افریقی ممالک میں ایڈز ہمیشہ جنسی ساتھیوں سے کنڈوم پہننے کو کہتی ہوں لیکن اکثر وہ انکار کر دیتے ہیں
اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر دنیا میں صحت سے متعلق اہم منصوبوں کو مکمل مالی ماونت حاصل ہو جائے تو دنیا میں سنہ 2030 تک ایڈز کے خاتمہ ہو سکتا ہے۔
براعظم افریقہ کے سب صحارا خطے میں شامل ممالک جہاں دنیا بھر میں ایچ آئی وی (ایڈز) متاثرین کی 65 فیصد آبادی مقیم میں بھی اس بیماری کے خاتمے میں بڑی پیش رفت دیکھی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ایڈز کے پروگرام (یو این ایڈز) کے مطابق افریقی ممالک بوٹسوانا، ایسواتینی، روانڈا، تنزانیہ اور زمبابوے پہلے ہی اس ضمن میں پچانوے، پچانوے فیصد اہداف حاصل کر چکے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ جو لوگ ایچ آئی وی سے متاثرہ ہیں ان میں سے 95 فیصد کو اپنی بیماری اور اس کی صورتحال کے متعلق علم ہے۔ 95 فیصد لوگ جو اپنی بیماری کی صورتحال جانتے ہیں وہ اس کا علاج کروا رہے ہیں۔ اور دیگر افراد جو اس سے متاثرہ تھے وہ اس کی دوائی کے باعث اس پر قابو پا چکے ہیں جس کے بعد اس وائرس کا مزید پھیلاؤ تقریباً ناممکن بن گیا ہے۔
مزید 16 افریقی ممالک میں سے آٹھ جو سب صحارا افریقہ میں ہیں، وہ بھی اس ہدف کو حاصل کرنے کے قریب ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایڈز کے ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر وِنی بائینیما نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ایڈز کا خاتمہ آج کے رہنماؤں کے لیے ایک منفرد اور طاقتور مثال قائم کرنے کا موقع ہے۔ وہ لاکھوں جانیں بچا سکتے ہیں اور ہر ایک کی صحت کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ وہ دکھا سکتے ہیں کہ قیادت کیا کر سکتی ہے۔‘
لیکن اقوام متحدہ کے ایڈز کے پروگرام کو سنہ 2025 تک کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے اپنے بجٹ میں 8.5 ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مرض کے خلاف لڑائی کی یہ پیش رفت اور کامیابی آسانی سے ضائع ہو سکتی ہے۔
سنہ 2022 میں ایڈز سے ہر منٹ میں ایک شخص کی موت ہوئی۔ بائینیما نے کہا کہ ’اس رپورٹ میں جو حقائق اور اعداد و شمار شیئر کیے گئے ہیں وہ یہ ظاہر نہیں کرتے کہ دنیا اس جانب صحیح راستے پر ہیں، وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس مقصد کے حصول کے لیے راستہ صاف اور یہ ممکن ہے۔‘
لڑکیوں کے لیے خطرہ
لیکن اب بھی اس بیماری پر قابو پانے کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں جن کو عبور کرنا باقی ہے۔ ہر ہفتے چار ہزار نوعمر لڑکیاں اور نوجوان خواتین ایچ آئی وی سے متاثر ہوتی ہیں۔
سب صحارا افریقہ کے ممالک میں ایڈز کے مرض کے خلاف کامیابی اور بہتری کے باوجود اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سنہ 2022 میں تمام نئے ایچ آئی وی متاثرہ افراد میں 63 فیصد خواتین اور لڑکیاں تھیں۔
جنوبی افریقہ کے ایک ملک بوٹسوانا میں نوجوان لڑکیاں ’بین النسل جنسی تعلقات کے باعث غیر محفوظ ہیں۔ یعنی یہاں پر بڑی عمر کے مرد نوجوان لڑکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں اور اس وجہ سے ان کا ایڈز سے متاثرہ ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘
گاون نامی خاتون کی عمر 32 سال ہے جو ایک سکول کی طالبہ کے طور پر ایچ آئی وی سے متاثر ہوئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرا ایک قریبی رشتہ دار میری بہت مدد کرتا تھا۔ وہ تیس سال کا تھا، میری عمر سے دوگنا۔ میں نے اس پر بھروسہ کیا۔ اس نے میرا فائدہ اٹھایا اور مجھ سے جنسی تعلق قائم کیا۔‘
گاون سنہ 2012 سے اینٹی ریٹرو وائرل ادویات لے رہی ہے اور وہ دو بچوں کی ماں ہے۔ ان کے دونوں بچے بھی ایچ آئی وی سے متاثر ہیں۔ اب وہ ایڈز سے بچاؤ اور اس کے پھیلاؤ کے خلاف مہم چلاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کا معاشرہ ’ریپ‘ اور ’جنسی استحصال‘ کے بارے میں کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کچھ دنوں میں مجھے پانچ سے زیادہ خواتین کے پیغامات موصول ہوتے ہیں جنھیں ایک بزرگ شخص سے ایچ آئی وی وائرس لگا تھا، ان میں زیادہ تر ان کے رشتہ دار تھے۔‘
وہ سوال پوچھتی ہیں کہ ’اگر مرد نہیں سنتے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘
مذہب کی طاقت
تمام اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ خواتین کے مقابلے میں مرد طبی امداد لینے میں زیادہ ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
بوٹسوانا اب مردوں کے رویوں کو تبدیل کرنے اور ایچ آئی وی کی منتقلی کو روکنے کے لیے مذہبی رہنماؤں کو شامل کر رہا ہے۔
مسیحی رہنما مماچاکگا ایمفو مورواک گومو، ایک مسیحی رہنما جو اس مسئلے سے نمٹنے والے کثیر العقیدہ گروپ کا حصہ ہیں کہتے ہیں کہ ’بوٹسوانا میں ایچ آئی وی سے متاثرہ 95 فیصد لوگ اپنی حالت سے آگاہ ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر جو اپنے مرض سے متعلق نہیں جانتے وہ مرد ہیں۔‘
’چونکہ لوگ مذہبی رہنماؤں کا احترام کرتے ہیں، اس لیے ہم اسے مردوں سے بات کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں تا کہ ان کی بیماری اور اس کی تازہ ترین صورتحال کا علم ہونے کے بعد ٹیسٹ کروانے اور علاج کے لیے اندراج کروانے کی ضرورت ہے۔‘
مورواک گومو کا کہنا ہے کہ مسلمان، ہندو اور بہائی مذہب کے لیڈروں کے ساتھ ساتھ مقامی افراد بھی اس مہم میں شامل ہیں اور ان میں سے چند تو گھر گھر جا کر پیغام پھیلا رہے ہیں۔
ملک کے قومی ترانے کے ایک جملے سے متاثر ہوکر اس مہم کا نام ’برادرز آرائز‘ رکھا گیا ہے۔
ایک مقامی چرچ کے پادری مراکومو کا کہنا ہے کہ ’ہمارے معاشرے میں ایچ آئی وی کو لے کر بہت سے غلط مفروضے اور ابہام پائے جاتے ہیں اور ہم مذہبی رہنما بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو معاشرہ قبول نہیں کرتا ہے، یہ بدنامی کا سبب بنتی ہے اور اس سے متاثر ہونے والوں کو ایک منفی انداز سے دیکھتے تھے اور انھیں ملزم ٹھہراتے تھے۔ ہمیں معافی مانگنے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم غلط تھے۔‘
نیشنل ایڈز اینڈ ہیلتھ پروموشن ایجنسی کی سربراہ، اونٹائریٹا لٹل ہرے کہتی ہیں کہ بوٹسوانا 2030 تک ایڈز کو ختم کرنے کے راستے پر گامزن ہے اور امید ہے کہ مذہبی رہنما اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
’اہم مسئلہ ایچ آئی وی کو بدنامی کے داغ سے پاک کرنا اور ایسے حالات پیدا کرنا ہے جہاں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد صحت کی سہولیات حاصل کرتے ہوئے آزادانہ زندگی گزارے سکیں۔‘
باقی دنیا کے حالات
باقی دنیا میں یہ رجحان اتنا بہتر نہیں ہے اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2022 میں تقریباً ایک چوتھائی نئے ایچ آئی وی انفیکشن ایشیا اور پیسیفک میں سامنے آئے تھے۔
مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں تیزی سے نئے انفیکشنز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور سنہ 2010 کے بعد سے اب تک ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد میں 49 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ جبکہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں 2010 کے بعد سے 61 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ رجحانات پسماندہ آبادیوں کے لیے ایچ آئی وی سے بچاؤ کی سہولیات کی کمی اور ’ایل جی بی ٹی کیو پلس کمیونٹی کو مجرم قرار دینے والے قوانین کی وجہ سے ہیں۔‘
لیکن ’پری ایکسپوژر پروفیلیکسس‘ یا پریپ کے نام سے جانا جانے والا علاج اس بیماری پر قابو پانے کے لیے بہتر امید پیدا کر رہا ہے۔
مشرقی ایشیا میں کمبوڈیا میں جنسی کارکنوں، ہم جنس پرستوں اور ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو ایچ آئی وی وائرس سے حفاظت کی ادویات مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔
روزانہ کھانے والی اس گولی میں ایچ آئی وی کے علاج کی دوائیں شامل ہوتی ہیں اور یہ اس وقت دی جاتی ہے جب تک کہ وہ شخص ایچ آئی وی منفی نہ ہوگیا ہو۔
ایک 32 سالہ ٹرانس جینڈر خاتون کوئی پوئی، جو کہ دارالحکومت نوم پینہ میں ایک بیوٹی سیلون میں کام کرتی ہیں کا کہنا ہے کہ ’میں تین مہینوں سے باقاعدگی سے گولیاں کھا رہی ہوں۔ پہلے کچھ دنوں میں مجھے سر میں درد رہتا تھا لیکن پھر اس کے کوئی اور سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوئے۔ میں روزانہ ایک گولی لیتی ہوں۔‘
’میں پری ایکسپوژر پروفیلیکسس یا پریپ کے نام سے جانے جانی والی ٹیبلٹ لے رہی ہوں، کیونکہ میرے ایک سے زیادہ جنسی ساتھی ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ مجھے واقعی خطرہ ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ اپنے ساتھیوں سے کنڈوم پہننے کو کہتی ہے لیکن بعض اوقات وہ انکار کر دیتے ہیں۔
کمبوڈیا میں ایک اندازے کے مطابق 76 ہزار افراد ایچ آئی وی سے متاثرہ ہیں۔ اس آبادی کا 86 فیصد، یعنی پانچ میں سے کم از کم چار افراد اپنی صحت سے متعلق آگاہ ہیں۔ ان میں سے تقریباً 99 فیصد علاج تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہیں۔
سنہ 1996 کے مقابلے میں نئے انفیکشنز میں 91 فیصد کمی آئی ہے لیکن ہر روز کم از کم چار افراد متاثر ہو رہے ہیں جو ایک تشویش کی بات ہے۔
کمبوڈیا کے دارالحکومت میں ایک غیر سرکاری تنظیم مینز ہیلتھ کمبوڈیا کے لیے کام کرنے والے ڈانو چی کہتے ہیں کہ ’پری ایکسپوژر پروفیلیکسس یا PrEP‘ کی ٹیبلیٹ ایچ آئی وی کی منتقلی کو روکنے میں کمیونٹی کی مدد کرنے کا ایک جدید طریقہ ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پری ایکسپوژر پروفیلیکسس یا PrEP‘ کی گولیاں حوصلہ افزا نتائج دے رہی ہیں، اور انجیکشن کے ذریعے اسے متعارف کرانے کا منصوبہ ہے۔
نئے علاج نے کوئی پوئی کو اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا اختیار دے دیا ہے۔ انھوں نے حال ہی میں ایچ آئی وی کا ٹیسٹ کروایا اور انھیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ منفی تھا۔