلد ان کی بیجنگ سے تعمیر نو کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کے لیے بات چیت ہو گی۔ طالبان نے یقین دلایا ہے کہ وہ آئندہ سنکیانگ سے علیحدگی پسند اویغور جنجگوؤں کو افغانستان داخل نہیں ہونے دیں گے۔

پوتن

روس

روس کو خدشہ ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان سخت گیر اسلام کا گڑھ نہ بن جائے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر افغانستان میں اسلام کی بنیاد پر انتہا پسندی بڑھتی ہے تو اس سے پورے وسطی ایشیا کو خطرہ ہو گا۔ یعنی اگر خون بہے گا تو اس کے قطرے ماسکو پر بھی پڑیں گے۔

ممکنہ سکیورٹی وجوہات کے پیش نظر روس طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات بنا رہا ہے۔ روسی اثر و رسوخ میں رہنے والے ملک جیسے تاجکستان اور ازبکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحدیں ہیں۔ روس کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں افغان سرحدوں پر انسانی اور سکیورٹی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

طالبان کے ایک وفد نے روس کے دورے پر یقین دہانی کرائی تھی کہ افغانستان میں کسی پیشرفت سے وسطی ایشیا کے علاقوں کو خطرہ نہیں ہو گا۔

طالبان نے روس کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین کو کسی ہمسایے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیا جائے گا۔

مودی اشرف غنی

انڈیا

ایک اندازے کے مطابق انڈیا نے افغانستان میں انفراسٹرکچر اور اداروں کی تعمیر نو کے لیے تین ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کی ہے۔ انڈیا نے افغان پارلیمانی عمارت اور ملک میں ایک بڑا ڈیم منصوبہ تعمیر کیا ہے۔

اس نے یہاں تعلیم اور تکنیکی معاونت کے منصوبے بھی قائم کیے ہیں۔ اسی دوران انڈیا نے افغانستان میں قدرتی وسائل پر سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

واضح طور پر انڈیا کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں پیدا ہونے والی کسی صورتحال سے ان کی سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔ افغانستان میں پُرتشدد واقعات کے بعد انڈیا نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے۔

انڈیا کو خدشہ ہے کہ یہ پاکستان کے خلاف سٹریٹیجگ سبقت کھو دے گا۔ پاکستان پر نفسیاتی اور سٹریٹیجنگ دباؤ ہے کہ افغانستان میں انڈیا مضبوط ہو رہا ہے۔ انڈیا کے کمزور ہونے سے پاکستان کا اثر و رسوخ بڑھ سکتا ہے۔

افغان

پاکستان

افغانستان اور پاکستان کے درمیان 2611 کلو میٹر طویل سرحد ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ افغانستان میں صورتحال خراب ہونے سے اس کی سرحد پر افغان پناہ گزین کا دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ دوسرا خدشہ تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے ہے جو پاکستانی فوج کے آپریشن کے دوران افغانستان چلے گئے تھے اور اب پناہ گزین کی شکل میں پاکستان واپس آسکتے ہیں۔

حال ہی میں پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی ہوتی ہے تو اس سے پاکستان براہ راست متاثر ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشے کے پیش نظر پاکستانی فوج ہر صورتحال کے لیے تیار ہے۔

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کے مطابق افغانستان میں صورتحال بہت خراب ہے۔ ماہرین کے مطابق افغانستان سے نیٹو افواج کے جانے کے ساتھ پاکستان ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

ازبکستان اور تاجکستان

افغانستان اور ازبکستان کے درمیان 144 کلو میٹر کی سرحد ہے جبکہ تاجسکتان کے ساتھ 1344 کلو میٹر کی سرحد ہے۔

دونوں ملکوں کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں پُرتشدد واقعات بڑھنے سے پناہ گزین کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ گذشتہ کچھ ہفتوں میں ایسے واقعات ہوئے جن میں افغان فوجیوں نے طالبان کے ڈر سے ان ملکوں میں پناہ لی۔

تاجکستان سرحد پر افغانستان کے علاقوں کا ایک بڑا حصہ طالبان کے قبضے میں آچکا ہے۔ اس کی وجہ سے تاجکستان نے افغان سرحد پر 20 ہزار اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات کیے ہیں۔

ترکمانستان کو بھی اسی طرح کے خدشات ہیں جہاں یہ افغانستان کے ساتھ 804 کلو میٹر طویل سرحد رکھتا ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ آئندہ دنوں میں اس کی سرحد پر انسانی اور سکیورٹی کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ تاہم ترکمانستان ایس سی او کا رکن نہیں۔

تصویر

قازقستان اور کرغزستان

چین اور روس کی طرح قازقستان اور کرغزستان کو بھی افغانستان میں سخت گیر اسلام کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ان کی سرحدیں افغانستان سے نہیں ملتیں مگر انھوں نے اپنے ملکوں میں ایسے حملے دیکھے ہیں جن کا تعلق افغانستان سے قائم کیا جاتا ہے۔ کرغزستان بھی انتہا پسند تحریکوں سے متاثر ہوا ہے جس میں ازبکستان اسلامی تحریک جیسے سخت گیر گروہ شامل رہے ہیں۔

قازقستان نے افغانستان میں تعمیر نو کے لیے معاونت کی ہے اور یہ مالی اعتبار سے بھی افغان شہریوں کا مدد کر رہا ہے۔ قازقستان ناردرن ڈسٹریبیوشن نیٹ ورک کا حصہ ہے جو امریکہ، روس، وسطی ایشیا اور دیگر ملکوں میں بننے والی اشیا کو ٹرین اور ٹرکوں کے ذریعے افغانستان بھیجتا ہے۔

افغانستان میں امن قائم کرنے سے وسطی ایشیا کے ملک تیل، گیس یا کوئلے جیسے قدرتی وسائل انڈیا اور پاکستان سمیت دیگر جنوبی ایشیا کے ملکوں میں بھیج سکیں گے۔ اس لیے ان ممالک کی نظریں بھی افغان صورتحال پر جمی ہوئی ہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم کیا ہے؟

اپریل 1996 میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان نے نسلی اور مذہبی تناؤ کم کرنے کے لیے تعاون کی یہ تنظیم قائم کی تھی جسے شنگھائی فائیو کہا جاتا تھا۔

ازبکستان کی آمد سے اس کا نام شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔

جولائی 2005 میں آستانہ سمٹ کے بعد انڈیا، پاکستان اور ایران کو مبصرین کا درجہ دیا گیا جبکہ 2017 میں پاکستان اور انڈیا کو مکمل رکن تسلیم کر لیا گیا تھا۔

ایس سی او میں منگولیا، بیلا روس، افغانستان اور ایران مبصرین کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ آذربائیجان، آرمینیا، ترکی، کمبوڈیا، نیپال اور سری لنکا کو مذاکرات میں فریق کا درجہ ملا ہوا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *