افغانستان میں طالبان کیا پاکستان کی کرنسی میں تجارت افغانستان کی معیشت پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش ہے؟
’افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد پاکستانی مصنوعات کی طلب میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان میں سب سے زیادہ اضافہ اشیائے خوردونوش کی طلب میں ہے۔ صرف میرے کاروباری ادارے کی جانب سے افغانستان بھیجی جانے والی چیزوں کی طلب میں دو سو فیصد اضافہ ہے۔‘
یہ بات بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کاروباری شخص اور برآمد کنندہ ناصر خان نے بتائی جو افغانستان میں خوردنی تیل، چاول اور کھانے پینے کی دوسری چیزوں کی برآمد کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
ںاصر خان ملک کے تاجروں اور صنعت کاروں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم فیڈریشن آف پاکستان چمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے نائب صدر بھی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کابل میں تبدیلی افغانستان میں برآمد کرنے والے کاروباری افراد کے لیے نئے مواقع لائی ہے اور اب افغانستان سے زیادہ برآمدی آرڈرز آ رہے ہیں۔
اگرچہ پاکستانی برآمد کنندگان کو افغانستان سے زیادہ آرڈرز موصول ہو رہے ہیں تاہم دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کا حجم کچھ زیادہ نہیں ہے اور یہ صرف 1.2 ارب ڈالر تک محدود ہے۔
اس باہمی تجارت کے شعبے میں ایک نئی پیشرفت اس وقت ہوئی جب پاکستان کے وزیر خزانہ نے سینیٹ کی ایک قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ دونوں ملک اب باہمی تجارت مقامی کرنسیوں میں کریں گے۔
یہ تجارت مقامی کرنسیوں میں کب شروع ہو گی، اس کے بارے میں وزیر خزانہ نے وضاحت نہیں کی تاہم خطے میں افغاستان کی بدلتی صورتحال کی وجہ سے اسے اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
مقامی کرنسیوں میں باہمی تجارت سے پاکستان میں شرح مبادلہ یعنی ڈالر اور روپے کے درمیان باہمی قدر پر کیا اثر پڑے گا، اس پر کرنسی کے کاروبار اور تجارت سے وابستہ افراد سے اسے ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔
تاہم دوسری جانب انڈین میڈیا میں بعض حلقے اس اقدام کو ’پاکستان کی جانب سے افغانستان کی معیشت کنٹرول کرنے کی کوشش‘ قرار دے رہے ہیں۔
مقامی کرنسیوں میں تجارت کا اعلان، ڈالر کی قدر پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے؟
پاکستان کے وزیر خزانہ کی جانب سے دیے جانے والے بیان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت اب مقامی کرنسیوں میں ہو گی۔
پاکستان میں ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ پاکستان سے افغانستان ’کافی بڑی مقدار میں ڈالر سمگل ہو رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ کابل میں تبدیلی کے بعد بیرونی دنیا سے ڈالر افغانستان آنا بند ہو چکے ہیں تو اس کا اثر پاکستان پر اس صورت میں پڑا کہ پاکستان سے افغانستان ڈالر سمگل ہونا شروع ہو گئے۔
انھوں نے بتایا کہ طالبان کی حکومت آنے سے پہلے ایسی صورتحال نہیں تھی کیونکہ امریکہ اور دوسرے ممالک سے آنے والی امداد اور گرانٹس کی صورت میں بڑی تعداد میں ڈالرز افغانستان آتے تھے۔
’اب صورت حال بدل چکی ہے اور یہی سمگل شدہ ڈالر افغانستان سے پاکستان اس وقت واپس آتے ہیں جب وہاں کے درآمدی شعبے کو پاکستان سے مصنوعات خریدنا ہوں۔‘
ظفر پراچہ نے بتایا کہ افغانستان کی اپنی کرنسی ہونے کے باوجود وہاں مقامی طور پر ڈالروں کا استعمال زیادہ ہے۔ ’جیسے کہ اگر آپ مکان کرائے پر دے رہے ہیں تو وہاں (بعض اوقات) ڈالروں میں ادائیگی ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ڈالر اس لیے بھی سمگل ہو رہے ہیں کہ جو افراد افغانستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں وہ اپنی جمع پونجی ڈالروں میں بدل کر بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔
پراچہ نے بتایا کہ جب مقامی کرنسی میں تجارت ہو گی تو ڈالروں کی افغانستان میں ڈیمانڈ کم ہو گی تو پاکستان سے وہاں سمگلنگ بھی کم ہو گی۔
’ڈالروں کا رُخ اب پاکستان سے افغانستان کی طرف‘
ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کی حکومت آنے سے پہلے گذشتہ حکومت میں چھ سے سات ارب ڈالر امریکہ، 500 ملین ڈالر یوریی یونین اور افغان تعمیر نو فنڈ کے پاس 12 ارب ڈالر تھے اور ان ڈالروں کی فراوانی کی وجہ سے ان کا بہاؤ پاکستان کی جانب رہتا تھا۔
انہوں نے کہا اب یہ رجحان بدل چکا ہے اور اب ڈالروں کا رُخ پاکستان سے افغانستان کی طرف ہو گیا ہے۔
ایف پی سی سی آئی کے صدر ںاصر حیات مگوں نے اس سلسلے میں کہا کہ پاکستان سے افغانستان برآمد ہونے والے مال کی ادائیگی ڈالروں میں ہو رہی تھی کیونکہ یہاں سے ڈالر افغانستان جا رہے ہیں اور وہی دوبارہ برآمدی مال کی ادائیگی کی صورت میں پاکستان واپس آجاتے ہیں۔ ’مقامی کرنسی میں تجارت سے ڈالر پر سے یہ پریشر ہٹے گا جو ڈالر اور روپے کے شرح مبادلہ کے لیے بہتر ہو گا۔‘
ظفر پراچہ نے بتایا کہ ڈالر سمگل ہونے کی وجہ سے اس کی زیادہ قیمت پشاور میں ہے جہاں 170 روپے تک ایک ڈالر بک رہا ہے تاکہ ’اسے افغانستان سمگل کیا جا سکے جہاں یہ 172 پاکستانی روپے میں بِک رہا ہے جبکہ کراچی کی مارکیٹ میں اس کی قیمت 168 تک ہے۔‘
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مقامی کرنسیوں میں تجارت ممکن ہے؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مقامی کرنسیوں میں تجارت کیا ممکن ہے، اس پر بین الاقوامی تجارت کے امور کے ماہر اقبال تابش نے ہاں میں جواب دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کئی ممالک جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں وہاں مقامی کرنسیوں میں پڑوسی ملکوں کے درمیان باہمی تجارت ہوتی ہے۔
اقبال تابش نے بتایا کہ مقامی کرنسی کے علاوہ بارٹر سسٹم کے تحت بھی تجارت ہوتی ہے۔ تاہم ان کے مطابق ’اس کی کچھ حد مقرر ہوتی ہے کہ فلاں فلاں چیز اس نظام کے تحت مقامی کرنسیوں یا بارٹر سسٹم کے تحت ایک دوسرے کے ملک میں آ جا سکتی ہیں۔‘
تاہم ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اس سلسلے میں کہا مقامی کرنسیوں میں تجارت کے لیے بہت ساری ادارہ جاتی اور قانونی تبدیلیاں کرنا ہوں گی جن کے بارے میں ابھی حکومت نے کوئی وضاحت نہیں کی کہ وہ یہ کام کیسے کریں گے۔
قیصر بنگالی نے کہا کہ پاکستان نے اس سے پہلے کسی ملک کے ساتھ مقامی کرنسیوں میں باہمی تجارت کا کام نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ عملی طور پر پاکستان اور افغانستان یہ کیسے کریں گے، اس کا میکینزم ابھی تک واضح نہیں۔
ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ افغانستان کی معیشت کتنی بڑی ہے کہ ہم ان اقدامات سے کچھ فائدہ اٹھا سکیں۔ انہوں نے کہا بظاہر یہ بیان ہی لگتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ انتظام ان ممالک کے درمیان زیادہ سود مند ہوتا ہے جن کے درمیان تجارتی حجم بہت زیادہ ہو۔ ’یہاں لے دے کر وہ ہمیں کچھ انگور اور خشک میوہ جات بھجواتے ہیں اور ہمارے ہاں سے آٹا اور چینی جاتا ہے۔ وہ بھی زیادہ تر سمگلنگ سے افغانستان پہنچتا ہے۔‘
مقامی کرنسیوں میں ادائیگی سے باہمی تجارت پر کوئی فرق پڑے گا؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا حجم بہت زیادہ نہیں ہے اور یہ گذشتہ سال 1.20 ارب ڈالر کے قریب تھا۔
ناصر خان کے مطابق اس میں پاکستان سے کی جانے والی 787 ملین ڈالر کی برآمدات تھیں تو دوسری جانب افغانستان سے آنے والی درآمدات کی مالیت 480 ملین ڈالر سے اوپر تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ پانچ سال پہلے اس باہمی تجارت کا حجم ڈھائی ارب ڈالر تھا لیکن انڈیا نے وہاں قدم جمانا شروع کیے اور آہستہ آہستہ پاکستانی مصنوعات کی جگہ انڈین مصنوعات نے لے لی۔
ناصر نے بتایا کہ انڈین مصنوعات نے ’اپنے معیار کی وجہ سے جگہ نہیں بنائی بلکہ گذشتہ حکومت میں پاکستانی مصنوعات کو بہت سارے بے جا ٹیکسں اور ڈیوٹی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات وہاں سے غائب ہو گئیں۔‘
ناصر نے کہا کہ مقامی کرنسی میں تجارت سے یہ فائدہ ہوگا کہ انھیں کاروباری لاگت کم پڑے گی۔ ان کے مطابق وہ ’اوپن مارکیٹ سے ڈالر 170 روپے پر خرید کر اپنے برآمدی مال کی ایل سی وغیرہ کھولتے ہیں جب ہمیں اس مال کی ادائیگی ملتی ہے تو وہی ڈالر انٹر بینک میں ہمیں 168 روپے میں بیچنا پڑتا ہے۔‘
اقبال تابش نے کہا آج سے دس پندرہ سال پہلے پاکستان کی جانب سے افغانستان جانے والی برآمدات کا حجم بہت زیادہ تھا تاہم چاہ بہار ایران سے انڈین مصنوعات نے افغانستان کی منڈی میں جانا شروع کر دیا جس کی وجہ سے پاکستانی برآمدات وہاں پر بہت کم ہو گئی تھیں۔
ایف پی سی سی آئی کے صدر ناصر حیات مگوں نے مقامی کرنسیوں میں باہمی تجارت کو ایک اچھا اقدام قرار دیا۔ ان کے مطابق ’ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘
انھوں نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایسی چیزوں کی تجارت ہوتی ہے جو انتہائی ضرورت کی ہیں یعنی کھانے پینے کی مصنوعات اور کچھ دوسری چیزیں۔ ’اگر ہم ان کی یہ ضرورت پوری نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا ملک یہ چیزیں وہاں بھیج سکتا ہے۔‘
تاہم ڈاکٹر فرخ سلیم اسے کوئی قابل ذکر پیشرفت قرار نہیں دیتے۔
ان کے مطابق پاکستان کی مجموعی بیرونی تجارت میں افغانستان سے تجارت ایک بہت قلیل حصہ ہے۔ ’افغانستان کی معیشت کیا ہے؟ صرف درآمد پر انحصار کرنے والی معیشت جبکہ ان کے پاس بیچنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ افغانستان کی کل برآمدات ڈھائی ارب ڈالر ہیں اور اس کی درآمدات ساڑھے سات ارب ڈالر۔‘
انھوں نے کہا یہ کوئی ایسا اقدام نہیں ہے کہ جس سے پاکستان کی بیرونی تجارت کو بہت بڑا فائدہ پہنچے۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بھی کچھ ایسے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کوئی بڑا فائدہ پاکستان کی بیرونی تجارت کے شعبے میں نہیں آنے والا۔
کیا اس سے پاکستان کا افغانستان کی معیشت پر کنٹرول ہوگا؟
پاکستان کے وزیر خزانہ کی جانب سے افغانستان کے ساتھ تجارت کو مقامی کرنسی میں کرنے کے بیان پر انڈین میڈیا نے اسے پاکستان کی جانب سے افغانستان کی معیشت پر کنٹرول کا ایک اقدام قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اسے انڈین میڈیا کی جانب سے پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا کو سٹرٹیجک طور پر جو شکست ہوئی ہے یہ اس کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ طالبان نے بیس سال کی جنگ کے بعد حکومت سنبھالی ہے۔ ’وہ پاکستان کیا کسی کو بھی اپنے اوپر حکم نہیں چلانے دیں گے۔‘
بنگالی نے کہا ’سب سے بڑھ کر یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے پاس وہ صلاحیت، وسائل اور افرادی قوت ہی نہیں ہے کہ جو کسی دوسرے ملک کی معیشت کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے قابل ہو۔‘
ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ پروپیگنڈا نیوز کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ افغانستان کی معیشت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کر کے پاکستان کوئی فائدہ اٹھا سکے۔
’افغانستان کی معیشت کا جی ڈی پی صرف 20 ارب ٖڈالر ہے جس میں سے 75 فیصد غیر ملکی امداد پر مشتمل ہے۔ اب وہ امداد بھی رُک گئی ہے۔‘
ڈاکٹر فرخ نے بتایا کہ افغانستان کو سالانہ 14 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جو پاکستان دینے کے قابل نہیں کہ وہ اس کے ذریعے افغان معیشت پر اپنی اجارہ داری قائم کر سکے۔